عوام اور کتنا ٹیکس دیں؟

گزشتہ دنوں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے وفاقی وزیر احسن اقبال نے کہا ہے کہ ہمارا شمار دنیا کے کم ترین ٹیکس ادا کرنے والے ملکوں میں ہوتا ہے، ہمارے ترقی کے خواب بڑے ہیں لیکن ٹیکسوں کی ادائیگی کم ترین ہے، پاکستان کا ہر شہری اپنی آمدن پر ٹیکس ادا کرے۔ موصوف وزیر صاحب نے مزید فرمایا کہ ہمیں اپنے ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب کو ساڑھے 10 فیصد سے 16 یا 18 فیصد تک لے کر جانا ہے، جو لوگ ٹیکس ادا کر رہے ہیں وہ ٹیکس چوری کے خلاف چوکیدار کا کردار ادا کریں۔

گزشتہ کئی سالوں سے حکومتی ایوانوں سے یہ واویلاسننے کو ملتا ہے کہ پاکستانی عوام ٹیکس نہیں دیتے۔ حالانکہ یہ حکومتی بیانئے اور دعوے حقائق کے بالکل برعکس ہیں۔ ایسا کونسا پاکستانی ہے جو ٹیکس نہیں دیتا؟ روٹی کپڑا اور دواؤں سمیت ضروریات زندگی کی ایسی کونسی ایسی شے ہے جس پر پاکستانی عوام ٹیکس ادا نہیں کرتے۔ گھر کے استعمال کی ہر خاص و عام اشیاء پر ٹیکس ادائیگی کے بعد ہی خریداری ممکن ہوتی ہے۔ عام آدمی اگر ماچس کی ڈبیا بھی خریدتا ہے تو اس کی قیمت میںٹیکس پہلے سے شامل ہوتا ہے۔ وہ علیحدہ بات ہے کہ عوام کی جیبوں سے نچوڑا گیا سیلز ٹیکس، کارپوریٹ سیکٹرکی جیبوں ہی میں رہتا ہے یا پھر حکومتی خزانے میں جمع ہوپاتا ہے یا نہیں۔ اصل مسئلہ یہ نہیں ہے کہ عوام ٹیکس دیتے ہیںیا نہیں اصل سوال یہ ہے کہ جن سرمایہ دار لوگوں کو زیادہ ٹیکس دینا چاہیے وہ ٹیکس دیتے ہیں یا نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہاں طبقہ اشرافیہ خود کو ٹیکسوں سے مستثنیٰ سمجھتا ہے۔ یہی وجہ ہے یہاں ج تک زمینداری اور جاگیر داری پر ٹیکس نہیں لگا۔ سرمایہ داروں اور صنعت کاروں کے پاس سو راستے ہوتے ہیں ٹیکسوں سے افرار اختیار کرنے کے۔ ٹیکس کا شکنجہ صرف عام آدمی ہی کو کستا ہے، بااثر لوگ اس کو توڑ کر نکل جاتے ہیں۔

حکومتیں نظام ریاست چلانے کے لیے رعایا پر براہ راست اور بالواسطہ ٹیکس عائد کرتی ہیں۔ کارپوریٹ ٹیکس، پراپرٹی ٹیکس اور انکم ٹیکس براہ راست ٹیکس کہلاتے ہیں جبکہ کسٹمز ڈیوٹیاں، سنٹرل ایکسائز ڈیوٹیاں اور سیلز ٹیکس ان ڈائر کٹ یعنی بالواسطہ ٹیکس کہلاتے ہیں۔ سنٹرل ایکسائز ڈیوٹیاں برآمدی مال پر لگائی جاتی ہیں۔ جبکہ کسٹمز ڈیوٹیاں درآمدی سامان پہ لگتی ہیں۔ اسی طرح سیلز ٹیکس اندرون ملک اشیاکی خریدوفرخت پہ لگایا جاتا ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں حکومتی خزانے میں ٹیکسوں کا زیادہ حصہ ڈائرکٹ یعنی براہ راست ٹیکسوں کا ہوتا ہے یعنی جو جتنی زیادہ آمدنی کمائے وہ اتنا ہی زیادہ ٹیکس دے، اس کے بعد بالواسطہ ٹیکس شمار کئے جاتے ہیں تاکہ ریاست زیادہ آمدنی کمانے والے افراد سے ٹیکس لیکر ریاستی اُمور اورکم آمدنی والے افراد کی فلاح و بہبود پر خرچ کرسکے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں ٹیکس نظام اُلٹی گنگا بہانے کے مصداق ہے۔ اعداد وشمار کے مطابق پاکستان میں بالواسطہ ٹیکس کاتناسب براہ راست ٹیکسوں سے بہت زیادہ ہے۔ جبکہ کارپوریٹ سیکٹر چونکہ اشرافیہ ہے اور یہ امیر ترین طبقہ من گھڑت اعدادوشمار، ٹیکس چھوٹ، ٹیکس چوری اور سرکاری اہلکاروں کیساتھ سازباز کرتے ہوئے ریاست کے خزانے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچاتا ہے۔ پاکستان میں براہ راست ٹیکس کا سب سے بڑا حصہ تنخواہ دار طبقے سے ہی وصول ہوتا ہے۔ پھر یہی تنخواہ دار طبقہ بچی کھچی تنخواہ سے گھر کے استعمال کی ہر شے پر سیلز ٹیکس الگ سے دینے پر مجبور ہوتا ہے۔

کبھی آپ نے یہ خبر سنی یا دیکھی ہو کہ کارپوریٹ سیکٹر کے کسی فرد کو ٹیکس چوری کے جرم میں جیل یاترا ہوئی ہو؟ چونکہ حکومتی ایوانوں میں یہی امیر ترین اشرافیہ براجمان ہوتی ہے لہذا ریاستی نظام چلانے کے لیے اشرافیہ غریب عوام کی چمڑی کو نت نئے ٹیکسوں سے ادھیڑ رہی ہوتی ہے۔ چاہے وہ بیرونی ممالک سے سستا پٹرول خرید کر مہنگے داموں فروخت کرنا ہویا پھر بجلی بنانے کے منصوبوں کے لئے نیلم جہلم جیسے ٹیکس عائد کرنا ہو۔ بدقسمتی سے پاکستان میں عوام مخالف ٹیکس نظام وجود پکڑ چکا ہے۔ یعنی کہ ایک کلو گھی، ایک لیٹر پٹرول یا عام صابن خریدینے پرکم از کم اجرت یعنی 37 ہزار روپے کمانے والا پاکستانی اتنا ہی ٹیکس ادا کر رہا ہے جتنا کہ کوئی ارب پتی شہری ادا کرتا ہے۔

جناب احسن اقبال صاحب، ضرورت اس امر کی ہے کہ ٹیکسوں کے حصول کے لئے حکومتی توپوں کا رُخ عام پاکستانی کی بجائے اشرافیہ اور حکومتی اداروں میں شامل کالی بھیڑوں کی طرف کیجئے جنکی بدولت حکومتی خزانہ خالی رہتا ہے اور پھر اس خزانے کوبھرنے کے لئے عوام الناس کی چمڑی ادھیڑی جاتی ہے اور ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف ایسے ساہوکاروں سے ترلے منتیں کرنی پڑتی ہیں۔ اشرافیہ میں شامل ٹیکس چوروں پر پہرا بھی خود حکومت کو دینا ہوگا اور ٹیکس چوری کی کڑی سے کڑی سزائیں بھی رائج و نافذ کرنا ہوں گی۔