انگریزی سے عربی ترجمہ اور مصنوعی ذہانت

تیسری و آخری قسط:
افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم مسلمانوں ہی میں سے کچھ صاحبانِ علم، باطل قوتوں اور مستشرقین کے غیر دانستہ طور پر آلہ کار بن رہے ہیں اور مصنوعی ذہانت کو استعمال کرتے ہوئے قرآن پاک کی تفسیر و ترجمہ پر کام کر رہے ہیں اور ایسے سوالات اٹھا رہے ہیں جو کہ بالکل نئی طرز کے ہیں۔ گو کہ ایسے حضرات بڑے اخلاص سے ان باتوں کی ترغیب دیتے ہیں کہ ہم تو مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی کو قرآن فہمی کے لیے استعمال کر رہے ہیں اور مصنوعی ذہانت کو علومِ قرآن میں استعمال کر کے کئی فوائد حاصل کیے جا سکتے ہیں مثلاً اس سے مدارسِ دینیہ کے طلبہ کرام میں قرآنِ پاک کا ترجمہ کرنے اور علمِ تفسیر میں علمی رسوخ، استعداد اور صلاحیت بڑھے گی مگر حقیقتِ حال یہ ہے کہ چونکہ ایسے لوگوں کو سائنسی علوم میں رسوخ نہیں، مصنوعی ذہانت کی تکنیکی باریکیوں و خامیوں کا علم نہیں، غالباً اسی وجہ سے وہ نادانستہ طور پر مصنوعی ذہانت کو قرآن فہمی میں استعمال کرنے کو فروغ دے رہے ہیں۔ مصنوعی ذہانت سے متاثر ہو کر بعض لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ ”مصنوعی ذہانت ہمیں قرآن کے ایسے پہلوں کو سمجھنے میں مدد کر سکتی ہے جو پہلے اوجھل تھے۔ اس سے ہر زبان میں قرآن کا ترجمہ کیا جا سکتا ہے جس سے دنیا بھر کے لوگ قرآن کو اپنی زبان میں سمجھ سکتے ہیں۔” خلاصہ یہ کہ ملکی و عالمی سطح پر ایسی کوششیں جاری ہیں کہ کس طریقے سے مصنوعی ذہانت کو علومِ قرآنی اور بالخصوص ترجمہ قرآن میں استعمال کیا جائے۔

قرآن پاک کا ترجمہ و تفسیر کا کام انسانوں نے انجام دیا ہے۔ بڑے بڑے مفسرین نے قرآن پاک کا ترجمہ اور تفسیر کی ہے مگر وہ لوگ اللہ کے ولی تھے، دینی علوم میں مہارت رکھتے تھے، اور ان میں تقویٰ و للہیت تھی۔ اس کے علاوہ جن لوگوں نے عقل لڑا کر قرآن کا ترجمہ و تفسیر کی، وہ لوگ خود بھی گمراہ ہوئے اور دوسروں کو بھی گمراہ کیا۔ لہٰذا جن لوگوں نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو چھوڑ کر اپنی رائے پر ترجمہ و تفسیر کیا، ان لوگوں میں للہیت، اتباعِ سنت، تقویٰ اور سینہ بہ سینہ علوم کی منتقلی نہیں ہوئی تھی، اسی وجہ سے ان کے ترجمہ و تفسیر کو امت نے بحیثیتِ مجموعی تسلیم نہیں کیا۔ آج کے دور میں اگر کوئی مصنوعی ذہانت کے پروگرامز سے یہ توقع رکھتا ہے کہ ان سے ہم قرآن پاک کا ترجمہ، تفسیر، خلاصہ اور کسی آیت سے حکم نکال سکتے ہیں تو ایسا کرنا غیر مناسب ہوگا۔

مصنوعی ذہانت کے عالمی اور مستند سائنسی ماہرین مصنوعی ذہانت کی خامیاں اور کمزوریاں گنواتے نہیں تھکتے۔ پروفیسر یان لی کن کہتے ہیں گو کہ مصنوعی ذہانت کے کمپیوٹر پروگرامز (الگوریتھم) بہت طاقتور ہیں مگر وہ نہیں سمجھتے کہ مصنوعی ذہانت سے انسانیت کو کوئی خطرہ لاحق ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ موجودہ مصنوعی ذہانت کسی بھی معنوں میں ذہین نہیں ہے۔ نہایت اہم بات یہ ہے کہ مصنوعی ذہانت کے کمپیوٹر پروگرامز ( الگوریتھم) بنانے والے ہی یہ کہتے ہیں کہ مصنوعی ذہانت کے اندر ایک عام سے جانور یعنی بلی جتنی بھی ذہانت نہیں ہے۔ ”گھریلو پالتو بلی کے اندر جو صلاحیت، صفات، اور ذہانت پائی جاتی ہے مثلاً کہ وہ اپنے دماغ میں حقیقی دنیا کا ایک ماڈل بناتی ہے، اس کی قائم رہنے والی یاداشت، اس کی استدلال کی صلاحیت، اور منصوبہ بندی کی استعداد، یہ سب چیزیں مروجہ مصنوعی ذہانت کے ماڈلز میں نہیں پائی جاتیں حتی کہ ”میٹا” کمپنی کے اپنے بنائے گئے ماڈلز میں بھی نہیں”۔ اسی طریقے سے یونیورسٹی آف گلاسگو، برطانیہ کے ڈاکٹر جو سلیٹر یہ کہتے ہیں کہ: ”چیٹ جی پی ٹی خود سے مواد بنادیتا ہے جسے لوگ ہیلوسینیشن سے تعبیر کرتے ہیں جبکہ اس کے لیے یہ اصطلاح استعمال کرنا صحیح نہیں ہے بلکہ اس کے لیے جو درست اصطلاح ہوگی وہ فضول، لغو یا بکواس کہا جائے اور اسے وہ ”فضول، لغو یا بکواس مشینوں” سے تعبیر کرتے ہیں”۔

