کم عمری کی شادی پر پابندی: یہ کیا ہو رہا ہے یہ کیوں ہو رہا ہے؟

سینیٹ نے جلد بازی میںایک قانون پاس کردیا ہے جس کے مطابق اسلامی جمہوریہ پاکستان میں 18سے کم عمر افراد کی شادی کو غیر قانونی قرار دیا گیا ہے۔ پیپلز پارٹی کی شیری رحمان نے چائلڈ میرج بل پیش کرتے ہوئے کہا کہ سولہ سولہ سال کی عمر میں بچیاں مائیں بن جاتی ہیں، کم عمری میں شادی کے بعد بچیاں دوران زچگی فوت ہو جاتی ہیں۔ اس لیے یہ قانون ناگزیر ہے۔ جے یو آئی کے سینیٹر کامران مرتضیٰ نے کہا کہ یہ اسلامی نظام سے متصادم بل ہے، اسے اسلامی نظریاتی کونسل میں بھیجا جائے۔ والدین کی رضامندی کے بغیر آپ بچوں کو اپنی مرضی کی اجازت دے دیں گے تو یہ یورپی معاشرہ بن جائے گا، اسلامی معاشرے میں اگر والدین سے آپ ایک حق لیں گے تو اس کا نتیجہ کیا نکلے گا؟

اے این پی کے سربراہ ایمل ولی خان نے کہا کہ ہم جس بحث میں گھس رہے ہیں، یہ ہم دین میں مداخلت کر رہے ہیں، شادی کے لیے طے شدہ وقت سن بلوغت ہے، آپ وہاں قانون لائیں جہاں گن پوائنٹ پر شادیاں ہو رہی ہیں، ہمیں مغرب کی تقلید نہیں کرنی چاہیے۔ اللہ کا دیا ہوا قانون سب سے بہتر ہے، بچی کے والدین کی مرضی ضروری ہے۔ ہم مسلمان ہیں اور بطور مسلم سوچنا چاہیے۔ نکاح، طلاق وغیرہ کے قوانین بنانا ہمارا اختیار ہی نہیں، ایک آئینی ادارہ اسلامی نظریاتی کونسل موجودہ ہے تو ہم کیوں اس پر قانون سازی کرتے ہیں؟ حضرت عائشہ کی شادی کم عمری میں ہوئی۔ سینیٹر شیری رحمان نے کہا کہ ریاست کا حق ہوتا ہے بلوغت کی عمر کا تعین کرنا۔ آج کل 9، 10سال کی عمر میں بچی بالغ ہو رہی ہے تو کیا ہم اس عمر میں بچیوں کی شادی کر دیں۔

کم عمری شادی روکنے کا بل سینیٹ سے منظور ہونے کے بعد مولانا فضل الرحمن نے کہا ہمیں مجبور نہ کریں کہ سڑکوں پر آئیں۔ مغرب زدہ معاشرے میں یہ سوال بار بار دہرایا جاتا ہے کہ اسلام کم عمری کی شادی کی اجازت دیتا ہے تو یہ معصوم بچیوں کے ساتھ سراسر ظلم ہے۔

یہ کیا ہو رہا ہے یہ کیوں ہو رہا ہے؟
اس سوال کا ایک جواب تو یہ ہے کہ اجازت اور حکم میں بڑا فرق ہے۔ اسلام بلوغت کے بعد شادی کی اجازت دیتا ہے، والدین کی رضامندی کے بعد۔ جسے امریکا میں پیرینٹل کونسینٹ کہتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہر ملک و معاشرے کی روایات ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ کم عمر میں شادی کی اجازت دینی ہی نہیں چاہیے تو آپ تھوڑا سا تاریخ، اور امریکا کے قانون کا مطالعہ کرلیں۔ اسلام سے پہلے رومن ایمپائر میں شادی کے لیے قانونی عمر دس سے چودہ سال تھی۔ چوتھی صدی عیسوی تک چرچ میں قانونی عمر بارہ سال تھی۔ سولہویں صدی کے آغاز میں یورپین ممالک میں یہ عمر تیرہ سے سولہ سال کے درمیان تھی۔ تاریخ میں 1689میں ورجینیا کی ریاست میں دس سالہ بیویوں کے کئی حوالہ جات موجود ہیں۔ نویں صدی عیسوی میں انگلستان میں قانونی عمر آٹھ سے دس سال تھی، اور پندرھویں صدی تک امریکن کالونیوں میں بھی یہی رواج تھا۔ شیکسپیئر کی جولیٹ بھی تو تیرہ سال کی تھی۔

