روس اور یوکرین کے درمیان جاری معرکہ اب بظاہر تیسری عالمی جنگ میں تبدیل ہوتا دکھائی دے رہاہے ۔ یوکرین کی جانب سے روس کے عسکری اڈوں پر حملوں کے بعد روس نے جوابی ردعمل کا آغاز کردیا ہے اور اطلاعات کے مطابق یوکرین کے مختلف مقامات اور دفاعی تنصیبات روسی میزائلوں کی زد پر آچکی ہیں ۔مختلف ذرائع سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے یوکرینی حملوں کو ”روسی پرل ہاربر” قرار دیتے ہوئے ہائپرسونک میزائلوں کی تعیناتی کا حکم دیا ہے جو انتہائی تباہ کن اور خطرناک ہتھیاروں میں شمار ہوتے ہیں ۔ تادم ِ تحریر ملنے والی اطلاعات سے ظاہر ہوتاہے کہ روسی طیارے اور میزائل یوکرین میں اوڈیسا کی بندرگاہ اور دیگر اہم انفراسٹرکچر کو نشانہ بنا رہے ہیںجبکہ یوکرین کے صدرزیلنسکی اور دیگراعلی حکام خفیہ مقامات پر منتقل ہوچکے ہیں۔
اس جنگ کا حساس پہلو یہ ہے کہ روسی تجزیہ نگار نیٹو کے ممکنہ اہداف پر بھی حملے کی پیش گوئی کر رہے ہیںجبکہ دوسری طرف خبروں کے مطابق برطانیہ نے بھی Fـ35 طیاروں کو جوہری بم B61ـ12 سے لیس کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔۔ چین نے اس صو ر ت ِحال کا ذمہ دار امریکہ اور نیٹو کی توسیع پسندی کو قرار دیتے ہوئے فوری مذاکرات پر زور دیا ہے۔بعض تجزیہ کاروں کے مطابق امریکہ و نیٹو کی جانب سے یوکرین کو جدید اسلحہ کی فراہمی اس تنازع کو بڑھانے کا سبب بنی ۔ قانونی ماہرین کے مطابق یوکرین کے بعض اقدامات جن میں امریکا اور میکسیکو کے جرائم پیشہ گروہوں کو فوجی تربیت دینا شامل ہے ،اس تنازع کو بین الاقوامی سطح کے جرائم میں شامل کرتے ہیں جس میں امریکا اور یورپی ممالک ملوث ہیں۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ روس کے مقابلے میں یوکرین کے لیے مغرب کی غیر مشروط حمایت اور اس ضمن میں بعض عالمی معاہدوں کی خلاف ورزی نے روسی قیادت کو مزید جارحانہ رویہ اختیار کرنے پر مجبور کیا لیکن اس کے باوجود امن مذاکرات کامیاب ہوسکتے تھے ۔ روس کی عسکری تنصیبات پر یوکرین کی جانب ڈرون حملے ایک ایسے وقت میں کیے گئے جب معاملات مذاکرات کے ذریعے حل کی جانب گامزن تھے اور حملوں سے محض اگلے ہی دن استنبول میں امن مذاکرات کا انعقادہونے جارہا تھا ۔ اب امن مذاکرات کا انعقاد آسان نہیں رہا۔ روس کے دفاعی مراکز کو نشانہ بنانا یوکرین کی ایسی حماقت ہے جس کا فی الفور کوئی تدارک دکھائی نہیں دیتا۔اس وقت ایک بڑی جنگ کی آگ بھڑک اٹھی ہے اورروس کی جانب سے کوئی بھی اقدام غیر متوقع نہیں ہے۔دراصل روس اور یوکرین کے درمیان جاری جنگ اب اس مقام پر آن پہنچی ہے جہاںسے صدیوں پر محیط مخاصمت نے ایک بار پھر پوری شدت سے جنم لے لیا ہے اور وہ تاریخی تلخیاںجو شاید وقت کی دھول میں کہیں گم ہوگئی تھیں ایک مرتبہ پھر نمودار ہوچکی ہیں اور اس مرتبہ روس شدید غیظ و غضب کے عالم میں دکھائی دیتاہے اور اس کا رویہ یہ ثابت کررہاہے کہ وہ نیٹو ممالک کو سبق سکھانے کا فیصلہ کرچکاہے ۔یوں لگتاہے کہ یوکرین کے بعد نیٹو کے بعض اہم ممالک کی باری آسکتی ہے ۔ یورپ کو بہرحال سنگین نتائج کے لیے تیار ہوجانا چاہیے ۔
