مغرب پر انحصار سے پالیسی شفٹ کا نادر موقع

ترکیہ اور ایران کے بعد وزیراعظم شہباز شریف اور فیلڈ مارشل وفد کے ہمراہ آذر بائیجان پہنچ گئے، جہاں ان کی آذربائیجان کے صدر الہام علییوف سے ملاقات ہوئی۔ دونوں رہنماؤں نے باہمی طور پر فائدہ مند شعبوں میں سرمایہ کاری کے ذریعے اسٹریٹجک شراکت داری کو متنوع بنانے کیلئے اپنے مشترکہ عزم کا اعادہ کیا۔وزیراعظم نے بھارت کے ساتھ حالیہ تنازع کے دوران پاکستان کی غیر متزلزل حمایت پر آذربائیجان کے صدر الہام علییوف کا شکریہ ادا کیا۔ قبل ازیں دورہ ایران کے موقع پر آرمی چیف فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے ایران کی مسلح افواج کے سربراہ سے ملاقات کی، جس میں دفاعی تعلقات کو مزید مضبوط بنانے پر اتفاق کیا گیا۔ ملاقات میں دفاعی تعلقات کو مزید مضبوط بنانے پر اتفاق ہوا جبکہ پاک ایران بارڈر کو معاشی خوشحالی کے زون میں تبدیل کرنے پر بھی گفتگو ہوئی۔

آج جب علاقائی اور عالمی سیاست ایک نئے مرحلے میں داخل ہو چکی ہے اور دنیا میں دور کے اتحادیوں اور مصاحبین کی بجائے علاقائی تعاون اور اتحاد کو ترجیح دی جا رہی ہے، پاکستان کی قیادت نے بھی دور پار کے نام نہاد اتحادیوں پر انحصار سے پالیسی شفٹ کرتے ہوئے ریجنل کو آپریشن کی طرف قدم بڑھا لیے ہیں، سیاسی اور عسکری قیادت کے یہ دورے اس نئی پالیسی کا عملی اظہار ہیں۔ پاکستان کو اس پالیسی شفٹ کی طرف ماہرین عرصے سے توجہ دلا رہے تھے، مگر بوجوہ پاکستان چاہ کر بھی اس طرف آنہیں پا رہا تھا۔ بلاشبہ ہر فیصلے اور قدم کا اللہ تعالیٰ علیم، خبیر و حکیم کی طرف سے ایک وقت مقرر ہوتا ہے اور وہی سب سے بہتر وقت ہوتا ہے۔ دس مئی کی صبح جب پاکستان نے بزدل دشمن کی طرف سے رات کی تاریکی میں پشت پر کیے گئے بزدلانہ وار کا پوری دنیا کو بتا کر دن کی روشنی میں جواب دیا اور چند گھنٹوں کے اندر اندر بڑھ بڑھ کر بولنے والے دشمن کے سرِ پُر غرور کو خاک آلود کردیا تو یہ نہ صرف مسلط کی گئی جنگ میں پاکستان کی فتح کا اعلان تھا بلکہ اس لمحے نے پاکستان کو ایک گئے گزرے ملک سے اٹھا کر فخر و عزت کے اعلیٰ مقام پر فائز کردیا۔ اس سے جہاں پاکستان کیلئے بہت سے مواقع کے بند در کھلے، قدرت کی طرف سے مقرر کردہ وہ وقت بھی آپہنچا جب پاکستان کیلئے مغرب پر یکطرفہ انحصار سے پالیسی شفٹ کا عمل آسان ہوگیا۔

