دینی مدارس اور جدید ذرائع ابلاغ کا استعمال

‘دینی مدارس اور جدید ذرائع ابلاغ کا استعمال’ کے عنوان سے عرصہ قبل لکھا گیا یہ کالم اِفادیت کے پیش نظر ایک بار پھر نذر قارئین ہے:
حاجی محمد بوستان صاحب تبلیغی جماعت کے سرکردہ حضرات میں سے ہیں اور میرپور آزادکشمیر سے ان کا تعلق ہے۔ ایک عرصہ سے برطانیہ کے شہر شیفیلڈ میں رہائش پذیر ہیں، عالمی سطح پر تبلیغی اجتماعات میں شریک ہوتے ہیں، خود عالم دین نہیں مگر علماء کی مجالس میں بیٹھتے ہیں اور دعوت و تبلیغ اور دینی تعلیم کے مسائل پر اپنی رائے رکھتے ہیں۔ انہوں نے میرپور آزادکشمیر میں جامعة العلوم الاسلامیہ کے نام سے ایک دینی درسگاہ قائم کر رکھی ہے جس میں دورہ حدیث تک کے اسباق ہوتے ہیں اور وہ شیفیلڈ میں بیٹھ کر اس دینی مدرسہ کو کامیابی کے ساتھ چلا رہے ہیں۔ سال میں ایک دو دفعہ پاکستان آتے ہیں اور جامعہ سے متعلقہ ضروری امور کو نمٹا کر واپس چلے جاتے ہیں۔ گزشتہ دنوں حاجی صاحب نے فون پر راقم الحروف سے رابطہ کیا اور بتایا کہ وہ اس جامعہ میں طلبہ کے لیے کمپیوٹر کلاس کا اجرا کر رہے ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ میں اس موقع پر میرپور آکر جامعة العلوم الاسلامیہ کے کمپیوٹر سنٹر کے افتتاح کی رسم ادا کروں اور اس کے ساتھ ہی اساتذہ، طلبہ اور دیگر شرکا کی تقریب میں کمپیوٹر اور دیگر جدید ذرائع کی اہمیت کے عنوان پر اظہار خیال بھی کروں۔ چنانچہ ان کی دعوت پر ٩ مئی کو میرپور جانے کا اتفاق ہوا۔

جامعة العلوم الاسلامیہ کے ایک کشادہ کلاس روم میں کمپیوٹرز کی فراہمی کے ساتھ دینی تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ اور ان کے اساتذہ کے لیے کمپیوٹر ٹریننگ کا اہتمام کیا گیا ہے۔ راقم الحروف نے بٹن دبا کر اس پروگرام کا افتتاح کیا جبکہ کمپیوٹر نے شرکا محفل کو سورة الفاتحہ سنا کر اور اسکرین پر اس کی کتابت دکھا کر تقریب کا آغاز کیا۔ تقریب میں جامعہ کے اساتذہ و طلبہ کے علاوہ شہر کے متعدد سرکردہ حضرات بھی شریک تھے۔حاجی بوستان صاحب نے تمہیدی گفتگو میں کہا کہ ان کی یہ خواہش ہے کہ اسلام کی دعوت و تبلیغ اور دینی تعلیم و تربیت کے شعبہ میں ابلاغ کے جدید ترین ذرائع سے استفادہ کیا جائے اور شرعی احکام کے دائرہ میں رہتے ہوئے ابلاغ کے ہر میسر ذریعہ کو استعمال میں لایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ اسی مقصد کے لیے انہوں نے کمپیوٹر کلاس کا اہتمام کیا ہے تاکہ جامعہ کے اساتذہ اور طلبہ یہ ٹریننگ حاصل کریں اور اسے استعمال میں لانے کی صلاحیت سے بہرہ ور ہوں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ اس سنٹر میں ”انٹرنیٹ” کی سہولت بھی فراہم کرنا چاہتے ہیں لیکن میرپور میں ٹیلی فون کا ڈیجیٹل ایکسچینج نہ ہونے کی وجہ سے سردست یہ ممکن نہیں ہے۔

راقم الحروف نے اپنی گفتگو میں جس نکتے پر سب سے زیادہ زور دیا وہ یہ تھا کہ اسلام کی دعوت و تبلیغ کے لیے ہر دور میں ابلاغ کے ہر میسر ذریعہ کو اختیار کرنا، مخاطب کی نفسیات کو ملحوظ رکھ کر گفتگو کرنا اور گفتگو کے مروجہ اُسلوب سے استفادہ کرنا ضروری ہوتا ہے۔ کیونکہ اس کے بغیر کوئی پیغام اور دعوت مخاطب لوگوں کے ذہنوں تک رسائی حاصل نہیں کر پاتی اور اِس سلسلے میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ میں ہمیں واضح راہنمائی ملتی ہے۔ مثلاً مکہ مکرمہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بت پرستی اور شرک کے خلاف آواز اٹھائی اور کلمہ توحید بلند کیا تو مخالفت کا بازار گرم ہوگیا۔ اس دوران قریش کے سرکردہ حضرات کا ایک وفد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا کہ آپ جو دعوت دے رہے ہیں ہم اس کی غرض سمجھنا چاہتے ہیں کہ آخر اس کا مقصد کیا ہے؟ اس کے جواب میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو ارشاد فرمایا اس پر غور کیجیے۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا:
”میں ایک کلمہ تمہارے سامنے پیش کررہا ہوں، اگر تم اسے قبول کر لو تو عرب پر تمہاری حکمرانی ہوگی اور عجم بھی تمہارے تابع ہوگا۔”

