اگر بستیوں کے لوگ تقویٰ کی روش اختیار کرتے!

اگر بستیو ں کے لوگ ایمان لاتے اور اگر تقویٰ کی روش اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان و زمین سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے۔ (الاعراف)
یہ وہ دائمی پیشکش ہے جو اللہ تعالیٰ کی جانب سے اہلِ زمین کیلئے فراخ دلی سے کی گئی ہے۔ نعمتیں زمین کی اور نعمتیں آسمان کی۔ آیت مختصر سی ہے لیکن دو باتیں تو صاف ظاہر ہیں۔ اول یہ کہ آسمان و زمین دونوں کے دونوں اللہ تعالیٰ کے خزانوں سے لدے ہوئے ہوئے ہیں۔ وہ محض دیکھنے اور دل بستگی کے سامان نہیں ہیں۔ ان کے اندر وہ تمام ساز و سامان پنہاں ہے جو زندگی کیلئے راحت ہے، عیش کا سبب و بنیاد ہے۔ نہ تو یہ زمین محض سپاٹ ہے اور نہ یہ آسما ن سائبانِ محض ہے۔ اگر زمین کے اندر مسلسل کھدائی کی جاتی رہے تو ہماری آنکھیں یہ دیکھ کر چندھیا جائیں گی کہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے اس کے اندر اس قدر لاتعداد خزانے چھپائے ہیں جو نادر بھی ہیں اور وافر بھی۔ انسانوں کو پالنے کی خاطر پالنے والے نے کیا کیا دولت زمین کے اندر چھپا رکھی ہے، ہمیں کیا معلوم۔ دوم یہ کہ یہ نعمتیں ویسے تو تمام جہان والوں کیلئے مختص ہیں لیکن کبھی ختم نہ ہونے والی ان نعمتوںکی یہ مقدار اللہ تعالیٰ نے ان قوموں و ملکوںکیلئے خاص وقف کی ہے جو مسلم ہیں۔ وہ چاہتا ہے کہ پھر یہاں بغاوت و سرکشی نہ ہو اور ہر معاملے میں لوگ اللہ کی منشا ہی کو سامنے رکھیں۔

غور کرنے کی بات ہے کہ اوپر آسمان کے خزانوں کی جو بات کی گئی ہے تو جاننا چاہیے کہ ان خزانوں سے آخر رب تعالیٰ کی کیا مراد ہے؟ کیا محض وہی بارشیں جن کے بارے میں رب ذوالجلال نے کئی مقامات پر فرمایا کہ وہ تم پر آسمان سے بارشیں برسائے گا۔ تمہارے لئے ندی نالے سیراب کرے گا اور تمہیں ایک خاص مدت تک زمین میں باقی رکھے گا۔ ہاں یہی بارشیں مگر زمین کے باسیوں کیلئے جو لامحدود پوشیدہ و ظاہری خزانے ساتھ لے کر اترتی ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ پانی کو ایک خاص مقدار سے زمین پر وقتاً فوقتاً نازل کرتا رہے اور دھواں دار بارشیں ملک و قوم کا مقدر بن جائیں، تو زمین ان نعمتوںسے کس قدر فیضیاب نہ ہو سکے گی۔ عمدہ فصلیں لہلہائیں گی، نت نئے اقسام کے پھل، غلے اور سبزیاں ہمہ وقت دستیاب ہوں گی، پینے کے شیریں پانی کی فراوانی ہوگی، زیرِ زمین پانی کا ذخیرہ بڑھتا جائے گا، ملک پھلے گا پھولے گا، اقتصادیات فروغ پائے گی، ہر نوع کی فصلیں لہلہائیںگی اور ہزاروں کی تعداد میں چشمے ٹھاٹھیں مار رہے ہوں گے کہ انسان و حیوانات کیلئے اصل سامانِ زیست یہی تو پانی اور غذا ہیں۔

