حج کے پانچ دن ہیں۔ آٹھ تاریخ سے لے کر بارہ تک۔ ان پانچ دنوں میں حج کے اعمال ادا کیے جاتے ہیں۔ چھٹا دن اختیاری ہے۔ چاہیں تو اس میں رَمی کا عمل کریں اور چاہیں تو اس دن کی رمی کیے بغیر آجائیں۔ لازمی مناسک جو ہر حاجی کو کرنے ہوتے ہیں، ان کا وقت پہلے پانچ دن ہیں۔ ان پانچ میں سے بھی پہلے دن میں صرف مسنون اعمال ہوتے ہیں۔ حج کے فرائض اور واجبات آخری چار دن میں ادا ہوتے ہیں۔ اس طرح کل پانچ دن میں حج ادا ہوتا ہے۔
وہ مخصوص اعمال جن سے حج مکمل ہوتا ہے، سات ہیں۔ انہیں ”مناسکِ حج” کہا جاتا ہے۔ سب سے پہلے احرام ہے۔ اس کا معنی ہے: ”نیت کرکے تلبیہ پڑھنا۔” اس سے وہ پابندیاں شروع ہوجاتی ہیں جو حاجی پر لازم کی گئی ہیں۔ وہ چیزیں حرام ہوجاتی ہیں جو حاجی کے لیے ممنوع ہیں، اس لیے اس کو ”اِحرام” (حرام کردینے والا) کہتے ہیں، یعنی اپنے اوپر ان چیزوں کو حرام کرلینا جو عام حالات میں جائز ہیں، مگر حاجی کے لیے ممنوع ہیں۔ حاجی بلند مقامات اور عظیم اجر و ثواب کو اس وقت تک نہیں حاصل کرسکتا جب تک وہ اپنے آپ کو مشقت کی اس گھاٹی سے نہ گزارے اور ان چند حلال چیزوں کو بھی اپنے اوپر عارضی طور پر کچھ دنوں کے لیے ممنوع نہ کرلے۔ احرام کی وجہ سے جو چیزیں ممنوع ہوتی ہیں، ان میں سے ایک ہے سلا ہوا لباس۔ حج یا عمرہ کی نیت کرنے اور تلبیہ پڑھنے سے پہلے ہی سلا ہوا لباس اُتار دیا جاتا ہے اور دو چادریں پہن لی جاتی ہیں۔ یہ اس احرام کی ظاہری علامت ہوتی ہے۔ اس وجہ سے ان دو چادروں کو ہی ”احرام” کہنا شروع کردیا گیا ہے کہ یہ اس خاص حالت کا لباس ہے، ورنہ احرام کا اصل معنی ہے: ”اپنے اوپر ان چیزوں کو حرام اور ممنوع کرلینا جن کی حاجی کو اجازت نہیں۔”
احرام کے بعد اگلے دو اعمال طواف اور سعی ہیں۔ یہ دو کام بیت اللہ اور صفا مروہ میں ہوتے ہیں۔ ”طواف” کا معنی ہے: بیت اللہ کے گرد سات پھیرے لگانا اور ”سعی” کا معنی ہے: صفا مروہ کے درمیان سات چکر لگانا۔ یہ دونوں عبادتیں ان دو جگہوں پر ادا ہوتی ہیں۔ حج کا چوتھا عمل وقوف ہے۔ ”وقوف” کے معنی ہوتے ہیں: کہیں پر ٹھہر جانا، کہیں پر جاکے پڑجانا کہ مراد پوری ہوگی تو یہاں سے ٹلیں گے، ورنہ ادھر ہی پڑے رہیں گے۔ حج میں دو جگہ وقوف ہوتا ہے۔ ایک عرفات میں۔ یہ حج کا ”رکن اعظم” اور حج کا سب سے اہم فرض ہے۔ دوسرا مزدلفہ میں۔ یہ واجب ہے اور اس کا کرنا بھی ضروری ہے۔حج میں دو جگہ وقوف ہوتا ہے۔ مزدلفہ میں بھی اور عرفات میں بھی۔ حج کی آخری تین عبادتیں ہیں۔ رمی، قربانی اور حلق۔ یہ تینوں ایک جگہ یعنی منیٰ میں ادا ہوتی ہیں۔ ”رمی” کا معنی ہے کنکری مارنا۔ ”قربانی” کا معنی ہے جانور ذبح کرنا اور ”حلق” کا معنی ہے بال منڈوانا۔یہ سات مخصوص اعمال ہیں جو حج میں کیے جاتے ہیں۔
