پن بجلی کے منصوبے اور صنعتی ترقی

بھارت کی جانب سے پانی بند کرنے کی دھمکی باربار دی جا رہی ہے جس کے جواب میں عوامی جمہوریہ چین نے عملی قدم اٹھاتے ہوئے مہمند ڈیم پر کام تیز کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ ایک چینی اخبار کے مطابق ڈیم میں کنکریٹ بھرنا شروع کردیا گیا ہے، جو اس منصوبے کی تکمیل کے لیے اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ مہمند ڈیم کو اس طرح سے ڈیزائن کیا گیا ہے کہ اس سے سستی بجلی حاصل کی جاسکے گی۔

جہاں تک پن بجلی کا تعلق ہے اس وقت لاگت کے لحاظ سے سب سے سستی ترین بجلی ہے۔ پاکستان کو 1950ء کی دہائی سے لے کر 1994ء تک جتنی بھی صنعتی ترقی، معاشی ترقی، خوشحالی حاصل ہوئی ، اس میں پن بجلی کا بڑا حصہ تھا۔ جب سے 1994ء میں غیر ملکی آئی پی پیز سے بجلی کی پیداوار کا معاہدہ کیا گیا، پاکستان میں بجلی کے نرخوں میں تیزی سے اضافہ ہونا شروع ہوا۔ پھر نائن الیون کے بعد ایک طرف ملک میں امن وامان کی صورت حال مخدوش ہوئی جس سے سرمایہ کار راہ فرار اختیار کرنے لگے تو دوسری طرف بنگلادیش نے دریائی پانی سے بجلی کی پیداوار میں اضافہ کرنا کردیا جس سے سرمایہ کاروں کو وہاں منتقل ہونے کی ترغیب ملی۔ چونکہ پاکستان کی بہت سی تاجر برادریاں پہلے ہی سابقہ مشرقی پاکستان میں تجارت وصنعت کا طویل تجربہ رکھتی تھیں اور ان میں سے بہت سے خاندان اپنی فیکٹریاں، صنعتیں بنگلادیش میں اس طرح سے چھوڑکر آئے تھے کہ ان کے بنگالی منیجرز وغیرہ اس کی دیکھ بھال کر رہے تھے۔ ان میں سے کچھ مکتی باہنی کے قبضے میں چلے گئے۔

بہرحال موقع ملتے ہی یہاں کے صنعت کاروں نے ڈھاکہ، چٹاگانگ اور دیگر شہروں میں جاکر ٹیکسٹائل ودیگر صنعت میں اپنی قسمت کو آزمانا شروع کردیا۔ یہ لوگ تاجر بھی تھے، صنعت کار بھی تھے، خاندانی، جدی پشتی تجربہ بھی رکھتے تھے۔ لہٰذا جلد ہی بنگلادیش کی ٹیکسٹائل انڈسٹری نے پاکستان کو پیچھے چھوڑ دیا۔ بات واضح ہے کہ ان صنعت کاروں نے یہاں اپنے یونٹ کیوں بند کیے؟ اس لیے کہ بجلی کا مسئلہ پیدا ہو رہا تھا۔ لوڈشیڈنگ بھی بڑھ رہی تھی۔ بجلی گیس کے نرخ بڑھ رہے تھے۔ ٹینکرز مافیا کا راج قائم ہو رہا تھا اور ہر ہفتے، ہر روز اور بعض اوقات تو صبح شام ڈالر کی قدر میں اضافہ اور پاکستانی روپے کی قدر میں کمی ہوتی چلی جا رہی تھی۔

نئی صدی کے آغاز پر اس وقت کی پاکستانی حکومت نے نئے ڈیموں کی تعمیر کی بات تو کی مگر اس میں کامیاب نہ ہوسکی۔ مہمند ڈیم کے علاوہ داسو ہائیڈرو پاور منصوبے پر بھی چینی انجینئرز اور دیگر ملازمین کام کر رہے ہیں۔ اس ڈیم پر 23جولائی 2017ء میں جب مسلم لیگ ن کی حکومت تھی، اس وقت کام شروع ہوا تھا اور اسے 5سال میں مکمل ہونا تھا۔ اس ڈیم کی تعمیر میں ترکیہ اور جاپان کی کمپنیوں کا تعاون بھی حاصل کیا گیا تھا۔ چینی انجینئرز اور ملازمین کی گاڑی پر 14جولائی 2021ء کو دہشت گردی کا ہلاکت خیز حملہ ہوا تھا جس سے تعمیراتی کام متاثر ہوا تھا۔ بعد میں کام شروع کردیا گیا۔چین نے تبت کے مشرقی کنارے پر ایک بہت بڑے ہائیڈرو پاور ڈیم کی منظوری دے دی ہے۔ یہ ڈیم بھارت کو متاثر کر سکتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بھارت میں پانچ ہزار ڈیم ہیں اور چین میں 85ہزار ڈیمز ہیں جبکہ پاکستان میں دو بڑے ڈیموں سمیت صرف 185آبی ذخائرہیں، یہ تعداد کم ازکم دو ہزار تو ہونا چاہیے تھی تاکہ بھارت کو آبی جارحیت سے روکا جاسکے۔