آسمان سے برسنے والا پانی نہ ملے، یا کم کم ملے، جیسا کہ کبھی کبھی ہوتا ہے، تو انسانوں کے ساتھ جانوروں کیلئے بھی وہ زندگی وموت کا سامان بن جاتا ہے۔ یہ جانور نہیں ہمارے خدمت گزار ہیں۔ زندگی بھر کے ساتھی۔ گائیں، بھینس، بکریاں، بھیڑیں، گدھے، اونٹ وغیرہ جن میں سے ہم کئی سے بار برداری کا کام لیتے ہیں اور کئی سے دودھ اور گوشت کی ضروریات پوری کرتے ہیں۔ ان کیلئے چارہ، دیگر خوراک اور خود پانی بھی کس قدر لازمی حیثیت رکھتے ہیں۔ بے زبان جانور ہمارے لئے مشقتیں اٹھاتے، محنتیں کرتے اور زندگی کو آسان سے آسان تر کرتے ہیں۔ درندے شیر، ہاتھی، بھیڑیے وغیرہ بھی انسانی زندگی کا حسن مانے جاتے ہیں مگر پانی تو سب ہی کیلئے لازمی عنصر ہے۔ پانی نہ ہو تو فصلیں نہ ہوں، پانی نہ ہو تو باغات نہ ہوں اور پانی نہ ہو تو شیریں پانی مفقود ہو۔ پھر زندگی سسک کر مرنے لگے، بکھرنے لگے۔ دوسری طرف زمین ہے جو یہاں سے وہاں تک پھیلی ہوئی لامحدود و لاانتہا ہے۔ پروردگارِ عالم نے اس کے اندر بھی آسائش کی خاطر غلوں و فصلوں کے علاوہ ان گنت اقسام کی معدنیات اور قیمتی پتھر بھی مدفون رکھے ہیں۔ صحیح معنوں میں اگر انہیں بھی برآمد کر لیا جائے تو ملک و قوم کی قسمت بدلنے میں وہ کس قدر اہم کردار نہ ادا کریں گے۔ قرآن نے کئی مقامات پر انہیں زمین کے اندر کا بوجھ (اثقالھا) کہا ہے۔ وہ بوجھ ہیں لیکن ایسے جنہیں پانے کی تمنا ہر ملک رکھتا ہے اور جنہیں پاکر زندگی سجنا اور سنورنا شروع کر دیتی ہے۔

اور پھر وہ سمندر جو زمین کے سینے پر ٹھاٹیں مارتا پھیلتا ہوا چلا جاتا ہے اور جس کی سرحدیں کہیں ختم ہوتی بھی دکھائی نہیں دیتیں، زمین کے باسیوں کیلئے رحمت و افتخار میں وہ سمندر بھی لاانتہا اضافہ کرتا ہے۔ اسی کے بل بوتے پر انسان ساری دنیا کو کھنگالتا ہے، بھاری بھاری مشینیں ادھر سے ا دھر منتقل کرتا ہے، اسلحے اور جنگی جہاز ایک ملک سے دوسرے ملک تک پہنچاتا ہے، ان گنت آبی جانوروں سے اپنے لئے عمدہ غذا حاصل کرتا ہے، اندر پاتال میں جاکر اللہ تعالیٰ کے انمول خزانے دریافت کرتا ہے جہاں سیپ ہیں، موتی ہیں اور تیل کے قیمتی ذخائر ہیں۔ وہ خزانے جن سے کسی بھی ملک کی گری ہوئی معیشت آسمانوں تک پہنچائی جا سکتی ہے۔ سو انسان اگر اللہ تعالیٰ کے بندے بن کر رہیں، نیکیوں کو فروغ دیں، برائیوں کو دبائیں اور زمین کو جنت میں تبدیل کریں، تو ان کے پیروں تلے کی یہ زمین اور ان کے سروں پر چھایا ہوا یہ آسمان ان کے لئے سربلندی کا سبب بن جائیں۔