عمرہ ہو یا حج احرام کی حالت کی سات پابندیاںہیں۔جو چیزیں احرام کی حالت میں ممنوع ہیں، انہیں ”جنایت” یعنی جرم کہتے ہیں۔ ان کے کرنے سے ”دم” یعنی جرمانہ آتا ہے ۔یہ سات چیزیں حاجی کے لیے ممنوع ہیں۔ ان ساتوں پر پابندی کا فلسفہ اور ان کے درمیان قدرِ مشترک یہ ہے کہ آدمی عمر بھر میںعموماً ایک ہی مرتبہ محبوب کے در پہ حاضری دینے کے لیے جاتا ہے، اس لیے اُس پر یہ دُھن طاری رہنی چاہیے میری حاضری قبول ہوجائے، میری پچھلی زندگی کے گناہوں کا کفارہ ہوجائے اور آئندہ کے لیے میری نجات کا فیصلہ بھی ہوجائے۔ اس فکر کو اپنے اوپر اتنا طاری کرنا ہے، اس دھن میں ایسا دیوانہ ہونا ہے کہ اپنے آپ کی بھی خبر نہ رہے۔دنیا سے ایسا بے گانہ بننا ہے گویا ہوش وحواس نہیں ہیں۔ بال بنانے کا، لباس پہننے کا، خوشبو لگانے کا ہوش نہ رہے یعنی اپنی زیب وزینت، اپنی راحت کی طرف توجہ نہیں دینی، بلکہ اپنی آخرت بنانے کی فکر کرنی ہے۔ یہ ساتوں چیزیں اسی فلسفے کے تحت ممنوع کی گئی ہیں۔
مرد کو چہرہ یا سر ڈھانکنا دونوں منع ہے۔عورت کے لیے چہرے کا پردہ لازم ہے، لیکن چھجے والی ٹوپی استعمال کرے تاکہ نقاب چہرے کو نہ لگے۔ عورت کے لیے دو چیزیں شرط ہیں۔ چھجے والی ٹوپی میںد ونوں پر عمل ہوجاتا ہے۔ عورت کے لیے شریعت کے دو حکم ہیں۔ ایک یہ کہ غیر محرموں کے سامنے چہرہ نہیں کھول سکتی۔ اس کے چہرے کو اس کا جو خالق ہے ”اللہ” وہی دیکھ سکتا ہے یا جس کو اس خالق نے اجازت دی ہے یعنی اس کا شوہر یا اس کے محرم مرد دیکھ سکتے ہیں۔ ان کے علاوہ کوئی نہیں دیکھ سکتا۔ پردے کی یہ پابندی اپنے ملک میں بھی ہے اور وہاں تو یہ انتہائی تاکیدی اور لازمی پابندی ہوجاتی ہے، کیونکہ وہاں کی نیکی کا ثواب زیادہ ہے تو وہاں کے گناہ کا عذاب بھی زیادہ ہے۔
اصل میں تو حاجی کو دنیا کی سب چیزیں چھوڑ کر بس صرف ستر چھپانے کے لیے دو چادروں کی اجازت ہے۔ ستر تو ایک سے چھپ جاتا ہے، اوپر کا جسم ڈھانکنے کیلئے ایک اور چادر کی اجازت ہے۔ سر، پیر ننگے ہونے چاہئیں، لیکن پیر ننگا ہونے میں یہ تکلیف ہوسکتی تھی کہ کانٹا کنکر لگ جائے، پتھر چبھ جائے، زخمی ہوجائے گا۔ فرش گرم ہے، گرمی کے موسم میں تلوے جل جائیں گے۔ اس لیے یہ اجازت دی گئی ہے تلوے کی حفاظت کے لیے چپل پہن لو، لیکن پاؤں ڈھکو نہیں۔ اس سے اوپر یا تو قینچی چپل ہو یا ایسی پٹی والی چپل ہو کہ چپل پاؤں سے تو اٹکی رہے لیکن پاؤں کی پشت کو چھپائے نہیں۔ آخری ممنوع چیز شہوت کا کوئی کام یا بات کرنا۔یہ سات چیزیں ممنوع ہیں۔ یہ سات چیزیں کب جائز ہوں گی؟
عمرے میں حلق یا قصر کرواتے ہی ساتوں کام حلال اور جائز ہوجاتے ہیں۔ حج میں پہلی چھ چیزیں جن کا تعلق انسان کے جسم کی زیب وزینت سے ہے، حلق کرانے سے حلال ہوجاتی ہیں اور ساتویں چیز جس کا تعلق تقاضائے شہوت سے ہے، اس وقت جائز ہوتی ہے جب مرد اور عورت دونوں نے طوافِ زیارت بھی کرلیا ہو۔ احرام کی وجہ سے حدودِحرم میں دو کام ممنوع ہیں۔ ایک، حرم کے جانور کا شکار کرنا۔دوسرے، حرم کے کسی گھاس، پودے اور درخت کو چھیڑنا۔اگر ان ممنوع چیزوں میں سے کسی کا ارتکاب کیا تو دم لازم آئے گا۔ اگر جنایت یعنی جرم سخت ہے تو دم، اور ہلکا ہے تو صدقہ۔ چھوٹا جانور یا بڑے جانور کا ساتواں حصہ، اس کو ”دم” کہتے ہیں۔ حج کا کوئی واجب چھوٹ گیا یا کوئی ممنوع کام کرلیا، دونوں صورتوں میں جرمانے کے طور پر دم لازم آتا ہے۔ یہ حدودِ حرم میں دینا لازم ہے۔اس میں سے حاجی یا کسی مالدار کا کھانا جائز نہیں۔ جرم ہلکا ہو تو دم کے بجائے صدقہ دینا پڑتا ہے۔ ہلکے اور سخت جرم کی تفصیل کے لیے ضرورت کے وقت علما اور معلّمین سے رجوع کریں۔ اسی میں بہتری اور خیر ہوگی۔