ہم یہ سوال کرتے ہیں کہ کیا دین کے انتہائی اہم مسائل جن کے جواب پر عمل کرنے اور نہ کرنے سے ہمیشہ ہمیشہ کی آخرت کی زندگی کا مدار ہے، اس کے لیے ہم ایسی ”فضول، لغو یا بکواس مشینوں” پر اعتماد کرسکتے ہیں؟ اور کیا ہم اپنی آخرت کی ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی کو داؤ پر لگا سکتے ہیں؟ پھر کیوں کچھ صاحبانِ علم عوام الناس کی غلط ذہن سازی کررہے ہیں کہ دینی مسائل کو مصنوعی ذہانت کے پروگرامز سے پوچھا جائے؟ پھر کیوں مدارسِ دینیہ کے طلبہ کرام کو چیٹ جی پی ٹی کو استعمال کرکے علمی استعداد بڑھانے اور ترجمۂ قرآن کروانے کی بات کی جارہی ہے؟ ایسے صاحبانِ علم اور بہی خواہانِ امتِ مسلمہ سے مکرر عرض ہے کہ چونکہ آپ کو کمپیوٹر سائنس اور مصنوعی ذہانت کی پیچیدگیوں اور خامیوں کا علم نہیں اور نہ ہی آپ اس مشکل سائنسی موضوع کے ماہر ہیں لہٰذا مصنوعی ذہانت کے موضوع کے مستند عالمی ماہرین کی رائے پر کلی اعتماد کرتے ہوئے مصنوعی ذہانت کو مدارسِ دینیہ میں رواج دینے سے گریز کیجئے! نیز، مصنوعی ذہانت کے پروگرامز کو علومِ وحی کے سمجھنے، سیکھنے سکھانے اور ترویج و اشاعت کے لیے ہرگز ہرگز استعمال نہ کیا جائے بلکہ جو ”خیر القرون ” میں طریقہ کار اختیار کیے گئے ہیں یعنی ”سینہ بہ سینہ علوم کی منتقلی” اور ”سند”، انہی پر انحصار اور انہی کے ذریعے دینی علوم کو اگلی نسل تک منتقل کرنا چاہیے۔

خلاصہ کلام یہ ہے اگرچہ مصنوعی ذہانت اور خاص طور پر ایل ایل ایم (چیٹ جی پی ٹی وغیرہ) کے حوالے سے یہ بات پیش کی جارہی ہے کہ ایل ایل ایم کے ذریعے پوری دنیا کے ڈیٹا (مواد) تک رسائی ہوگئی ہے اور اس سے وہ چیزیں وجود میں آرہی ہیں کہ انسانی عقل دنگ ہے، مگر حقیقتاً مصنوعی ذہانت کے ذریعے انگریزی سے عربی ترجمہ بھی فی الحال صحیح طریقے سے نہیں ہوپارہا۔ لہٰذا ہماری گزارش ہے کہ قارئین مصنوعی ذہانت کی کمپنیوں کی تشہیر سے ہرگز متاثر نہ ہوں اور مصنوعی ذہانت سے متعلق دعوں کی صداقت کو ماہرینِ فن یعنی مستند عالمی کمپیوٹر سائنسدانوں کی آراء کی بنیاد پر پرکھیں۔ کمپیوٹر سائنسدان و مستند عالمی محققین یہ کہتے ہیں کہ مصنوعی ذہانت ایسا مواد تیار کرسکتی ہیں جو کہ مستند لگتا ہو اور اصل میں وہ غلط، نامکمل، اور متعصب ہو، لہٰذا ترجمہ کرتے وقت مصنوعی ذہانت کے استعمال میں خاص احتیاط برتنی چاہیے۔ آخری بات یہ کہ مصنوعی ذہانت قطعی طور پر قرآن پاک کا صحیح مفہوم اور ترجمہ نہیں کرسکتی۔ لہٰذا ہم میں سے ہر ایک مسلمان کے لیے لازم ہے کہ وہ قرآنِ پاک کے اسی ترجمہ، تفسیر اور مفہوم کو قبول کرے جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ذریعے ہم تک پہنچتی ہے۔ نیز ہمیں چاہیے کہ ہم مصنوعی ذہانت کے سافٹ وئیر کو دینی علوم بالخصوص قرآنِ پاک کی تفسیر و ترجمہ کے لیے ہرگز ہرگز استعمال نہ کریں۔