فی الواقع روس اور یورپ کی باہمی دشمنی کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ قرون وسطیٰ میں یورپ روس کو ایک غیر متمدن مشرقی ریاست سمجھتا رہا، جب کہ روس مغرب کو ایک چالباز اور منافق طاقت تصور کرتا آیا ہے۔ امن مذاکرات سے محض ایک دن قبل جب کہ گفتگو اوربات چیت کے لیے ماحول سازگار ہوچکا تھا،یوکرین کے حملے نے روس میں پائے جانے والے اس قدیم تصور پر مہر تصدیق ثبت کردی ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یورپ بہر صورت روس کو اپنے قدموں پر جھکانا چاہتا ہے ۔ ماضی گواہ ہے کہ نپولین کی روس پر یلغار ہو یا ہٹلر کی مشرقی محاذ پر تباہ کن مہم، ان دونوں یورپی قیادتوں نے ماسکو کو زیر کرنے کا خواب دیکھا، لیکن روس تباہی دیکھنے کے باوجودان کے سامنے کبھی جھکا نہیں۔ سوویت دور میں جب برلن کی دیوار نے دنیا کو دو خیموں میں بانٹ دیا، تب بھی روس اور یورپ کے درمیان کشمکش کم نہ ہوئی ،اس وقت سوویت یونین کو دفن ہوئے تین دہائیاں بیت چکی ہیںلیکن روس بہرحال موجود ہے اور و ہ پہلے سے زیادہ طاقت ور اور لمبی جنگوں کے لیے تیار دکھائی دیتاہے ۔ یوکرین اس مخاصمت میں بلاوجہ ہی شامل ہوگیا ہے۔ اگر و ہ نیٹو میں شامل ہونے پر بضد نہ ہوتا تو شاید روس کو بھی اس کا رخ کرنے کی ضرورت محسوس نہ ہوتی۔ نیٹو کی مسلسل شرارتیں، مشرق کی طرف توسیع، اور یوکرین کو مغربی کیمپ میں کھینچنے کی کوشش، روس کے لیے ناقابلِ برداشت معاملہ بن گیا۔یوکرین کو جنگ کی آگ میں دھکیل کر موجودہ صورت حال میں امریکا خاموشی سے منظرنامے سے پیچھے ہٹ چکا ہے۔ اب یوکرین کی پشت پناہی کا بوجھ مکمل طور پر یورپی ریاستوں کے کندھوں پر آ چکا ہے، جو نہ صرف دفاعی لحاظ سے تقسیم کا شکار ہیں بلکہ ان کی قیادت باہمی انا اور مفادات کی اسیر بھی ہے ۔ فرانس، جرمنی اور دیگر ریاستیں ایک طرف یہ دعویٰ کرتی ہیں کہ وہ خود مختار ہیں اور انھیں دفاعی مقاصد کے لیے امریکا کی ضرورت نہیں تاہم دوسری طرف روس سے نمٹنے کے لیے اسی امریکا کی طرف نظریں جمائے ہوئے ہیں۔تجزیہ کاروںکا خیال ہے کہ یورپ، داخلی طور پر ایک مضبوط سیاسی یا عسکری اکائی نہیں رہااس لیے اگر امریکا غیر جانب دار رہا تو روس کے پاس یور پ سے پرانے حساب چکانے کا یہ ایک بہترین وقت ہوسکتاہے ۔
روس کے ذرائع نے بھی ابلاغ جنگ بندی کے وقت روس پر کیے گئے حملے کو ”پرل ہاربر” جیسا واقعہ قرار دیا ہے جس کے بعد امریکا نے جوہری ہتھیاروں کا استعما ل کیا تھا ۔ صدر ولادیمیر پیوٹن نے شدید جنگ کی دھمکی دے دی ہے ۔ان کا یہ کہنا کہ یوکرین کا درجہ حرارت سورج کی سطح تک پہنچ جائے گا دراصل واضح کرتا ہے کہ روس اپنی بے عزتی کا خوف ناک بدلہ لے گا ۔ دوسری طرف یورپ کے رویے نے بھی یہ ثابت کر دیا ہے کہ نسل پرستی، تاریخی برتری کے زعم اور روس سے نفرت کی آگ ان کے وجود میں ابھی تک سلگ رہی ہے۔ یورپ اور امریکا نے یوکرین کو جنگ کی آگ میںجھونک دیا لیکن یہ سمجھنے سے وہ قاصر رہے کہ انا اور پرانی نفرتوں کو پالنا دراصل اپنے ہی پیروں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔ان حالات میں اگر عالمی طاقتوں بالخصوص امریکا نے یوکرین اور روس کے درمیان جنگ بندی کی نئی اور بھرپور کوششیںنہ کیں تو یہ جنگ صرف روس اور یوکرین کے مابین نہیں رہے گی بلکہ پوری دنیا کو لپیٹ میں لے سکتی ہے۔بین الاقوامی برادری پر لازم ہے کہ وہ فوری اور مؤثر سفارتی اقدامات کرے، بصورت دیگر موجودہ حکمتِ عملی خود مغرب کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے اور عالمی امن ایک شدید بحران کا شکار ہو سکتا ہے۔