نیا پاکستان: ایسی چنگاری بھی یارب اپنے خاکستر میں تھی

جنوبی ایشیا کی صف بندی الٹ گئی۔ اب ایک نیا جنوبی ایشیا اور ایک نیا پاکستان ہے۔ چند گھنٹوں میں اللہ نے ایسا کرم کیاکہ ساری عمر اس کا شکر ادا کرتے گزر جائے تو کم ہے، ”فبای الاء ربکما تکذبان” تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے۔ پاکستان کی افواج نے جس طرح دشمن پر وار کیا، اس نے جنگوں کے مروجہ نصاب بدل ڈالے۔ وار کورسز میں اب پاکستان کا جوابی نصاب بھی پڑھایاجائے گا۔

پلوامہ کے قضیے میں بھارت نے جارحیت کی اور ابھی نندن کو چائے پلا کر رخصت کیا گیا تو مودی نے کہا : اس جنگ میں دیش نے رافیل کی کمی محسوس کی۔۔۔ اب مودی کے پاس رافیل بھی تھے مگروہ انہیں شکار ہوتا بے بسی سے دیکھتا ہی رہ گیا۔ بھارت کی بڑی قوت کا تاثر چند گھنٹوں میں تحلیل اورآئی ٹی کی دنیا میں بھارتی ترقی کے فسانے بھی پٹ گئے، کئی گھنٹے اس کا سارا نظام جام کر کے اسے مارا گیا۔ پاکستان کی سفارتی تنہائی کے چرچے بھی وقت آنے پر ہوا میں تحلیل ہوگئے۔ چین، ترکیہ، آذر بائیجان نے کھل کر پاکستان کا ساتھ دیا۔ ہندو فاشزم کے ساتھ صرف صہیونی ریاست ہی کھڑی نظر آئی۔ پاکستان کی کامیاب سفارت کاری نے دنیا کو قائل کیا کہ بھارت جارح اور غاصب ریاست ہے۔ امریکا کا اول اول اعلان تھا کہ ہم لاتعلق ہیں، پاکستان حساب برابر کرنا چاہتا ہے تو شوق سے کرلے۔ پہلی بارامریکا خواہش کے باوجود بھارت کی ہمنوائی نہ کرسکا۔ امریکا سے سیز فائر کی درخواست کرنے کے بعد یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ انڈیا نے ایسی کوئی ریکویسٹ نہیں کی۔ راحت اندوری نے سچ ہی کہا تھا
کچھ اور کام تو شاید اسے آتا ہی نہیں
مگر وہ جھوٹ بہت شاندار بولتا ہے
بھارت کی حالت یہ تھی کہ:
اب رفوگر بھی کہاں تک کرے محنت مجھ پر
زخم اک سلتا نہیں، دوسرا لگ جاتا ہے

بھارتی میڈیا کو بھارت کے مختلف علاقوں میں (صرف فوجی تنصیبات پر) حملوں کی صداقت تسلیم کرتے ہی بنی۔ بھارتی حکمرانوں کو غلط پالیسیوں اور پاکستان کو کمزور سمجھنے کی بے وقوفی کا احساس کسی پل چین نہیں لینے دیتا ہوگا۔
اشکوں سے ہیں نظیر کی آنکھیں بھری ہوئی
پھرتا ہے کشتیوں میں سمندر لیے ہوئے
پاکستان نے تسلسل کے ساتھ سفارتی محاذ پر بھارت کا تعاقب جاری رکھا تو اس کے نتائج بھی غیر معمولی ہوں گے۔ پاکستان کے اندر کچھ عناصر طنز یہ کہہ رہے تھے کہ پاکستانی جہاز بھارت کا رخ بھی کر سکتے ہیں؟ اب وہاں صف ماتم بچھی ہوئی ہے کہ پاکستانی جہازوں نے بھارت کا رخ ہی نہیں کیا بلکہ اندر تک گھس کر مارابھی۔ پاکستانیوں کو یہ باور کرایا جاتا تھا کہ بھارت بڑی عسکری قوت ہے جس کاہم مقابلہ نہیں کر سکتے۔ مرعوبیت کا یہ بیانیہ بھی دم توڑ چکا۔ سرحد پار سے جو سفارتی اور صحافتی تعفن اگلا گیا۔ اب اس کی سڑاند ان کے منہ کو آرہی ہے۔ دنیا کا یہ شک بھی دور ہواکہ بھارت جمہوری ملک ہے اسے معلوم ہوگیا کہ بھارت ایک ایسی فاشسٹ اور نسل پرست ریاست ہے جس کے ہاں مختلف مذاہب کے پیروکاروں کے درمیان پر امن بقائے باہمی کا کوئی تصور نہیں۔

