اسلامی تعلیمات اور فیک نیوز

حال ہی میں ایک فورم سے خطاب کرتے ہوئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے معلومات کو آگے بڑھانے سے پہلے ان کی تصدیق کی اہمیت پر زور دیا اور اس نکتے کو واضح کرنے کے لیے قرآن پاک کی ایک آیت کا حوالہ بھی دیا۔ انہوں نے سورہ الحجرات کی آیت 6 کا ذکر کیا، جس میں مومنین کو ہدایت کی گئی ہے کہ کسی بھی خبر کی تحقیق کریں، خاص طور پر جب وہ کسی مشکوک ذرائع سے آئی ہو، تاکہ غیر ارادی طور پر نقصان پہنچانے اور بعد میں پچھتانے سے بچا جا سکے۔ جنرل منیر نے پاکستان میں ایک پریشان کن رجحان پر بھی تشویش کا اظہار کیا، جہاں بعض افراد اور گروہ بغیر کسی تصدیق کے ”جیسا موصول ہوا ویسا آگے بڑھا دو” کی ذہنیت کے ساتھ معلومات پھیلاتے ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ یہ رویہ اسلام کی حقیقی تعلیمات کے خلاف ہے۔

اسلام میں معلومات کی ترسیل ایک معمولی عمل نہیں ہے بلکہ یہ اخلاقی، سماجی اور روحانی وزن رکھتی ہے۔ ایک ایسے عقیدے کے پیروکاروں کی حیثیت سے جو انصاف، سچائی اور جوابدہی پر زور دیتا ہے، مسلمانوں کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ علم یا خبروں کے تبادلے میں اعلی ترین معیار برقرار رکھیں۔ ایک ایسے دور میں جہاں سوشل میڈیا، میسجنگ ایپس اور آن لائن پلیٹ فارمز کے ذریعے معلومات بجلی کی رفتار سے پھیلتی ہیں، اسلامی تعلیمات میں بیان کردہ اصول پہلے سے کہیں زیادہ متعلقہ ہو جاتے ہیں۔ اسلام میں مرکزی اخلاقی خدشات میں سے ایک بغیر تصدیق کے خبریں پھیلانا ہے، جس کی مذہب سختی سے حوصلہ شکنی کرتا ہے اور بعض صورتوں میں واضح طور پر مذمت کرتا ہے۔ قرآن پاک کسی بھی خبر پر عمل کرنے یا اسے دوسروں تک پہنچانے سے پہلے اس کی تصدیق کی اہمیت کی بنیاد رکھتا ہے۔ آرمی چیف کی جانب سے تلاوت کی گئی آیت ایک گہرے اخلاقی اصول کا خلاصہ کرتی ہے یعنی تصدیق کا فرض۔ یہ مومنین کو سکھاتی ہے کہ کسی بھی خبر یا رپورٹ پر ردعمل ظاہر کرنے یا اسے آگے بڑھانے سے پہلے توقف کریں، غور کریں اور اس کی ساکھ کا جائزہ لیں۔ اس آیت کا پس منظر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کا ایک حقیقی واقعہ تھا، جہاں غلط معلومات ایک سنگین تنازع کا باعث بن سکتی تھیں۔ اس کے بعد آنے والی ہدایت نہ صرف ایک واقعے کو روکنے کے لیے تھی، بلکہ ایک لازوال اصول قائم کرنے کے لیے تھی کہ غیر تصدیق شدہ معلومات پر عمل نہ کریں کیونکہ یہ ناانصافی اور پچھتاوے کا باعث بن سکتی ہے۔