بھارت مسلسل آبی دہشت گردی میں مبتلا ہے۔ کئی ایسے پراجیکٹ شروع کرنے جا رہا ہے جن سے پاکستان کا پانی روکا جا سکے۔ بھارت اپنی تیاریوں میں انتہائی خاموشی کے ساتھ مصروف عمل ہے۔ پاکستان کو چاہیے کہ ڈیموں کی تعمیر کا کام زور وشور سے کیا جائے۔ ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی کا قیام عمل میں لایا جائے۔ پہلے تو ان تمام رپورٹوں کا جائزہ لیا جائے جن میں خاص طور پر صوبہ خیبرپختونخوا اور گلگت بلتستان کے علاوہ کشمیر کے مختلف مقامات پر چھوٹے بڑے ڈیموں کی تعمیر کے امکانات کو واضح کیا گیا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ بھارت کی طرف سے پانی روکنے، پانی کا بہاؤ کم کرنے یا دیگر کسی بھی طریقے سے پاکستان کا پانی روکنے کی کوئی کوشش، سازش کا کس طرح سے مقابلہ کرنا ہے۔ تمام تر حکمت عملی واضح کرنا چاہیے اور بھارت کی ہر سازش اور پلاننگ کا مقابلہ کرنے کے لیے ان حکمت عملی کے تحت کارروائی کا فوری آغاز کردیا جائے۔

دیامر بھاشا ڈیمز کی تعمیر کے لیے 13مئی 2020ء کو چائنا پاور اور ایف ڈبلیو او کے جوائنٹ وینچر کے ساتھ 442ارب روپے کے معاہدے پر دستخط ہوئے تھے۔ اس ڈیم کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ یہ سب سے بڑا پراجیکٹ ہوگا۔ اس ڈیم کی اہلیت کو سمجھتے ہوئے اس وقت کی حکومت نے اس پر 24گھنٹے کام شروع کرا دیا تھا۔ یہ ایک ماحول دوست منصوبہ ہوگا جس میں 81لاکھ ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کیا جاسکے گا۔ اس ڈیم کی تعمیر سے پاکستان کے پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت 30دن سے بڑھ کر 48دن ہو جائے گی اور سستی ترین بجلی بھی حاصل ہوگا اور یہی سا وقت اہم ترین اور مشکل ترین مسئلہ بن چکا ہے کہ بجلی مہنگی ہے لہٰذا ہر ہر مصنوعات، ہر صنعتی پیداوار، چاہے اس کا تعلق گھریلو صنعتوں سے ہو یا بڑی صنعتوں سے ہو۔ ایک تو لوڈشیڈنگ کا مسئلہ اس کے ساتھ مہنگی بجلی اور کئی باتیں ہیں جن کی بناء پر پاکستان کی برآمدات کئی عشروں سے 25ارب ڈالر سے 30ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے۔چین امریکا تجارتی جنگ میں نرمی ظاہر کر رہی ہے کہ وہ ممالک جو اپنی ایکسپورٹ کو امریکا کے لیے بڑھانا چاہتے ہیں، وہ اپنی لاگت پر نظرثانی کریں، امریکا کے لیے معیاری اور کم لاگت والی اشیاء پیش کریں، تاکہ باہمی تجارت کو فروغ حاصل ہو۔ تمام تر باتوں کا انحصار اس بات پر ہے کہ پاکستان کو کب اور کتنی مقدار میں سستی ترین بجلی حاصل ہوتی ہے تاکہ وہ صنعتی ترقی اور ٹیکسٹائل کی صنعت میں اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کرلے۔