کم ظرف دشمن کا عروج بہت بڑا خطرہ ہوتا ہے لیکن اس سے بھی بڑی خطرناک بات کیا ہے؟ اس کا زوال! دشمن بھی وہ جس کی دیوار آپ کی دیوار سے جڑی ہو۔ جو کسی بھی وقت آپ کے گھر میں کچھ بھی کر سکتا ہو۔ اس خطرناک صورتحال میں ایک اور بات کا اضافہ کر لیجیے’ یہ کہ اسے آپ نے کاری ضرب لگا دی ہو۔ اب ان سب خطرناک چیزوں کو جمع کیجیے۔ کم ظرف آدمی’ دشمن’ ہمسایہ’ شکست خوردہ۔ ایسے دشمن کے زوال سے بھی ڈرنا چاہیے۔
مجھے شبہ نہیں کہ بھارت میں مودی کے عروج کا دور ختم ہو گیا اور وہ زوال کی طرف لڑھک رہا ہے۔ اگرچہ یہ ضروری نہیں کہ یہ بی جے پی کا بھی زوال ہو لیکن بظاہر کچھ مدت کیلئے اس کا اکثریت حاصل کرنا یا اقتدار پر دوبارہ آنا مشکل ہو گیا ہے لیکن مودی کا زوال کی طرف لڑھکنا اسے پاکستان کیلئے کم نہیں بلکہ میرے خیال میں زیادہ خطرناک بنا دیتا ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ ایک تو آپ نے اسے کاری ضرب لگائی ہے’ دوسرا اس کے پاس سیاسی جیت کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے پاکستان اور مسلم دشمنی۔ اسی کے بل پر وہ انتخابات جیتتا ہے’ عام لوگوں کو یہ تاثر دے کر کہ اس نے پاکستان پر کیسا حملہ کیا ہے’ وہ ان کے ووٹ جیتتا ہے۔ وہ اس وقت اپنی جیت کی کتنی بھی ریلیاں نکال لے’ عوامی اجتماعات میں کتنا بھی تاثر دے دے کہ اس نے آپریشن میں بہت بڑا کارنامہ انجام دیا ہے’ اس کی شکست کسی طرح چھپ نہیں رہی۔ پہلے پاکستانی اور بین الاقوامی میڈیا بہت سی باتیں بتا رہا تھا اور بھارتی میڈیا خاموش تھا۔ اب وہاں بھی آوازیں بلند ہونا شروع ہو چکی ہیں۔
خود بی جے پی کے ایک بڑے رہنما اور مودی مخالف سبرامنین سوامی نے چند دن پہلے پانچ بھارتی طیارے گرائے جانے کا اعتراف کیا ہے۔ پھر بھارتی چیف آف ڈیفنس اسٹاف نے بھی گول مول الفاظ میں پہلی بار طیارے گرنے کا اعتراف کر لیا ہے۔ آپ اس خاتون کے سیدھے سے سوال کا گول مول جواب سنیں تو دو تین باتیں آشکار ہو جاتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ بھارتی طیارہ ایک نہیں’ ایک سے زیادہ تھے۔ دوسرے یہ کہ تعداد اتنی زیادہ ہے جسے بتانے کا حوصلہ نہیں ہو رہا۔ تیسرے یہ کہ طیارے کون کون سے تھے’ یہ بتانا خود اتنی رسوائی کا باعث ہے کہ اس بات کو کیسے بتایا جائے؟ سیز فائر کے بارے میں بھی جنرل کا بیان بھارتی حکومت کے موقف سے مختلف ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ ہمارے مقاصد حاصل ہو چکے تھے اس لیے ہم نے سیز فائر خود کیا۔ دوسری طرف ٹرمپ نے ایک بار پھر کہا ہے کہ میں نے تجارت ختم کرنے کی دھمکی دے کر دونوں ملکوں سے سیز فائر کروایا۔ یہ تازہ بیان بھارتی وزارتِ خارجہ کے کئی اعلانات اور بیانات کے بعد آیا ہے۔ بھارت کو کچھ باتوں کا اقرار تو بہرحال کرنا ہی پڑا اور کچھ دن کی بات ہے’ باقی تفصیلات کا اقرار بھی کرنا پڑے گا۔ حقیقت کو کب تک الفاظ کے پردے میں چھپایا جائے گا۔ مجھے افسوس ہوتا ہے کہ بھارتی جنرلز’ ایئر مارشلز’ بیورو کریٹس اور سفیروں کو جھوٹ بولنے’ بات کو گھمانے’ خاموش رہنے پر مجبور ہونا پڑ رہا ہے۔
مودی کو اس وقت ملک کے اندر بھی بہت سے سوالات کا سامنا ہے اور اپنی پارٹی کے اندر بھی۔ میں صرف سیاسی پہلوؤں کی بات کر رہا ہوں’ ورنہ اس وقت مودی کے غلط فیصلوں نے خود بھارت کیلئے بہت سے چیلنجز ایک دم کھڑے کر دیے ہیں۔ جس دن پارلیمنٹ کا اجلاس ہوا’ اپوزیشن بی جے پی کے بخیے ادھیڑ کر رکھ دے گی۔ عوام میں اپنی ساکھ بچانا ایک کام ہے اور پارلیمنٹ میں جواب دینا دوسرا کام۔ ایک بار کچھ چیزوں کے اعتراف کر لیے گئے اور دھاگے کا سرا ہاتھ آ گیا تو سارا تانا بانا ادھڑتا چلا جائے گا۔ وہ میڈیا جو بہت مدت سے قابو کر رکھا ہے’ اس کی تو خیر ہے لیکن بین الاقوامی اور آزاد ملکی میڈیا کا سامنا بالکل الگ بات ہو گی۔ مودی جو پریس کانفرنس سے بھی گھبراتا ہے’ کیا وہ بین الاقوامی میڈیا کو اس بارے میں انٹرویو دے سکے گا؟ ایک ساتھ تین رافیل لڑاکا طیاروں کا گرایا جانا اتنا بڑا سانحہ اور اتنی بڑی شرمندگی ہے کہ تنہا اسی مشکل سے نکلنا آسان نہیں۔ یاد دلا دوں کہ جب رافیل کے مہنگے سودوں اور اس معاملے میں کچھ بھارتی کاروباریوں کی شراکت پر سوال اٹھے تھے اور سپریم کورٹ نے بھی معاہدوں کو سامنے لانے کا مطالبہ کیا تھا تو مودی حکومت نے اسے خفیہ اور قومی سلامتی کا معاملہ قرار دے کر معاملے کو دبا دیا تھا۔ اب اس معاملے پر بھی دوبارہ باتیں ہو رہی ہیں۔
جنگ بندی’ ٹرمپ’ عالمی تنہائی’ بین الاقوامی رسوائی’ مسئلہ کشمیر کا دوبارہ عالمی سطح پر اجاگر ہو جانا، دنیا میں پاکستان اور بھارت کا برابری کی سطح پر لیا جانا۔ یہ سب گزشہ ایک دو ماہ میں کسی انہونی کی طرح رونما ہو گیا ہے۔ میرے خیال میں بھارت نے جو وفد دنیا بھر میں بھیجا تھا، وہ بھی درست فیصلہ ثابت نہیں ہوا۔ وہ مسلسل پاکستان کے خلاف باتیں کر رہے ہیں مگر پاکستان کے خلاف بھارت کی مرضی کا موقف حاصل کرنے میں انہیں کامیابی نہیں ملی۔ خود بی جے پی اور آر ایس ایس کے اندر بھی مودی کی قیادت پر سوال اٹھ رہے ہیں۔ یہ دونوں مودی کی ریڑھ کی ہڈی ہیں۔ انہیں مطمئن رکھنا ضروری ہے ورنہ مودی کی عوامی مخالفت ان دونوں کے جہاز بھی ڈبو دے گی۔ یہ سوال اہم ہے کہ ایسی صورتحال میں مودی کی جگہ کوئی اور ہو تو کیا کرے گا؟ سیاسی موت قبول کرے گا؟ نفرت انگیز سیاست کا خاتمہ کرے گا یا ایک بار پھر کسی طرح سیاسی عروج پر پہنچنے کی کوشش کرے گا؟ میرے خیال میں مودی جیسے لوگ تیسرا راستہ ہی اختیار کرتے ہیں۔ یہ تیسرا راستہ اس کے خیال میں یہی ہو سکتا ہے کہ پاکستان پر کاری ضرب لگائی جائے۔ یہی راستہ ہے جس سے بھارتی تمام معاملات بھول کر ایک بار پھر مودی کو کندھوں پر بٹھا سکتے ہیں۔ میرے خیال میں مودی ذہنیت یہی راستہ چنے گی۔ یہ پاکستان کیلئے نہ صرف خطرناک بات ہے بلکہ آئندہ جنگ کیلئے ابھی سے تیار رہنا چاہیے۔ اس میں کتنے دن’ مہینے’ یا سال لگیں’ یہ سب حالات پر منحصر ہے۔ ممکن ہے خود بھارتی افواج اس کے راستے کی دیوار بن جائیں لیکن مودی کے بس میں ہو گا تو وہ یہ کام کر کے رہے گا۔ اسی لیے اس نے یہ کہا ہے کہ آپریشن ختم نہیں ہوا’ ابھی صرف وقفہ ہے۔ اسی طرح وزیر دفاع راجناتھ بھی زہر اگل رہا ہے۔
بھارتی فضائیہ اس وقت کمزور ترین صورتحال میں ہے۔ طیاروں کی ناکافی تعداد’ پائلٹوں کی کمی’ تربیتی طیاروں کی کمی سمیت اسے پاکستان اور چین دو اطراف سے طاقتور فضائی افواج کا مقابلہ کرنا ہے۔ پاکستان کو جدید J35 اسٹیلتھ طیارے مل جانے سے طاقت کا پلڑا پاکستان کا حق میں بہت حد تک جھک جائے گا۔ بری فوج بھی محدود جنگ میں پاکستانی فوج سے برتر نہیں، البتہ بھارتی نیوی برتر پوزیشن میں ہے۔ یہ مجموعی صورتحال بھارت کیلئے فوری جنگ سے دور رہنے کا تقاضا کرتی ہے لیکن مودی کا سیاسی زوال اسے ہر قیمت پر نئی جنگ کیلئے اکسائے گا۔ پاکستان کی اندر کی سیاسی تقسیم’ جو مئی کی جنگ کے بعد بہت حد تک کم ہوئی ہے’ بھارتی عزائم کیلئے سازگار ہو سکتی ہے۔ کئی تجزیہ کار’ جن میں بھارتی دفاعی مبصرین بھی شامل ہیں’ ابھی سے کہہ رہے ہیں کہ یہ عارضی جنگ بندی ہے’ آئندہ جنگ کسی وقت بھی ہو سکتی ہے۔ چھ ما ہ سے ایک سال تک کا وقت اندازوں میں شامل ہے۔ اس دوران دونوں ملک اپنی اپنی کمزوریوں پر قابو پانے کی کوشش کریں گے۔ یہ کوششیں دونوں طرف ابھی سے نظر آنے لگی ہیں۔ اہل پاکستان! فتح کے جشن موقوف کریں اور چند ماہ بعد کی تیاری کریں۔
چار خطرناک چیزیں جمع ہو چکی ہیں۔ کم ظرف آدمی’ دشمن’ ہمسایہ’ شکست خوردہ۔کم ظرف دشمن کا عروج بہت بڑا خطرہ ہوتا ہے لیکن آپ کو معلوم ہے اس سے بھی بڑی خطرناک بات کیا ہے؟ اس کا زوال۔ ایسے دشمن کے زوال سے بھی ڈرنا چاہیے۔