اسلام میں دوسروں کو نقصان پہنچاناچاہے وہ الفاظ، افعال یا جھوٹے الزامات کے ذریعے ہوایک بڑا گناہ سمجھا جاتا ہے۔ فتنہ (اشتعال، تنازع یا اختلاف) کی سختی سے مذمت کی گئی ہے اور افواہوں یا بے بنیاد دعوں کا لاپرواہی سے پھیلانا اس کا براہ راست سبب بن سکتا ہے۔ قرآن پاک بار بار فتنہ کے خطرات سے خبردار کرتا ہے، یہاں تک کہ بعض سیاق و سباق میں اسے قتل سے بھی بدتر قرار دیتا ہے (قرآن 2:191)۔ ایک چھوٹی سی جھوٹی خبر کسی کی شہرت کو برباد کر سکتی ہے، خاندانوں کو تباہ کر سکتی ہے، معاشرتی تنا کو بھڑکا سکتی ہے اور یہاں تک کہ جانوں کو خطرے میں ڈال سکتی ہے۔ مزید برآں، اسلام قطعی طور پر غیبت اور بہتان سے منع کرتا ہے جو غیر تصدیق شدہ خبروں کو افراد کے بارے میں پھیلانے سے پیدا ہو سکتے ہیں۔ قرآن غیبت کو اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانے سے تشبیہ دیتا ہے (قرآن 49:12) جو ایک انتہائی پریشان کن تصویر ہے جو گناہ کی سنگینی کی عکاسی کرتی ہے۔ بہتان، جہاں بغیر کسی ثبوت کے جھوٹے الزامات لگائے جاتے ہیں، اسلامی قانون میں اس کے اور بھی سنگین نتائج ہیں اور اسے دنیا اور آخرت دونوں میں قابل سزا جرم سمجھا جاتا ہے۔ ایک اور متعلقہ تصور تقوی ہے۔ ایک ایسا شخص جو تقوی رکھتا ہے وہ ہمیشہ اپنے الفاظ اور اعمال کے بارے میں ہوشیار رہتا ہے، یہ جانتا ہے کہ جو کچھ وہ کہتا یا کرتا ہے وہ فرشتوں کے ذریعہ ریکارڈ کیا جاتا ہے اور اللہ کے ذریعہ اس کا حساب لیا جائے گا۔ خبریں شیئر کرنے سے پہلے تقوی رکھنے والا مومن پوچھے گا: کیا یہ سچ ہے؟ کیا یہ فائدہ مند ہے؟ کیا یہ منصفانہ ہے؟ کیا اس سے کسی کو تکلیف پہنچے گی؟ ان سوالات کے جوابات ان کے اعمال کی رہنمائی کرتے ہیں۔ یہ ہوشیاری ہی اسلام میں ایک لاپرواہ کو باضمیر سے ممتاز کرتی ہے۔ ایک ایسے معاشرے میں جو معلومات سے بھرا پڑا ہے، جو کچھ درست اور بہت سی غلط ہوتی ہیں، مسلمانوں کو ان کے پھیلا کے بجائے فلٹر کے طور پر کام کرنے کی دعوت دی جاتی ہے۔

غیر تصدیق شدہ خبریں پھیلانے کے نتائج کی سب سے مشہور مثالوں میں سے ایک حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ پر لگائی گئی تہمت کا واقعہ ہے۔ اس واقعے میں ان کی سیرت کے بارے میں جھوٹی افواہیں پھیلائی گئیں۔ اس کے نتائج سنگین تھے اور اللہ نے سورہ النور میں ان لوگوں کی مذمت میں آیات نازل کیں جنہوں نے بغیر کسی ثبوت کے جھوٹ پھیلایا: ”جب تم نے اسے اپنی زبانوں سے سنا اور اپنی زبانوں سے وہ بات کہی جس کا تمہیں علم نہ تھا اور تم نے اسے معمولی سمجھا حالانکہ وہ اللہ کے نزدیک بہت بڑی بات تھی۔” (سورہ النور، 24:15)۔

