بھارت کے جارحانہ عزائم اور پاکستان کے دفاع کے تقاضے

بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی جانب سے پاکستان کی سلامتی کے خلاف جارحانہ عزائم کا کھلے طورپر اظہار کا سلسلہ تھمنے میں نہیں آرہا۔ اب جبکہ پاک بھارت جنگ بندی میں امریکی صدر ٹرمپ کا کردار وہاں عدالتی کارروائی کا حصہ بن کر ایک مسلمہ ثبوت کے طورپر سامنے آچکاہے، بھارت کے عوام کو بھی جان لینا چاہیے کہ مودی حکومت انھیں کس طرح بیوقوف بنا کر اپنے اقتدار کو طول دینا چاہتی ہے۔ دراصل مودی کی شکست بنیادی طورپر آر ایس ایس کی سوسال پر محیط سازشوں اور مکاریوں پر مشتمل مذہبی سیاست کی ناکامی کا اعلان ہے۔ لہٰذا بھارت کے اقتدار پر قابض جنونی برہمن ذہنیت اس شکست کو ٹھنڈے پیٹوں ہضم نہیں کرپارہی۔

یہی وجہ ہے کہ تجزیہ کاروں کے مطابق ایک جنگ میں پٹائی کھانے کے باوجود بھارت کی جانب سے پاکستان کے خلاف جارحیت اور توسیع پسندانہ عزائم پر عمل کے خطرات ٹلے نہیں ہے۔دراصل اقوام کی بقا صرف ان کے نظریات یا وسائل پر نہیں بلکہ اس عزم پر منحصر ہوتی ہے جس کے ذریعے وہ اپنے دفاع کو ناقابل تسخیر بناتی ہیں۔ پاکستان ایک نظریاتی ریاست ہے، لیکن جغرافیائی لحاظ سے بھی ایسے مقام پر واقع ہے جہاں اس کی دفاعی خود مختاری کسی طبقے کی اجارہ داری،تعیش یا انتخاب کا معاملہ نہیں بلکہ ناگزیر قومی ضرورت ہے۔ بھارت جیسے توسیع پسند ہمسائے کے ساتھ، جو بارہا جارحیت کا مظاہرہ کر چکا ہے، پاکستان کی بقا کا دارومدار اس کی مربوط دفاعی حکمت عملی اور جدید جنگی صلاحیتوں پر ہے۔

بھارت کا جارحانہ رویہ کوئی نئی بات نہیں۔ 1947ء کے بعد سے لے کر آج تک اس کا ہر قدم خطے میں بالادستی قائم کرنے کی کوشش کا غماز رہا ہے۔ 1971ء کی جنگ ہو یا کارگل کی جھڑپیں یا حالیہ پاک بھارت جنگ، بھارت نے ہمیشہ پاکستان کی سالمیت کو چیلنج کیا۔ یہ سلسلہ صرف عسکری سطح پر محدود نہیں بلکہ سفارتی، اقتصادی اور معلوماتی محاذ پر بھی جاری ہے۔ بھارتی خفیہ ایجنسی ‘را’ کی سرگرمیاں، بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں مداخلت اور مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں پر مظالم، سب کچھ اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ بھارت ایک جارح ریاست کی شکل اختیار کرچکا ہے اور خطے میں مشرکانہ تہذیب کے بزور ِ طاقت نفاذ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہی پاکستان ہے جو کہ برہمن سامراج کے روپ میں موجود عصرِ حاضر کے چنگیز و ہلاکوؤں کے سیلابِ آتشیں کے سامنے سد سکندری کے طورپر قائم ہے اور حالیہ معرکے نے ثابت کردیا ہے کہ پاکستان ایک ”بنیان مرصوص” کی صورت میں ڈھل چکاہے۔ ان حالات میں پاکستان کی قیادت اور عوا م کی جانب سے مسلسل اس امر کا اظہار کیا جارہا ہے کہ وہ نہ تو اپنی سلامتی کے خلاف بھارتی قیادت کی سیاسی جارحیت کو برداشت کریں گے اور نہ ہی اپنے دفاع کو آنچ پہنچانے کی اجازت دیں گے۔

