جب مارخور بھارت کے راستے ایٹمی مواد پاکستان لے آئے

اِس مرتبہ 28مئی کو یومِ تکبیر ملک بھر میں انتہائی جوش و خروش اور ولولے سے منایا گیا۔ گزشتہ سال بھی حکومتِ پاکستان کی جانب سے سرکاری طور پر یہ دن منایا گیا تھا مگر اب کی بار جوش اس لیے زیادہ تھا کہ ابھی دو ہفتے قبل ہی ہم نے اپنے ازلی اور مکار دشمن بھارت کو میدانِ جنگ میں عبرتناک شکست سے دوچار کیا ہے۔ یومِ تکبیر کے موقع پر جوش ولولہ کے ساتھ ساتھ تشکر کے جذبات بھی ہر پاکستانی کے دل میں امنڈ رہے تھے۔ پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے والے نمایاں اور گمنام تمام افراد کو خراجِ عقیدت پیش کیا گیا۔

بھارت عددی اعتبار سے تیسری بڑی زمینی فوج، چوتھی بڑی فضائیہ اور پانچویں بڑی بحریہ رکھنے والا ملک ہے جو 18مئی 1974ء کو مسکراتا بدھا (Smiling Budha) نامی ایٹمی دھماکے کر کے خطے کو عدم توازن کا شکار کر چکا تھا۔ پاکستان کے لیے یہ لازم ہو چکا تھا کہ اپنے دفاع کے لیے وہ بھی ایٹمی صلاحیت حاصل کرے۔ پاکستان معاشی لحاظ سے بھی بھارت کے مقابلے میں بہت کمزور ملک تھا۔ بھارت کے ساتھ روایتی ہتھیاروں کی دوڑ میں مقابلہ کرنا پاکستان کے لیے ممکن نہ تھا۔ ایٹمی قوت بننے سے بھی پہلے بھارت جارحیت اور سازش کے ذریعے پاکستان کو دو حصوں میں تقسیم کر چکا تھا۔ اب تو وہ ایٹمی قوت بن چکا تھا جس سے خطے میں طاقت کا توازن بری طرح بگڑ کر بھارت کے حق میں ہو گیا تھا۔ ایٹمی دھماکے کرنے کے بعد بھارت طاقت کے نشے میں پاگل ہو چکا تھا۔ ایسے میں پاکستان کو اپنی سالمیت اور بقا کے لیے ایٹمی پاور بننے کی جانب پیش قدمی کرنا ضروری ہو گیا تھا۔ بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے بعد جواباً پاکستان نے ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلاؤ پر پابندی والے معاہدے این پی ٹی پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا۔ اپنی سلامتی کی خاطر پاکستان کے لیے ایٹم بم بنانا اہم اور ضروری ہو گیا تھا۔ پاکستان کے اس وقت کے وزیرِاعظم ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کو نہ صرف جنوبی ایشیا بلکہ عالمِ اسلام کی پہلی ایٹمی قوت بنانے کا فیصلہ کر لیا۔ انہوں نے برملا کہا تھا کہ ہم گھاس کھا کر گزارا کر لیں گے لیکن پاکستان ایٹم بم ضرور بنائے گا۔

پاکستان کی ایٹمی ٹیکنالوجی میں اہم پیش رفت 1976ء میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی وطن آمد کے بعد شروع ہوئی۔ جب 1977ء میں جنرل ضیاء الحق کی حکومت آئی تو پاکستان نے جرمنی، فرانس اور کینیڈا سے ایٹمی ٹیکنالوجی کی خریداری کے اہم معاہدے کیے۔ امریکا کی نظروں سے بچ کر ان خفیہ معاہدوں کی تکمیل نہایت دشوار مرحلہ تھا۔ جب یہ مرحلہ طے ہوا تو سب سے اہم مرحلہ حساس ترین آلات کو پاکستان میں منتقل کرنا تھا۔ اس دشوار گزار مرحلے کے لیے پاکستان کی قابلِ فخر خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کا انتخاب کیا گیا۔ پاکستان نے اس مقصد کے لیے یورپ، مڈل ایسٹ، سنگاپور اور بھارت میں آئی ایس آئی کے خاص تربیت یافتہ ایجنٹوں کا جال بچھا دیا۔ یہ وہ گمنام ہیروز ہیں جنہوں نے مادرِ وطن کے لیے اپنی زندگیاں داؤ پر لگا رکھی تھیں۔ ذرا سی بے احتیاطی کا منطقی انجام ان کی شہادت تو تھا ہی مگر اس کے ساتھ ساتھ ثبوتوں سمیت پکڑے جانے کی صورت میں ملک کی بھی بدنامی تھی۔ پاکستان بہت سی پابندیوں کی زد میں آ جاتا۔ غلطی کی کوئی گنجائش ہی نہ تھی۔ آئی ایس آئی کے ایجنٹ حساس آلات کو خریدتے اور انہیں مختلف ممالک کے راستے پاکستان منتقل کر دیتے تھے۔