جن لوگوں نے بغیر تصدیق کے جھوٹ پھیلایا، انہیں سرعام ڈانٹا گیا اور بعض کو بہتان (قذف) کے جرم میں 80کوڑوں کی سزا دی گئی، جو کہ اسلامی قانونی سزا ہے جو کسی پر بغیر چار گواہوں کے زنا کا الزام لگانے پر مقرر ہے(سورہ النور، 24:4)۔ یہ واقعہ اسلامی قانون میں ایک بنیادی مثال بن گیا، جو بغیر ثبوت کے نقصان دہ افواہیں پھیلانے کے سنگین نتائج کو اجاگر کرتا ہے۔ مدینہ کے منافقین مسلمانوں کے معاشرے میں گھبراہٹ اور تقسیم پیدا کرنے کے لیے جھوٹی خبریں پھیلانے کے لیے بدنام تھے۔ ان کے اعمال کے جواب میں اللہ تعالی نے یہ حکم نازل فرمایا: ”اگر منافق اور وہ لوگ جن کے دلوں میں بیماری ہے اور وہ لوگ جو مدینہ میں جھوٹی خبریں پھیلاتے ہیں باز نہ آئے تو ہم تمہیں ان کے خلاف ضرور اکسائیں گے، پھر وہ اس میں تمہارے پڑوسی نہیں رہیں گے۔” (سورہ الاحزاب، 33:60)۔

اگر کوئی شخص دنیاوی سزا سے بچ بھی جائے، تو اسلام سکھاتا ہے کہ وہ اپنے الفاظ کے نتائج کے لیے اللہ کے نزدیک جوابدہ رہتا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے زور دیا کہ زبان سے ہونے والے گناہ جیسے جھوٹ بولنا، غیبت کرنا اور بہتان لگانا سب سے خطرناک گناہوں میں سے ہیں۔ قیامت کے دن، ایک شخص دیکھ سکتا ہے کہ ایک بظاہر چھوٹی سی افواہ کے دور رس اثرات کی وجہ سے اس کے نتائج کئی گنا بڑھ چکے ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو کوئی اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے اچھی بات کہنی چاہیے یا خاموش رہنا چاہیے۔” (صحیح بخاری اور صحیح مسلم) یہ سادہ لیکن طاقتور حدیث مومنین کو یاد دلاتی ہے کہ وہ اپنے الفاظ کو احتیاط سے تولیں اور غیر ضروری گفتگو اور خبروں سے بچیں خاص طور پر جب وہ غیر تصدیق شدہ یا نقصان دہ ہوں۔

یہ واضح ہے کہ غیر تصدیق شدہ معلومات پھیلانا نہ صرف نقصان دہ ہے بلکہ اسلامی تعلیمات اور مہذب معاشروں کے قائم کردہ اصولوں کے بھی منافی ہے۔ بدقسمتی سے ہم اسلام کی بنیادی اقدار، جو سچائی، انصاف اور ذمہ داری پر زور دیتی ہیں سے بہت دور ہیں۔ اس کے ساتھ ہی، ترقی یافتہ معاشروں کے مثبت پہلوؤں جیسے درستگی اور جوابدہی کے لیے ان کی وابستگی سے بھی سیکھنے کے بجائے ہم اکثر ان کی ثقافتوں کے منفی اثرات کی تقلید کرتے ہیں۔

صرف اتحاد اور مشترکہ ذمہ داری کے ذریعے ہی پاکستان اپنی قومی سلامتی کا تحفظ کر سکتا ہے اور طویل مدتی استحکام اور امن کی طرف بڑھ سکتا ہے۔ آرمی چیف کے غیر تصدیق شدہ خبریں پھیلانے کے خطرات سے متعلق بیان کو ملک بھر میں وسیع پیمانے پر سراہا گیا ہے۔ عوام اس بارے میں ٹھوس کارروائی کرنے کا مطالبہ کرتی ہے۔ پاکستان کو ایک ہارڈ سٹیٹ بنانا ضروری یے جو غلط کام کرنے والوں اور ریاست مخالف عناصر کو قانون کے تحت جوابدہ ٹھہرائے۔