مسلم امہ کی دفاعی کمزوری اور نئی صف بندیوں کی ضرورت

سرزمین انبیاء میں فلسطینی بچوں کی مقتل گاہ ”غزہ” محض زمین کا ایک ٹکڑا نہیں رہا بلکہ یہ اقوامِ عالم کے ضمیر کے لیے ایک کسوٹی کا درجہ اختیار کر چکا ہے۔ دنیا کھلی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے کہ دہشت گردی کیسی ہوتی ہے؟ اسرائیلی جارحیت نے اسپتالوں، کیمپوں اور پناہ گاہوں تک کو نہیں بخشا۔ حالیہ دو سے تین دنوں کی بمباری میں پانچ سو سے زائد معصوم فلسطینی شہید اور سینکڑوں زخمی ہو چکے ہیں۔ یہ بات مان لینی چاہیے کہ دنیا میں ”انسانی حقوق” نام کی کوئی شے اگر وجود رکھتی ہے تو اس کا اطلاق صرف مغرب میں ہی کیا جا سکتا ہے۔ حریت پسند اور اپنے اجتماعی تشخص پر یقین رکھنے والے مسلمانوں کے لیے اس لفظ کا استعمال عملی طورپر ممنوع ہے۔ انتہا یہ ہے کہ مسلم امہ بھی ان وحشت ناک مظالم کو دیکھ کر چپ سادھے بیٹھی ہے اور جو لوگ کچھ کر سکتے ہیں، وہ مغرب کے سر گروہ ”امریکا” کو ”مالی خراج” پیش کر کے خوشیاں منا رہے ہیں۔

مغرب سے کچھ آوازیں ضرور بلند ہو رہی ہیں، مثال کے طورپر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے بھی اسرائیلی محاصرہ کو ”ظالمانہ اور غیر انسانی” کہا اور بتایا کہ غزہ میں فاقہ کشی کی پالیسی بین الاقوامی قانون کا مذاق اڑاتی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا کسی ”بین الاقوامی قانون” کا حقیقی وجود بھی ہے؟ یا یہ صرف کمزور اقوام کو دبانے کے لیے ایک خوش نما عنوان ہی ہے؟؟ اسی طرح عالمی ضمیر نامی کسی شے کا کوئی وجود نہیں، کیا عالمی ضمیر وہی ہے جو مغرب میں عرب سرمایہ کاری کو تو خوش آمدید کہتا ہے، لیکن فلسطینیوں کو مسلسل بھوک سے مرتے دیکھ کر بھی اس کے سکون میں کوئی تغیر واقع نہیں ہوتا۔

مسلم امہ کے حکمران طبقے کو یاد رکھنا چاہیے کہ قرآن حکیم نے واضح طورپر فرمایا ہے کہ ”وَِنِ اسْتَنصَرُوکُمْ فِی الدِّینِ فَعَلَیْکُمُ النَّصْرُ” یعنی اگر وہ دین کے معاملے میں تم سے مدد مانگیں تو تم پر مدد کرنا لازم ہے، لیکن اس حکم پر عمل کی بجائے اکثر عرب حکمران غزہ کے معاملے پر سکوت اختیار کر چکے ہیں جبکہ ان کا اسرائیل کے ساتھ کوئی قرار واقعی معاہدہ بھی نہیں ہے۔ اطلاعات کے مطابق غزہ سے دس لاکھ فلسطینیوں کو لیبیا منتقل کرنے کا منصوبہ بنا لیا گیا ہے جس کا امریکی صدر ٹرمپ نے لیبیا کے منجمد اثاثوں کی بحالی کے بدلے وعدہ کیا ہے۔ یعنی امریکی صدر ٹرمپ غزہ کو خالی کروا کر اسے اسرائیل یا امریکا کے لیے ایک معاشی کالونی میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق یہ نوآبادیاتی ذہنیت کا کھلا اعلان ہے اور امریکی منصوبہ ساز اپنی تاریخ کے عین مطابق اس منصوبے کی تکمیل کے لیے فلسطینیوں کو فاقہ کشی، خوف اور بمباری سے توڑنے کی کوشش کر رہے ہیں جبکہ کچھ اہم عرب حکمران اس سارے عمل میں خاموش تماشائی نہیں بلکہ دانستہ یا نادانستہ معاون بنے بیٹھے ہیں۔