دوسری طرف امریکا بھی ریڈ الرٹ تھا۔ اسے اس معاملے کی سُن گُن مل گئی۔ اس نے فرانس، جرمنی اور کینیڈا پر پابندیاں لگا دیں کہ ایٹمی پروگرام میں پیش رفت کا باعث بننے والی کوئی ٹیکنالوجی پاکستان کو فروخت نہ کریں۔ اس موقع پر ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے ذاتی مراسم کام آئے اور جرمنی نے پاکستان کو ٹریشنَم ٹیکنالوجی فراہم کر دی جو جدید جوہری بم میں استعمال ہوتی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ یورینیم کی افزودگی پرکھنے والا آلہ سپکٹرومیٹر بھی اس نے پاکستان کو مہیا کر دیا۔ آئی ایس آئی نے آلات کی پاکستان منتقلی کے لیے سنگاپور میں ایک فرم بھی بنا رکھی تھی۔ جنرل ضیاء الحق تمام معاملات کی خود نگرانی کر رہے تھے۔ وہ فکرمند تھے کہ ایلومینیم پرت کے پائپوں کو خرید کر پاکستان کیسے منتقل کیا جائے۔ یہ پرت یورینیم کو افزودہ کرنے کے لیے لازمی تھے۔ مشن بہت نازک تھا۔ ذرا سی بے احتیاطی پورے ایٹمی پروگرام کی تباہی کا موجب بن سکتی تھی۔ سنگاپور کے راستے ایلومینیم پرت پاکستان لائے جاتے تو پاکستانی جہازوں کا فیول لینے کے لیے بھارت میں رکنا ضروری تھا۔

پاکستانی حکام یہ رسک لینے کو تیار نہ تھے۔ دشمن ملک میں ثبوتوں سمیت پکڑے جانے کا انجام سوچ سے بھی زیادہ خوفناک تھا۔ بھارت نے پوری دنیا میں واویلا مچا کر پاکستان کا ناطقہ بند کر دینے کی پوری کوشش کرنی تھی۔ سنگاپور کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن بھی نہ تھا۔ ایک لحاظ سے اس خطرناک مشن نے مشن امپاسیبل کی صورت اختیار کر لی تھی لیکن دوسری طرف بے خوف اور نڈر آئی ایس آئی کے خطروں کے کھلاڑی تھے جنہوں نے اس ناممکن مشن کی تکمیل کا ذمہ لیا ہوا تھا۔ مشن کی تکمیل کے لیے آئی ایس آئی کے اسپیشل کمانڈ کو بھارت اور سنگاپور کے ایئرپورٹس پر تعینات کر دیا گیا۔ سنگاپور میں ہوائی جہازوں میں نیوکلیئر آلات کو لوڈ کیا گیا اور مارخور جان ہتھیلی پر رکھ کر ریڈ الرٹ ہو گئے۔ ان اللہ کے شیروں کو اپنی جان کی پروا نہ تھی۔ وطن کی خاطر شہادت کا رتبہ پانا تو ان کے ایمان کا حصہ تھا۔ انہیں بس اپنے مشن کی کامیابی کی فکر تھی۔ انہیں ہر حال میں یہ مشن دشمن اور مکار ملک کے اندر سے گزر کر مکمل کرنا تھا۔

مشن کی تکمیل کے لیے جہاز سنگاپور سے روانہ ہوئے اور فیول بھروانے کے لیے انڈین ایئرپورٹ پر اتر گئے۔ ایک ایک لمحہ قیمتی تھا مگر وقت کی رفتار تو جیسے رک گئی تھا۔ مارخور ہوشیار اور چوکنا تھے۔ وہ بھارتی ایئر پورٹ پر ہونے والی ہر حرکت پر عقابی نظر رکھے ہوئے تھے۔ کئی گھنٹے کے طویل انتظار کے بعد پاکستانی جہازوں میں تیل ڈالا گیا۔ جب جہازوں نے دوبارہ اڑان بھری تو وہاں تعینات مار خوروں نے اطمینان کی سانس لی۔ ان کی پلاننگ کامیاب رہی تھی۔ پاکستان اپنے سب سے بڑے اور ازلی دشمن کے ایئرپورٹ کو نیوکلیئر سامان کی منتقلی کے لیے استعمال کر چکا تھا جبکہ اس دشمن کو کانوں کان بھی خبر نہ ہوئی تھی۔ یہ ایسا خطرناک ترین مشن تھا جس میں معمولی سی غلطی یا غفلت کی گنجائش نہ تھی۔ ایک چھوٹی سی لغزش ملکی سلامتی کو داؤ پر لگا سکتی تھی۔ مادرِ وطن کے بہادر سپوتوں نے جرات، دلیری اور دماغی صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ جانبازی کے اعلیٰ ترین جذبے کے ساتھ دنیا کی نظروں میں ناممکن ترین مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچا دیا تھا۔ وطن کے اندر اور پوری دنیا میں مادرِ وطن کی بقا اور سالمیت و سلامتی کے لیے جان ہتھیلی پر رکھ کر اپنے فرائض سرانجام دینے والے گمنام بیٹوں کی عظمت کو سلام۔