زمین اپنا سارا بوجھ ہر آن نکالتی رہے اور آسمان ہمہ وقت اپنی رحمتیں انڈیلتا رہے۔ ریاستوں کے پاکباز حکمران حیران ہوہو کر سوال کرتے رہیں کہ یہ سارے خزانے الٰہی، یہ قیمتی پتھر، یہ لامحدود کوئلہ، تانبے کی یہ ان گنت مقدار، تیل کی یہ بہتی ہوئی دھار، چمکتے دمکتے یہ سونا چاندی اور ابلتی رہنے والی یہ لامحدود گیس تو نے ہمارے لئے کیوں اور کہاںسے فراہم کئے ہیں؟ نتیجہ یہ ہوگا کہ ایک طرف آسمان اپنا میٹھا، صحت بخش اور ٹھنڈا پانی ندی نالوں، چشموں کی صورت میں زمین پر لنڈھا رہا ہوگا اور دوسری طرف زمین ہر آن کوئی نہ کوئی مدفون قیمتی خزانہ باہر نکال کر پھینک رہی ہوگی۔ کیسے بھول جاتے ہیں ہم کہ مدینے کی خالص اسلامی ریاست کے قیام کے بعد جبکہ اس کی تمام آبادی مدت دراز تک متقی وپرہیزگار رہی تو صحرا و ریگستان کے اس وسیع علاقے میں پروردگار نے صحابہ کرام کو اسی زمین وآسمان سے اس قدر خزانے فراہم کیے کہ وہ کبھی کبھی فی الحقیقت یہ خدشہ محسوس کیا کرتے تھے کہ جنت کی تمام نعمتیں اللہ تعالیٰ نے کہیں انہیں یہیں اسی دنیا میں تو نہیںدے دی ہیں؟

یہی وہ حقیقت ہے جسے رب ذوالجلال نے قرآن پاک میں اس انداز سے بیان کیا ہے کہ اگر بستیوں کے لوگ ایمان لاتے اور اگر وہ تقویٰ کی روش اختیار کرتے، تو ہم ان پر آسمان و زمین سے خزانے انڈیل دیتے۔ ہاں مگر اس کی خاطر شرط یہی رکھی کہ اس کے بندے تقوی کی روش اختیار کرتے رہیں اور اللہ وحدہ لاشریک کی نعمتوں کا شکر ادا کرتے رہیں۔ کتنے ہی ممالک ہیں جہاں معدنیات نام کی کوئی شے نہیں ہوتی؟ کتنی ہی ریاستیں ہیں جہاں بارشیں بس تبرک ہی کا دوسرا نام ہیں اور کتنے ہی ممالک ہیں جو سمندر کی نعمتوں سے یکسر محروم ہیں۔ خشک سالی سارے سال ان کا مقدر بنی رہتی ہے اور نتیجے میں وہ کبھی ایک ملک اور کبھی دوسرے ملک کے غلام بنے رہتے ہیں۔ پاکستان کی زمین بھی اپنے خزانے لئے پاکباز حکمرانوںکی منتظر ہے۔ پکار رہی ہے کہ ہے کوئی نیک نفس حاکم جو اللہ تبارک و تعالیٰ کے اس ملک میں اس کی فرماں روائی کا سکہ جاری کرے۔ ہے کوئی اللہ کا نیک بندہ جو مملکت کو اصل معنوں میں شریعت میں ڈھال دے۔ اللہ تبارک تعالیٰ صاف اعلان کرتا ہے کہ ایفائے عہد اس کیلئے کوئی مشکل امر نہیں ہے۔ سو اے لوگو، اے حکمرانو! اسی اللہ کے نام کے گن گائو، اسی پروردگار کے فرمان پر چلو اور اسی کی شریعت کو مملکت کا قانون قرار دو۔ پھر دیکھو آسمان و زمین سے تم پر نعمتوں کی کیسی بارش برستی ہے اور کیسے اللہ تمہیں دنیا کے تمام طاقتور ممالک سے بے نیاز کرتا ہے؟