غزہ کا انسانی المیہ۔ عالم انسانیت کو آگے آنا ہوگا

برطانیہ، فرانس اور کینیڈا کے رہنماؤں نے پیر کے روز ایک مشترکہ بیان میں غزہ میں اسرائیلی فوجی کارروائیوں میں توسیع کی شدید مخالفت کا اظہار کیا اور اسرائیل کی جانب سے غزہ میں صرف بنیادی مقدار میں خوراک داخل ہونے کی اجازت کو بالکل ناکافی قرار دیا۔تینوں ملکوں کے رہنماؤں نے حماس سے اسرائیلی یرغمالیوں کی فوری رہائی کا مطالبہ بھی کیا۔ فرانسیسی صدر ایمانویل میکرون، برطانوی وزیرِ اعظم کیر اسٹارمر اور کینیڈین وزیرِ اعظم مارک کارنی نے اپنے بیان میں خبردار کیا کہ وہ غزہ میں نیتن یاہو حکومت کے قابلِ مذمت اقدامات پر خاموش نہیں رہیں گے اور اگر اسرائیل نے اپنی فوجی کارروائی بند نہ کی اور انسانی امداد کو داخل ہونے کی اجازت نہ دی تو وہ ٹھوس اقدامات کرسکتے ہیں۔

اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو نے جن کو بین الاقوامی عدالت انصاف غزہ میں انسانیت کے خلاف جرائم کا مرتکب قرار دے چکی ہے، اس یورپی بیان کو ”دہشت گرد حملے کا انعام” قرار دیا، جس کا اسرائیل کو 7 اکتوبر کو سامنا کرنا پڑا تھا۔ ان کے مطابق جنگ بندی اور فلسطینی ریاست کے قیام کی حمایت ”مزید مظالم” کو جنم دے گی۔نیتن یاہو کا کہنا تھا کہ جنگ اس وقت ختم ہوگی جب تمام یرغمالیوں کو رہا کیا جائے گا، غزہ کو غیر مسلح کر دیا جائے گا اور حماس کو وہاں سے نکال دیا جائے گا۔

برطانیہ ،فرانس اور کینیڈا کی جانب سے غزہ میں جاری نسل کشی کے خلاف یہ بیان ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب غزہ کے تیس لاکھ شہریوں کو منصوبہ بندی کے تحت بھوکا مارنے(اسٹارویشن) کے صہیونی حکومت کے اقدامات نے نہایت سنگین صورت حال پیدا کردی ہے، اقوام متحدہ کے انسانی امور کے نائب سیکرٹری جنرل ٹام فلیچر نے خبردار کیا ہے کہ اگر فوری امداد نہ ملی تو غزہ میں آئندہ 48 گھنٹوں کے اندر تقریباً 14ہزار شیر خوار بچے موت کے منہ میں جا سکتے ہیں۔ اسرائیل حماس کی جانب سے جنگ بندی اور قیدیوں کی رہائی کے لیے بات چیت کی تمام پیشکشوں کو ردی کی ٹوکری میں ڈال کر اب باقاعدہ اعلان کرکے غزہ پر مکمل قبضے کی مہم شروع کر رکھی ہے، وہاں بلا امتیاز، بلاتوقف اور اندھا دھند بمباری کرکے روزانہ ڈیڑھ سے دو سو افراد کو موت کی نیند سلایا جارہا ہے، باقی ماندہ آبادی کو بھوکا مارنے کے لیے غزہ میں ہر قسم کی امداد کی رسائی تین ماہ کے قریب کے عرصے سے بند کر دی گئی ہے۔ نیتن یاہو کابینہ کے وزراء کھلے لفظوں میں غزہ کی اینٹ سے اینٹ بجادینے، وہاں کے لوگوں کو زبردستی بے دخل کرنے اور ان کی باقی ماندہ سرزمین پر بھی قبضہ کرنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔

ایسے میں پوری دنیائے انسانیت کی نظریں ان عالمی قوتوں پر لگی ہوئی ہیں جو آج کی اکیسویں صدی کی دنیا میں تہذیب، انسانیت،انسانی حقوق ، بچوں کے حقوق اور جانوروں تک کے حقوق کی علم بردار ہیں۔ یہ بڑی بد قسمتی کی بات ہے کہ خود کو مہذب کہنے والی مغربی دنیا کے حکمرانوں نے تاحال اس معاملے میں مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا ہے، امریکا نے جو دنیا میں انسانی حقوق کا سب سے بڑا چیمپئن کہلاتا ہے،اس قضیے میں سب سے شرم ناک،گھٹیا اور گھناؤنا کردار ادا کیا ہے۔ صہیونی دہشت گرد قابض ریاست اسرائیل کی جانب سے غزہ میں انسانیت کے خلاف بدترین جرائم کا ارتکاب امریکا کی پشت پناہی اور اس کی جانب سے فراہم کردہ ہتھیاروں سے ہی کیا جارہا ہے۔ امریکا کے موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی صہیونیت نوازی اور فلسطین دشمنی ان کے ایک ایک بیان اور اقدام سے بالکل عیاں ہے۔ اسرائیلی حکومت نے اس وقت غزہ میں آپریشن ” عربات جدعون” کے نام سے جس پاگل پن کا آغاز کیا ہواہے، یہ دراصل غزہ کو ملیامیٹ کرکے وہاں کے جدی پشتی باشندوں کو جبراً بے دخل کرنے اور وہاں کے ساحلی علاقوں پر عیاشی، فحاشی اور حیوانیت کے اڈے قائم کرنے کے منصوبے پر ہی عمل کیا جارہا ہے جس کا اعلان سرٹیفائیڈ بدکار ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے کئی دفعہ کیا جاچکا ہے۔