اس دوران بہت سے پاکستانی شہریت والے سیاسی، ابلاغی اورفکری عناصر اور مفرور یوٹیوبرز جو بھارت کی زبان بول رہے تھے، بے نقاب ہوئے، یہ فکری گرہ بھی لگائی گئی کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ جہاد نہیں۔ یہ افواج پاکستان کے ایمان تقوی جہاد فی سبیل اللہ کے نعرے کی نفی تھی۔ سول سوسائٹی کے نام پر گلوبل دھندے کی حقیقت بھی سامنے آئی اور لوگوں نے سوال اٹھایا کہ امن کی بات جارح ملک بھارت کی مذمت کے بغیر کیسے ہو سکتی ہے؟
پاکستان کے خلاف خبث باطن جہاں جہاں تھا عیاں ہوا۔ اور قوم نے نمک حرامی کرنے والوں کا اصل چہرہ دیکھ لیا۔ پاکستان اب جنوبی ایشیا میں ایک مسلمہ قوت ہے۔ ایک ایسی قوت جسے دنیا اور عالم اسلام حیرت سے دیکھ رہی ہے کہ:
ایسی چنگاری بھی یارب اپنے خاکستر میں تھی

اس جنگ میں پاکستان اور بھارت نے کیا کھویا اور کیا پایا اس کا مختصر جائزہ یہ ہے۔
٭پاکستانی شاہینوں نے بھارتی طیاروں کا پرندوں کی طرح شکار کیا اور ان کی ایئر بیسز کو راکھ کا ڈھیر بنا دیا۔ ٭بھارت سپر پاور کے سامنے سیز فائر کیلئے گھٹنے ٹیکنے اور جنگ بندی پر مجبور ہوا۔
٭بھارت نے اندرونی سیاست اور ذاتی مفادات کے لیے افرادی اور حربی نقصانات اٹھائے جس سے اس کو سنبھلنے میں شاید برسوں لگ جائیں۔
٭بھارت کی جعلی خبروں اور جھوٹے بیانیے کی وجہ سے پوری دنیا میں سبکی ہوئی۔ ٭بھارت کو بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کی سرپرستی کرنے والی ریاست کے طور پر ٹیگ کیا گیا۔ ٭مسئلہ کشمیر کوایک بار پھر تقویت ملی۔

٭پاکستان نے کسی فضائی اثاثے کے نقصان کے بغیر بھارت کی وہ تباہی کی کہ 1965ء کی جنگ میں ایم ایم عالم’ سیسل چودھری اور سرفراز رفیقی کی یاد تازہ ہو گئی۔
٭پاکستان میں سیاسی تقسیم ختم ہوئی اور اندرونی اتحاد مضبوط ہوا۔ ٭پاکستان کا حقائق پر مبنی بیانیہ عالمی سطح پر کھلے دل سے تسلیم کیا گیا۔ ٭پاکستان بہادر ممالک میں سر فہرست آ گیا، جو کھل کر اپنے دشمن کا مقابلہ کر سکتا ہے۔
٭پاکستان سفارتی محاذ پر بھی مضبوط ہوا۔ ٭پاکستان پر عالمی اداروں اور دوست ممالک کے اعتماد میں اضافہ ہوا۔ ٭پاکستان کی فوجی صلاحیت پر پوری قوم کا اعتماد بڑھا ٭دنیا کے سامنے افوا جِ پاکستان کا نظام ایک طاقتور سسٹم کے طور پر اجاگر ہوا۔ ٭پاکستان ایئر فورس کو دنیا نے ‘کنگ آف سکائیز’ مان لیا۔
اگر امکانات کا جہان آباد ہو رہا ہے، تو چیلنجز بھی غیر معمولی ہوں گے۔ جن کا مقابلہ کیے بغیر آگے بڑھنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہوگا۔