دنیا کی 200بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں میں سے 195کا تعلق ان ترقی یافتہ ممالک سے ہے۔ ان ملٹی نیشنل کمپنیوں نے بس خدائی کا دعویٰ نہیں کیا لیکن ان کے اثاثے اور ان کی ہوس خدائی کے دعویداروں نمرود، فرعون اور شدّاد کو بھی شرمائے دے رہی ہے۔ بالفرض یہ ملٹی نیشنل کمپنیاں چاہیںتو یہ دنیا صرف تیس منٹ میں تباہ ہوجائے۔ اگر پانچ سو ملٹی نیشنل کمپنیز میں سے چند کمپنیاں اتحاد کرلیں تو وہ دنیا کے آدھے سے زیادہ وسائل پر قابض ہوسکتی ہیں۔
مثلاً پوری دنیا کے برقی نظام کی مالیت 188ارب ڈالر ہے، تین کمپنیاں مل کر یہ سارا نظام خرید سکتی ہیں۔ دنیا بھر میں ڈاک کے نظام کی مالیت 113ارب ڈالر ہے۔ پانی صاف کرنے کا نظام 58ارب ڈالر، ریلوے کا نظام 109ارب ڈالر، دنیا کی زیر کاشت زمین 178ارب ڈالر، پوری دنیا کی صحت اور صفائی کا نظام 211ارب ڈالر، اور دنیا کی تمام بڑی شاہراہیں 186ارب ڈالر میں خریدی جا سکتی ہیں اور دنیا کے یہ سارے اثاثے پانچ سو کمپنیوں کی فہرست میں شامل پہلی 20کمپنیاں خرید سکتی ہیں اور خدانخواستہ اگر ایسا ہوگیا تو پھر اگر یہ کمپنیاں چاہیں گی تو بلب روشن ہوں گے،ڈاک کی ترسیل ہوگی، ٹرین اپنا سفر طے کرے گی، زمین پر گندم کاشت ہوگی اور سڑک پر پہیہ چلے گا اور جب یہ کمپنیاں چاہیں گی تو مریض کا علاج ہوگا۔
گویا پوری دنیا ان کمپنیز کے مالکان یا حصہ دار افراد کے اشارئہ ابرو کی محتاج ہوجائے گی۔ان کثیر القومی اداروں کی وجہ سے سرمایہ کا ارتکاز مسلسل بڑھتا جارہا ہے، اس کی چند مثالیں ملاحظہ کیجیے۔ صرف ایک بین الاقوامی دوا ساز ادارہ اگر چاہے تو دنیا کے ہر شخص کو مفت علاج کی سہولت مہیا ہوسکتی ہے۔ صرف دو ملٹی نیشنلز اگر چاہیں تو باہم مل کر دنیا کی کل آبادی کو پوری زندگی کے لیے اسپتال کے ایک کمرہ کی سہولت فراہم کرسکتی ہیں۔ اگر تین کمپنیاں یہ ارادہ کریں کہ دنیا کی چھ ارب آبادی کے لیے درمیانے درجے کے اسپتال قائم کیے جائیں تو وہ اپنے ارادے کو پایہ تکمیل تک پہنچا سکتی ہیں۔ اوپری درجے کی دو ملٹی نیشنل کمپنیز ایسی ہیں اگر چاہیں تو دنیا کے ہر مریض کو بارہ بارہ گھنٹے کے لیے دو ڈاکٹر اور چار نرسیں فراہم کرسکتی ہیں۔ ایسا کرنے کے باوجود ان کمپنیز کے سرمایے میں کوئی کمی واقع نہیں ہوگی۔ بالفرض اگر پانچ بین الاقوامی دوا ساز ادارے جان بچانے والی دواؤں پر سے اپنا کنٹرول ختم کردیں تو مہلک امراض سے مرنے والوں کی تعداد میں 90فیصد کمی واقع ہوجائے گی۔