پاکستان ایک پر امن ملک ہے، اسے اندرونی طور پر بہت سے چیلنجوں اور مسائل کا سامنا ہے، جس کی وجہ سے اس کے پاس اتنی فرصت اور توانائی نہیں کہ وہ سرحد پار مہم جوئیوں میں سر کھپائے، پاکستان کا یہی مسئلہ دشمن کے نزدیک اس کی کمزوری بن گیا، چنانچہ بزدل دشمن اس مفروضہ کمزوری سے فائدہ اٹھا کر تقریباً گزشتہ ایک دہائی سے پاکستان کیخلاف سبوتاژ کی مہمات کا ایک مربوط، منظم اور جارحانہ سلسلہ جاری رکھے ہوئے تھا، پاکستان کے اندرونی مسائل اپنی جگہ اور ان اندرونی مسائل میں الجھاؤ بھی اپنی جگہ مگر دشمن کا یہ حساب اور اندازہ بالکل غلط تھا کہ پاکستان اپنا دفاع بھی نہیں کرسکتا۔ اندازے کی اس غلطی کی کھوکھ سے وہ حماقت برآمد ہوئی جو سات مئی کی رات پوری دنیا نے دیکھی، مگر اس سے پاکستان کیلئے دشمن کا دماغ درست اور اس کی غلط فہمی دور کرنے کا موقع ملا۔ اب پاکستان کی قیادت نے دس مئی کو ملنے والے اس مقامِ افتخار کو صرف یادگار کے طور پر نہیں، بلکہ ایک نئی تزویراتی جہت کے طور پر استعمال کرنے کی راہ اختیار کی ہے۔قیادت کے یہ دورے اس بات کا ثبوت ہیں کہ پاکستان اب محض دفاعی حکمتِ عملی تک محدود نہیں بلکہ معاشی، سفارتی اور ثقافتی میدانوں میں بھی قدم بڑھا رہا ہے جو خوش آئند اور وقت کی اصل ضرورت ہے۔دس مئی کی صبح سے ابھرنے والے نئے منظر نامے کے بعد پاکستان کی قیادت نے چین، ترکیہ، ایران اور آزربائیجان کا دورہ کرکے جہاں جنگ کے دوران ساتھ دینے پر ان کا شکریہ ادا کیا وہاں ان دوروں میں آئندہ ایسی کسی ممکنہ صورتحال کے حوالے سے بھی ان برادر ممالک کو اعتماد میں لیا اور ساتھ ہی مستقل بنیادوں پر باہمی اقتصادی، تجارتی اور دفاعی تعاون کی راہیں اختیار کرنے کے سمجھوتے کیے، جن کے مستقبل قریب میں مثبت نتائج برآمد ہوں گے۔

پاکستانی قیادت کے یہ دورے ایک واضح اشارہ ہیں کہ پاکستان ایک نئے اتحاد کی بنیاد رکھ رہا ہے، جس کی جڑیں مذہبی، جغرافیائی اور اقتصادی وابستگی میں پیوستہ ہیں۔ ان سفارتی سرگرمیوں کے بیچ وزیر ریلوے نے ایک ”گیم چینجر” منصوبے کا بھی اعلان کردیا ہے۔ ان کے مطابق پاکستان اب روس تک بذریعہ ریل تجارتی راہداری قائم کرنے کے منصوبے پر عملدرآمد کے قریب ہے۔اس منصوبے کو چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کے توسیعی حصے کے طور پر بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ وزیر ریلوے کے مطابق پندرہ جون کو اس کا باقاعدہ افتتاح ہوگا۔ اگر یہ درست ہے تو یہ بلاشبہ ایک گیم چینجر پیشرفت ہے۔ اس سے نہ صرف خطے کے ممالک کے درمیان علاقائی و جغرافیائی روابط اور معاشی خوشحالی کے دروازے کھلیں گے، بلکہ خطے میں بالادستی اور امریکی پولیس مین کے کردار کا بھارتی خواب بھی بکھر کر رہ جائے گا۔ آج پوری دنیا میں قریبی جغرافیائی اور ثقافتی ہمسایوں کے ساتھ اقتصادی تعاون کو ترجیح دی جا رہی ہے اور یہی ترقی کا فطری ماڈل ہے۔ پاکستان کو دس مئی کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ بہترین موقع ملا ہے کہ وہ آگے بڑھ کر خطے کو باہم مربوط کرنے کیلئے قائدانہ کردار ادا کرے۔

بھارت اس وقت اپنی حماقتوں اور بالادستی کے جنون میں خطے سے عملاً کٹ چکا ہے، اس کا کوئی پڑوسی اس سے خوش اور مطمئن نہیں ہے، پاکستان کیخلاف بھارت کے جارحانہ عزائم اور نفرت آمیز اقدامات کا یہ بہترین جواب ہوگا کہ پاکستان چین، ایران، ترکیہ کے ساتھ مل کر خطے کے تمام ممالک کو معاشی اور اقتصادی معاہدوں اور منصوبوں میں جوڑنے کیلئے جنگی بنیادوں پر فعال کردار ادا کرے۔ روس تک ریلوے روابط بحال ہوگئے تو بھارت کی عقل خود ٹھکانے آئے گی اور وہ پاکستان کے خلاف اپنی شرارتوں سے باز آجائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ عالمی برادری کو بھی بھارت کی بے وجہ کی اشتعال انگیزی، پاکستان دشمنی اور خطے کے امن و استحکام کو نقصان پہنچانے والے رویوں سے آگاہ کرنے کیلئے جارحانہ سفارتکاری بروئے کار لانا ہوگی۔ اس سلسلے میں بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں کمیٹی کا قیام خوش آئند ہے۔ امید ہے ان تمام اقدامات سے خطے میں امن و استحکام اور ترقی و خوشحالی کو فروغ ملے گا اور بھارت کے بالادستی کے خبط کا مناسب اور شافی علاج بھی ہوجائے گا۔