غور طلب امر یہ ہے کہ عرب ریاستیں ایک طرف امریکا کو اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری فراہم کر رہی ہیں تو دوسری طرف اپنے دفاعی اتحاد کی ضرورت کو مسلسل نظرانداز کر رہی ہیں۔ اگر یہی سرمایہ ایک متفقہ اسلامی دفاعی بلاک کی تشکیل میں استعمال ہوتا، مسلمانوں کو حربی، تعلیم، ٹیکنالوجی، مشترکہ دفاعی مقاصد اور باہمی تجارت و اقتصادی تعاون کے لیے تیار کیا جاتا تو آج اسرائیل جیسا چھوٹا سا ملک عالمی امن کو یرغمال نہ بنا سکتا۔ یہ محض ایک خیالی تصور نہیں بلکہ بحیثیتِ مسلمان ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ”تمام مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں، جب جسم کے ایک حصے کو تکلیف ہوتی ہے تو پورا جسم بے چین ہو جاتا ہے۔” (بخاری، مفہوماً) لیکن آج امت محمدیہ علی صاحبھا الصلوٰة والتسلیم کا ایک حصہ کچلا جا رہا ہے جبکہ باقی جسم پر سکوت طاری ہے بلکہ وہ قاتلوں کے ساتھ شراکت داری میں مصروف ہے۔ اس بے حسی کو کیا عنوان دیا جائے؟ کیا یہ طبقہ امت کا حصہ نہیں ہے؟ علاوہ ازیں اربوں ڈالر نچھاور کرنے کے بعد عرب ریاستوں نے مغربی اقوام کے نزدیک کچھ ”عزت” حاصل کر لی ہے؟ مغربی میڈیا تو عرب سرمایہ کاری کو ”مالی حماقت” کا عنوان دے کر استہزا کر رہا ہے۔ فلسطین کے معصوم بچوں کی لاشوں کے ساتھ ساتھ میڈیا میں عربوں کے تمسخر پر مشتمل تجزیے اور مضحک تصاویر دراصل ہماری دفاعی کمزوری کا مذاق اڑا رہی ہیں۔ قرآن کریم دوٹوک الفاظ میں ہمیں بتا چکا ہے کہ مشرکین اور یہود اہلِ ایمان کے ساتھ شدید ترین بغض و عداوت رکھتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہم ان کی دشمنی، عداوت اور انتقام سے بچنے کے لیے کیا اقدامات کر رہے ہیں؟ مشرکوں اور یہودیوں کی دشمنی اور عداوت کے مناظر جہاں غزہ میں واضح ہیں وہاں حالیہ پاک، بھارت جنگ کے دوران بھی ان دونوں کا اتحاد سامنے آ چکا ہے۔

یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ بھارت زیرِ زمین منصوبوں کے ذریعے بلوچستان کو میدان جنگ بنانے پر تُلا ہوا ہے۔ متعدد عالمی تجزیہ نگار اور دفاعی مبصرین حقائق و شواہد کی روشنی میں بیان کر رہے ہیں کہ بھارت بلوچستان میں اپنی پراکسیز کے ذریعے سی پیک کو سبوتاژ کرنا چاہتا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق جعفر ایکسپریس کی ہائی جیکنگ ہو یا حالیہ جنگ کے دوران بی ایل ایف کی کارروائیاں ہوں، ان کا ایران کے علاقے زَرنَج سے گہرا تعلق پایا گیا ہے۔ یعنی بھارتی پراکسی وار کو ایران کی لاجسٹک چین سے جوڑنا محض مفروضہ نہیں بلکہ ثبوتوں پر مبنی حقیقت ہے۔ دوسری طرف افغان سرزمین بھی پاکستان کے خلاف مسلسل استعمال ہو رہی ہے لیکن مبصرین کے مطابق چین اب افغانستان کو عقل سے کام لینے پر مجبورکرنا چاہتا ہے جس کے لیے بیجنگ میں ہونے والی حالیہ ”ٹرائیکا بیٹھک” میں چینی وزیر خارجہ وانگ ای افغانستان کو سخت پیغام دے سکتے ہیں۔ یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ چین اب صرف ایک تماشائی نہیں بلکہ علاقائی ”گارنٹر” کی حیثیت سے میدان میں آ چکا ہے۔ پاک بھارت جنگ میں پاکستان کے ساتھ تعاون اس کی دلیل ہے۔ ان حالات میں پاکستان، افغانستان اور چین کے لیے باہمی اعتماد اور بھارتی ساختہ دہشت گردی کے خلاف مربوط حکمت عملی کو اختیار کرنا ضروری ہے کیوں کہ ا سرائیل بھارت کے ساتھ مل کر یہاں بھی فتنۂ و فساد پھیلاتا ہی رہے گا۔

جنوبی ایشیا میں اسرائیل اور بھارت کی شرارتوں کو دیکھتے ہوئے اب وقت ہے کہ مسلم امہ انفرادی تحفظات اور داخلی اختلافات کو ترک کر کے مشترکہ لائحہ عمل بنائے۔ دفاع، معیشت، سفار ت کاری اور تعلیم کے شعبوں میں مربوط اتحاد اور حکمت عملی اس ذلت سے نجات دلانے کے لیے ضروری ہو چکی ہے جوکہ عرب ریاستیں امریکا کو خراج اور تاوان ادا کر کے کما رہی ہیں۔ قرآن کریم کا یہ فرمان ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ”اللہ تعالیٰ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت نہ بدلے” (الرعد: 11) غزہ، بلوچستان، یمن، شام، لیبیا یہ تمام مقامات ہمیں دفاعی خود انحصاری کی جانب متوجہ کررہے ہیں۔ عرب ریاستوں کے حالات امت مسلمہ کی اجتماعی کمزوری کا عکس بن چکے ہیں۔ اگر آج بھی ہم نے سبق نہ سیکھا تو کل شاید ہمیں تاریخ میں بطور زندہ قوم یاد نہ رکھا جائے۔