ٹرمپ اورنیتن یاہو کی خون آشام جوڑی نے انسانیت کو ایک دوراہے پر لاکر کھڑا کردیا ہے جہاں تیس لاکھ جیتے جاگتے انسانوں کے بھوک سے مرنے کا خطرہ سرپر منڈلارہا ہے۔ ان حالات میں اگر دنیا میں انسانیت نام کی کوئی شے باقی ہے تو اسے اب بہر حال اپنے وجود کا ثبوت دینے کی ضرورت ہے۔ برطانیہ، فرانس اور کینیڈا دنیا کے بڑے اور طاقتور ممالک میں شمار ہوتے ہیں۔ ان ممالک نے اگر غزہ میں انسانی المیے کو روکنے کے لیے صہیونی بھیڑیے نیتن یاہو کو پٹا ڈالنے کا عندیہ ظاہر کیا ہے تو پوری دنیائے انسانیت اس کا خیر مقدم کرتی ہے۔ جیساکہ اقوام متحدہ نے خبر دار کیا ہے، غزہ میں لاکھوں لوگوں کو موت کے منہ میں جانے سے بچانے کے لیے اب سوچنے کا نہیں بلکہ ہنگامی بنیادوں پر کام کرنے کا لمحہ درپیش ہے۔ اگرعالمی برادری نے غزہ کے لاکھوں بچوں کو بھوک اور پیاس کے ہاتھوں لقمہ اجل بننے سے نہیں بچایا تو تاریخ اسے ہر گز معاف نہیں کرے گی اور موجودہ دور کے حکمرانوں پر انسانیت کی اگلی نسلیں لعنت بھیجتی رہیں گی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ برطانیہ کی موجودہ حکومت کو خاص طور پر اس سلسلے میں اپنا مثبت کردار ادا کرنا چاہیے، ایک تو اس لیے کہ موجودہ حکومت اپنے جنگ مخالف موقف کی بنیاد پر ہی اقتدار میں آئی ہے اور دوسری بنیادی بات یہ ہے کہ مشرق وسطیٰ کا موجودہ بحران جو گزشتہ پون صدی سے جاری ہے، درحقیقت برطانیہ ہی کی انتہائی غلط، استعماری اور ناکام پالیسی کا نتیجہ ہے جس کے تحت پہلی جنگ عظیم کے بعد یورپ بھر میں در بدر پھرنے والے بھگوڑے صہیونیوں کو بغیر کسی اخلاقی اور قانونی جواز کے فلسطین کی سرزمین پر لاکر مسلط کردیا گیا اور صدیوں سے ارض فلسطین میں بسنے والے لاکھوں فرزندان زمین کو اپنی سرزمین سے بغیر کسی جرم کے بے دخل کردیا گیا۔ آج غزہ میں انسانیت کے خلاف صہیونی جرائم کو دیکھ کر برطانوی اشرافیہ کو کچھ خود سے شرمسار بھی ہونا چاہیے اور اپنی اس تباہ کن غلطی کے ہولناک نتائج کو سامنے رکھ کر اب کچھ انصاف اور ازالے کی بھی فکر کرنی چاہیے۔

موجودہ حالات میں برطانیہ ، فرانس ، کینیڈا اور دیگرممالک کو پہلی فرصت میں غزہ پر صہیونی جارحیت اور فلسطینیوں کی نسل کشی روکنے کے لیے کوئی ٹھوس اقدام کرنا چاہیے۔ عالمی برادری کو اس امر کا ادراک بھی ہونا چاہیے کہ دنیا میں پائے دار امن واستحکام کے قیام کے لیے نیتن یاہو، ٹرمپ اور مودی جیسے جنگی جنونی اور خبطی حکمرانوں کے ذہنی افلاس اور نفسیاتی عوارض کا موثر علاج ناگزیر ہے۔ اگر اس ناسور کا کوئی علاج نہیں کیا گیا تو اس کی قیمت پوری دنیائے انسانیت کو مزید جنگوں اور تباہی کی صورت میں چکانا پڑے گی۔