یہ امر خوش آئند ہے کہ مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے روایتی موقف کو ایک مرتبہ پھر بھرپور انداز میں اُجاگر کیا جارہا ہے۔ چیف آف آرمی اسٹاف، فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کا یہ واضح موقف کہ پاکستان نہ بھارت کی اجارہ داری قبول کرے گا، نہ کشمیر پر کوئی سمجھوتہ کرے گا، ہمارے روایتی قومی موقف کی ترجمانی ہے۔ ان کا یہ پیغام بھارتی قیادت کو تنبیہ کررہاہے کہ اب بھارت میں موجود اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں پر ظلم کے خلاف صرف داخلی مزاحمت ہی نہیں بلکہ ایک علاقائی ردعمل بھی موجود ہے اور خاص طورپر مقبوضہ کشمیر میں ایک مرتبہ پھر بھارت کو بڑے چیلنج کا سامنا ہوسکتا ہے۔ یہ امر واضح ہے کہ بھارت بھی پاکستان کے عزم کو اچھی طرح بھانپ چکا ہے اور حالیہ جنگ اسے یہ سبق سکھانے کے لیے کافی ہے کہ پاکستان رقبے، آبادی اور وسائل میں کم ہونے کے باوجود دفاعی اور جنگی لحاظ سے نہ صرف بھارت کو ٹکر دے سکتاہے بلکہ اس کے دانت بھی کھٹے کرسکتا ہے۔ اس تناظر میں پاکستان کی دفاعی تیاری کا دائرہ صرف ٹینکوں اور طیاروں تک محدود نہیں رہنا چاہیے۔ دفاعی ماہرین کی رائے کے مطابق ہمیں سائبروار، الیکٹرانک جنگ اور میزائل و اینٹی میزائل سسٹم کے شعبے میںمزید بہتری اور پیش قدمی کی ضرورت ہے۔ دشمن کے مواصلاتی نظام کو مفلوج کرنا اور اپنے نظام کو دشمن کی دراندازی سے محفوظ رکھنا کسی بھی جدید جنگ میں کامیابی کی بنیاد بن چکا ہے۔ پاکستان کے ممتاز سائنس دان ڈاکٹر ثمر مبارک کے مطابق پاکستان کو بفضلہ تعالیٰ یہ قوت حاصل ہوچکی ہے کہ محدود پیمانے کے جوہری ہتھیاروں کا برق رفتاری سے استعمال کرسکتاہے، وہاں اس کے پاس یہ صلاحیت بھی موجود ہے کہ وہ بھارت کے بنائے گئے ڈیموں کو جن کا مقصد پاکستان کا پانی روکنا ہوسکتاہے، محض چند بٹن دبا کر تباہ بھی کرسکتاہے اور ان ڈیموں کا کنٹرول خود بھی سنبھال سکتاہے۔

پاکستان کی یہ جنگی اور دفاعی صلاحیت صرف بھارت ہی نہیں بلکہ اسرائیل کو بھی خوف زدہ کردینے کے لیے کافی ہے۔ اس لیے فتنہ و فساد کے یہ دونوں مراکز پاکستان کے خلاف کوئی نہ کوئی جال تیار ضرور کریں گے، کیونکہ قرآن کریم نے ہمیں بتا رکھا ہے کہ مشرکین اور یہود دونوں ہی مسلمانوں کے خلاف بعض و عداوت میں سب سے بڑھ کر ہیں اور اس کا عملی نظارہ اس وقت ہم بچشمِ خود دیکھ رہے ہیں۔ اس وقت پاکستان کی کامیابی نے کئی ملکوں کے لیے چیلنج پیدا کردیے ہیں۔ عالمی طاقتیں بھارت کو اسلحہ فراہم کرکے اپنا داؤ کھیلنا چاہتی ہیں۔دراصل ان طاقتوں کو خطے کا امن نہیں بلکہ اپنے معاشی، سیاسی اور جغرافیائی مفادات کی فکر ہے۔ یہ معاملہ پاکستان کے لیے ایک چیلنج ہے۔پاکستان کی جغرافیائی حیثیت اور اس کی دفاعی قوت دراصل بہت سی طاقتوں کے لیے مسائل کا سبب بن چکی ہے کیونکہ اسی حیثیت کی وجہ سے پاکستان اور چین کی دوستی ایک مضبوط اقتصادی اور دفاعی شراکت میں بدل گئی ہے جو ایک طرف مغرب کی عالمی اجارہ داری کے لیے چیلنج ہے تو دوسری جانب بھارت پر مسلط برہمن کا تسلط بھی خطرے سے دوچار ہوچکا ہے۔

وزیراعظم شہباز شریف نے ترکیہ، ایران، آذربائیجان اور تاجکستان کے دورے کے موقع پر پاکستان کے موقف کو بھرپور طورپر اجاگر کیاہے۔ ان دوروں میں نہ صرف اقتصادی شراکت داری پر بات ہوئی بلکہ بھارت کی جارحانہ پالیسیوں کے خلاف عالمی حمایت حاصل کرنے کی کوشش بھی کی گئی۔ پاکستان خطے میں ایک مستحکم، مربوط اور بااعتماد سفارتی کردار ادا کرکے بھارت کی سیاسی و سفارتی جارحیت کو ناکام بناسکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق موجودہ عالمی اور علاقائی حالات کے تناظر میں پاکستان کو دفاعی خودمختاری کے تصور کو مزید ہمہ گیر بنانا ہوگا۔ دفاعی خودمختاری محض عسکری طاقت کا نام نہیں رہا بلکہ یہ ایک ہمہ جہت حکمت عملی ہے جس میں سائبر دفاع، نظریاتی بیداری، سفارتی روابط اور داخلی اتحاد سب شامل ہیں۔ بھارت کی آر ایس ایس نواز حکومت کی بڑھتی ہوئی شدت پسندی اور ‘اکھنڈ بھارت’ جیسے عزائم کا مقابلہ عسکری سطح پر ہی نہیں بلکہ پوری قوم کے باہمی اتحاد کے ذریعے ہی ممکن ہوسکتا ہے۔