تمام دواساز کمپنیاں ہر سال اپنی پروڈکٹ کی پروموشن کے لیے اشتہارات، سیمینارز اور ورکشاپس پر جس قدر سرمایہ خرچ کرتی ہیں، اگر یہ رقم بچا کر اسے حقیقی معنوں میں بامقصد طور پر خرچ کیا جائے تو دنیا سے تین مہلک امراض کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ صرف سرجری کے آلات فروخت کرنے والی کمپنیاں چاہیں تو چار سال تک دنیا کے تمام مریضوں کے مفت آپریشن کر سکتی ہیں۔ طاقت کی دوائیں بنانے والی کمپنیاں دس سال کے عرصے تک دنیا کے تمام شیر خوار بچوں کے لیے دودھ فراہم کرسکتی ہیں۔ صرف دو کمپنیاں چاہیں تو دنیا سے ٹی بی، کینسر اور ایڈز کو جڑوں سے اکھاڑ پھینک سکتی ہیں، اگر زرعی اجناس کے بیج، کھاد اور کیڑے مار ادویہ بنانے والی صرف دو کمپنیاں چاہیں تو 6ارب انسانوں کو دس سال تک مفت گندم فراہم کر سکتی ہیں۔ دنیا کی آدھی بنجر زمینوں کو قابلِ کاشت بنا سکتی ہیں۔ بجلی بنانے والی آٹھ کمپنیاں ساتوں براعظم میں چار سال تک مفت بجلی فراہم کرسکتی ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں ٹرین سسٹم چلانے والی 5کمپنیاں تین سال تک چھ ارب انسانوں کو ٹرین کا مفت سفر کروا سکتی ہیں۔ دس بڑی ایئر لائنز چاہیں تو چھ ارب افراد کو پانچ سال تک فضائی سفر مفت کروا سکتی ہیں۔ ڈاک کی ترسیل کرنے والی کمپنیاں اب تک اس قدر خطیر سرمایہ جمع کرچکی ہیں وہ اگلے پچاس برسوں تک مفت سروس فراہم کریں تو بھی خسارے میں نہیں رہیں گی۔ صرف ایریکسن موبائل کمپنی کے عہدیداروں کی گاڑیاں فروخت کرنے سے جو رقم حاصل ہوگی، اُس سے روانڈا، برونڈی اور ایتھوپیا کا قحط دور ہو سکتا ہے۔
دنیا کی دس بڑی کمپنیاں اپنے دفتروں میں سالانہ جتنی اسٹیشنری استعمال کرتی ہیں اس کی مالیت دنیا کے پندرہ غریب ملکوں کے تعلیمی بجٹ کے برابر ہے۔ جاپان میں ہر سال 35ارب ڈالر ملٹی نیشنل کمپنیوں کے مہمانوں کی خاطر تواضع پر خرچ کیے جاتے ہیں، یہ دنیا کی صحت کے کل بجٹ کی ایک چوتھائی رقم ہے۔ صرف ایک ملٹی نیشنل کمپنی چاہے تو دنیا بھر کی بارودی سرنگیں صاف کی جا سکتی ہیں۔ صرف ایک کمپنی پوری دنیا کے معذوروں کو مصنوعی اعضاء بنا کر دے سکتی ہے۔ . ایک کمپنی اگر اپنا ایک سال کا منافع دنیا بھر میں تقسیم کر دے تو ہر شخص کو ایک کار مفت فراہم ہوسکے گی۔ یہ اپنے بچے ہوئے کھانے کو کھلے سمندر میں مچھلیوں کی خوراک تو بناسکتے ہیں لیکن فقر و فاقہ سے بلکتے کروڑوں انسانوں کو ایک لقمہ تک مفت نہیں دے سکتے۔ کسی بھی ملک میں جاکر تحقیق کرلیجیے کہ یہ ملٹی نیشنل کمپنیاں عالمگیریت کے بہانے ان ممالک کے بچے کھچے وسائل پر قبضہ جمانے کی کوشش میں لگی ہوئی ہیں۔ آئندہ مضمون میں اسلحہ ساز بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں پر بات کریں گے۔