1960 تک ڈیلاوئیر میں سات سال کی عمر کی بچی سے جنسی تعلق جائز تھا، اگر ماں باپ کی مرضی سے شامل ہو۔ سوائے ایک آدھ کو چھوڑ کر آج بھی امریکا کی تمام ریاستوں میں شادی کی قانونی عمر سولہ سال ہے اٹھارہ نہیں۔ میساچوسیٹس کی ریاست میں بارہ سال ہے۔ انڈیانا، ہوائی اور جارجیا میں پندرہ اور پینسلوانیا اور نیویارک میں چودہ سال۔ کیلیفورنیا میں کم از کم عمر کی تو کوئی قید ہی نہیں ہے۔ اگر ماں باپ کی مرضی شامل ہو تو کسی بھی عمر میں شادی جائز ہے۔ کتنی ہی ایسی ریاستیں ہیں جو عمر کی حد میں مزید کمی کر دیتی ہیں اگر لڑکی حاملہ ہو تو۔ پریشانی کا اظہار لڑکیوں کی صحت کے بارے میں کیا جاتا ہے کہ بچیاں کم عمری میں جنسی معاملات کو کیسے نبھائیں گی اور حمل کے مراحل کیسے طے کریں گی۔

جہاں تک جنسی یا حمل کی مشکلات کا سوال ہے تو امریکا میں قریباً نصف کے قریب ہائی اسکول میں پہنچنے والے بچے اور بچیاں ان مراحل سے گزر چکے ہوتے ہیں۔ سال میں کوئی دس لاکھ بچیاں تیرہ سے انیس سال کی عمر میں حاملہ ہو جاتی ہیں، یعنی ہر ایک منٹ میں دو۔ امریکی حکومت سال کا چالیس بلین ڈالر صرف انہی کی دیکھ بھال، بچاؤ، مشورے اور تعلیم پر خرچ کرتی ہے۔ کیونکہ حاملہ ہونے والی ان لڑکیوں سے ہونے والے بچوں کی ماؤں سے ان کے باپ شادیاں نہیں کرتے اور بے یار و مددگار چھوڑ دیتے ہیں۔ ہر دس میں سے آٹھ لڑکے بغیر شادی کے بھاگ جاتے ہیں۔ 89فیصد یہ لڑکیاں اپنی پڑھائی جاری نہیں رکھ پاتیں۔ یہ بچیاں امریکا میں ہونے والی پیدائشوں کا اکیس فیصد ہیں۔ آج بھی امریکا میں اکتالیس فیصد بچے شادی سے پہلے پیدا ہوتے ہیں۔ اندورا، کولمبیا اور پیراگوئے میں آج تک عمر چودہ سال ہے، مالی اور انگولا میں پندرہ سال، میکسیکو، اسکاٹ لینڈ، سیریا لیون، گیمبیا، انگلینڈ اور لائبیریا میں سولہ سال اور ان میں سے کوئی بھی اسلامی ملک نہیں ہے۔ کتنے ہی ڈیوک آف انگلینڈ ہیں جن کی شادیاں سولہ سال کیا چودہ سال یا اس سے بھی کم عمر میں ہوئیں۔

حقائق کے برخلاف ماحول کی وجہ سے پاکستان، انڈیا اور ایسے ہی کئی ممالک میں شادی کی قانونی عمر اٹھارہ سال کر دی گئی ہے۔ ہر معاشرے، ہر ملک، ہر طبقہ، ہر تاریخ، ہر جغرافیہ کے اپنے اپنے اطوار ہوتے ہیں اور ان کی عزت کرنی چاہیے۔ اگر کوئی کسی مفلوک الحال بچی کے ساتھ ظلم کر رہا ہے تو وہ بلاشبہ قابل تعزیر ہے، وہ چاہے پاکستان میں ہو یا امریکا میں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ امریکی ریاست نیو یارک میں حال ہی میں ایک قانون متعارف کروایا گیا جس کے تحت 18سال سے کم عمری کی شادی پر پابندی عائد کی گئی ہے۔ یہ نائلہ قانون کے نام سے اس لیے منسوب کیا گیا کہ اس کے لیے جدوجہد نائلہ نے کی ہے۔ اس وقت بھی امریکا کی کل 50ریاستوں میں سے صرف چھ ریاستیں ایسی ہیں جہاں پر کم عمری کی شادی کو اب تک غیر قانونی قرار دیا گیا ہے۔ باقی کی ریاستوں میں کم عمری کی شادی پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ اس لیے ایسی کیا مجبوری پیش آگئی ہے کہ پاکستان میں ہنگامی بنیادوں پر بغیر کسی سوچ بچار کے شادی کی عمر کی تعیین کا قانون پاس کیا گیا ہے؟ آئینی طور پر ریاست پابند ہے کہ اس طرح کے معاملات کو اسلامی نظریاتی کونسل میں بھیجے۔ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے، یہاں آپ شریعت کے خلاف کوئی قانون نہیں بنا سکتے۔ اگر 15سال کی عمر کے بالغ لڑکی اور لڑکی باہمی اور خاندان کی رضامندی سے شادی کرنا چاہتے ہیں تو ان کو دنیا کا کوئی قانون اس سے نہیں روک سکتا۔ یہ عجیب منطق ہے کہ 18سال سے پہلے شادی پر تو آپ پابندی لگائیں جبکہ اس عمر میں غیر محرموں میں دوستی اور بے محابہ میل جول پر کوئی قدغن نہ ہو؟