یہ سردار لوگ تھے کہ قیامت، جنت اور قبر کی بات ان کی سمجھ میں آنے والی نہ تھی۔ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی نفسیات کو سامنے رکھتے ہوئے انہی کی زبان میں بات کی کہ ”چودھراہٹ” قائم رکھنے بلکہ اس کا دائرہ وسیع کرنے کا راستہ بھی یہی ہے جو میں پیش کر رہا ہوں۔اسی طرح غزوۂ احزاب میں جب قریش اور ان کے حلیف قبائل کو مدینہ منورہ کے محاصرہ میں ناکامی ہوئی اور انہیں بے نیل مرام واپس جانا پڑا تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے دو باتیں فرمائیں۔ ایک تو یہ کہا کہ اب قریش کو ہم پر حملہ آور ہونے کی ہمت نہیں ہوگی اور اب ہم ہی ان کی طرف جائیں گے اور دوسری بات یہ فرمائی کہ قریش ہمارے خلاف ہتھیار کی جنگ میں شکست کھا چکے ہیں، اس لیے اب وہ عرب قبائل میں ہمارے خلاف نفرت کی آگ بھڑکائیں گے اور ادب و شعر کی جنگ لڑیں گے۔ شعر گوئی اور خطابت اس دور کا امتیازی اُسلوب تھا جس کی طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ کرتے ہوئے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو ترغیب دی کہ وہ اس جنگ یعنی ”میڈیا وار” کے لیے بھی تیار رہیں۔

چنانچہ تین حضرات نے اس معرکہ آرائی کے لیے خود کو پیش کیا۔ (١) حضرت حسان بن ثابت (٢) حضرت عبد اللہ بن رواحہ (٣) حضرت کعب بن مالک۔ اور ان تینوں حضرات نے اس معرکہ میں بھرپور کردار ادا کیا۔ ان حضرات کی باہمی تقسیم کار یہ تھی کہ ایک صاحب جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح و نعت کہتے اور کافروں کے اعتراضات کا جواب دیتے، دوسرے صاحب کافروں کی ہجو و مذمت میں اشعار کہتے، جبکہ تیسرے صاحب رزمیہ شاعری کرتے۔ بخاری شریف کی روایت کے مطابق ایسا بھی ہوتا تھا کہ مسجد نبوی میں منبر پر کھڑے ہو کر حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ اشعار سناتے تو خود جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سامنے صحابہ کرام کے ساتھ بیٹھے انہیں داد دیتے اور ان کے لیے دعا فرماتے تھے۔

یہ اُس دور کا اُسلوب تھا جس میں قبائل اور اقوام ایک دوسرے سے مخاطب ہوکر اپنی برتری کا اظہار کرتی تھیں۔ اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اُسلوب کو اختیار کرنے سے گریز نہیں کیا بلکہ اس کا بھرپور استعمال کر کے اس محاذ پر بھی قریش کو شکست دی۔اس کے ساتھ ابلاغ کے ذرائع کو بھی دیکھ لیں کہ وہ دور مشینری کا دور نہیں تھا، ایسے آلات اس دور میں وجود میں نہیں آئے تھے، مگر اپنی بات زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کا فطری جذبہ موجود تھا۔ چنانچہ اپنا پیغام دوسروں تک پہنچانے کا خواہشمند ہر شخص اور ہر گروہ یہ جذبہ پوری طرح استعمال کرتا تھا اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایسے کسی موقع سے استفادہ کرنے سے گریز نہیں کیا۔ مثلاً عکاظ کا میلہ کوئی مذہبی اجتماع نہیں ہوتا تھا بلکہ اس کی حیثیت ایک کلچرل فیسٹیول کی ہوتی تھی، جس میں ناچ گانا بھی ہوتا تھا، شراب نوشی بھی ہوتی تھی، دنگل بھی ہوتے تھے، شعر و خطابت کے مقابلے بھی ہوتے تھے، خرید و فروخت بھی ہوتی تھی اور عرب کی جاہلی معاشرت کا ہر اچھا اور بُرا پہلو اس میں نمایاں ہوتا تھا۔ لیکن اس کے ساتھ وہ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک رسائی کا ایک ذریعہ بھی ہوتا تھا۔ اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم وہاں تشریف لے گئے اور ان سب سرگرمیوں کے باوجود وہاں آئے ہوئے مختلف قبائل کے لوگوں تک اپنی بات پہنچانے کی کوشش کی۔ اس کے علاوہ اس طرح کے دیگر میلوں میں بھی جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے۔ اِس سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ اپنا پیغام لوگوں تک پہنچانے کے لیے جو ذریعہ بھی موجود ہو اس کی قباحتوں کو دیکھ کر اُسے ترک نہیں کر دینا چاہیے بلکہ جس حد تک ممکن ہو اپنے مقصد اور مشن کے لیے اسے استعمال کرنا چاہیے۔

راقم الحروف نے اپنی گفتگو میں کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کی اہمیت بھی بیان کی اور دینی مدارس کے اساتذہ و طلبہ سے گزارش کی کہ انہیں ان دونوں پر دسترس حاصل کرنی چاہیے، کیونکہ مستقبل میں ان کے بغیر تعلیم اور دعوت دونوں میدانوں میں ہم معاصر اقوام اور طبقات سے بہت پیچھے رہ جائیں گے۔راقم الحروف کی گفتگو کے بعد جامعہ کے شیخ الحدیث حضرت مولانا مفتی محمد عیسیٰ خان گورمانی کی دعا پر یہ تقریب اختتام کو پہنچی۔