غزہ میں بدترین قتل عام اور عرب حکمرانوں کی لاتعلقی

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سعودی عرب، قطر اور عرب امارات کا چار روزہ دورہ مکمل کرکے عرب حکمرانوں سے امریکامیں کھربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کے معاہدے اور وعدے سمیٹ کر شاداں و فرحاں وطن واپس پہنچ گئے ہیں اور وہ اپنی قوم کو بتارہے ہیں کہ کس طرح عرب ممالک کے حکمرانوں نے ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر اپنی تجوریاں امریکی معیشت کو سہارا دینے کے لیے کھول دیں اور کس طرح ان کا ان کی توقعات سے بھی بڑھ کر سواگت کیا ہے جبکہ دوسری جانب امریکی صدر کے دورے کے دوران امریکی لے پالک اسرائیل نے غزہ میں فلسطینی مسلمانوں کا قتل عام تیز کردیا ہے اور تازہ اطلاعات کے مطابق اسرائیلی فوج نے اب غزہ کو مکمل طور پر ملیامیٹ کرنے اور وہاں کے تیس لاکھ کے قریب باشندوں کو رفح کے ایک کونے کی طرف دھکیلنے کے” عربات جدعون” منصوبے پر کام شروع کردیا ہے جہاں سے انہیں ٹرمپ کے منصوبے کے تحت کسی دوسرے ملک میں بھیجے جانے کا پروگرام ہے۔

اطلاعات کے مطابق امریکی میڈیا نے اعلیٰ امریکی عہدیداروں کے حوالے سے رپورٹ دی ہے کہ امریکا نے لیبیا کی حکومت سے 10لاکھ فلسطینیوں کو اپنی سرزمین میں جگہ دینے کے لیے بات کی ہے جس کے بدلے میں لیبیا کے وہ اربوں ڈالرز کے اثاثے بحال کئے جائیں گے جو امریکا نے لیبیا کے بحران کے دوران غیر قانونی طور پر منجمد کیے تھے۔ علاوہ ازیں یہ بھی بتایا جارہا ہے کہ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو ان دنوں اردن کے بادشاہ عبد اللہ سے بھی مستقل رابطے میں ہیں اور بتایا جا رہا ہے کہ اردن پر بھی مزید لاکھوں فلسطینیوں کو اپنے ملک میں بسانے کے لیے دباؤ ڈالا جارہا ہے۔ اپنے تازہ انٹرویو میں خودامریکی صدر ٹرمپ نے ایک بار پھر فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے بے دخل کرنے کے اپنے منصوبے کا تذکرہ کرتے ہوئے دعوی کیا ہے کہ تینوں عرب ممالک جن کا وہ دورہ کرکے آئے ہیں،غزہ سے متعلق ان کے منصوبے کے حق میں ہیں۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورہ خلیج کے آغاز پر توقع ظاہر کی جارہی تھی کہ عرب ممالک اس دورے کے موقع پر کم از کم غزہ میں جنگ رکوانے اور مذاکرات کو آگے بڑھانے کے لیے امریکی صدر سے بات کریں گے اور عرب دنیا سے امریکی صدر کے” تعلقات ”کا فائدہ فلسطینی مسلمانوں پر اٹھارہ ماہ سے جاری صہیونی دہشت گردی کے عارضی طور پر ہی سہی، رک جانے کی صورت میں سامنے آئے گا مگر اسے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔ عرب ممالک کے حکمرانوں نے اس موقع پر انتہائی بے حسی اور غزہ کے اپنے عرب مسلمان بھائیوں سے لاتعلقی کا ثبوت دے کر امت مسلمہ کو شدید مایوس کیا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اس وقت دنیا کے ڈیڑھ ارب مسلمان سخت ذہنی اذیت اور تکلیف میں مبتلا ہیں۔ غزہ میں امت کے بچوں، ماؤں اور بہنوں کو ایک جانب قصداً اور جبراًمسلط کردہ بھوک سے مارا جارہا ہے، معصوم بچوں کے بھوک سے بلکنے کی ویڈیوز ہر باشعور انسان کا دل چیر دینے کے لیے کافی ہیں تو دوسری جانب آسمان سے ان پر مہلک ترین بموں کی بمباری بھی کسی توقف کے بغیر جاری ہے۔ اسرائیل اب غزہ کے ہسپتالوں پر 2000پونڈ وزنی وہ بم بھی گرانے لگا ہے جو امریکی صدر ٹرمپ نے اقتدار سنبھالنے کے فوراًبعد اسرائیل کو تحفے میں بھیجے تھے۔ 60ہزار سے زائد فلسطینیوں کا خون پینے کے بعد بھی صہیونی بھیڑیے نیتن یاہو کی خون آشامی کی تسکین نہیں ہورہی اور اب وہ غزہ کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے اپنے شیطانی ایجنڈے پر ٹرمپ انتظامیہ کی مکمل پشت پناہی سے عمل پیرا ہے۔

ایسے حالات میں اسلامی دنیا بالخصوص عرب ممالک کی بے حسی اور بے حمیتی امت مسلمہ کو خون کے آنسو رلا رہی ہے۔ ان عیاش وبے حمیت حکمرانوں سے تو فرانس کا صدر ایمانول میکرون بھی بہتر نکلا جو غزہ میں صہیونی دہشت گردی کے خلاف کم از کم آواز تو اٹھا رہا ہے۔ ستاون اسلامی اور بائیس عرب ممالک سے اسپین کی حکومت سو دفعہ غیرت مند نکلی جس نے فلسطین میں انسانیت کے خلاف جرائم کے ارتکاب پر اسرائیل سے ہر قسم کے تجارتی تعلقات معطل کرنے کا اعلان کیا ہے۔ حقیقت بہت تلخ ہے لیکن سچائی اس کے سوا نہیں کہ عرب حکمرانوں نے اسلامی اخوت اور عرب حمیت کا جنازہ نکال دیا ہے۔ انہیں شاید اس امر کا ادراک نہیں ہے کہ ٹرمپ نامی شخص کمینگی،اسلام دشمنی ،نسل پرستی کی جس سطح پر پایا جاتا ہے ،وہاں ان (عرب حکمرانوں) کی فدویت، خوشامد اور چاپلوسی اس کی نخوت میں مزید اضافے کا ہی باعث بنے گی اور وہ وقت دور نہیں جب مطلب نکل جانے کے بعد ٹرمپ سرکار کی جانب سے ان کی تذلیل، تضحیک و تمسخر سے بھی گریز نہیں کیاجائے گا۔

یہ کتنی بڑی ستم ظریفی ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے دورہ خلیج سے پہلے عرب ممالک کے ذریعے حماس سے مذاکرات کرکے اپنے قیدی کو اس یقین دہانی پر رہا کروا لیا کہ اس کے بدلے میں غزہ میں جنگ بندی کی راہ ہموار کی جائے گی یا کم از کم غزہ میں امدادی سامان کی رسائی یقینی بنائی جائے گی۔ لیکن مطلب نکالنے کے بعدوہ وعدے ہوا میں اڑا دیے گئے اور اب وہ سینہ تان کر اپنے میڈیا کو بتارہے ہیں کہ انہوں نے امریکی قیدی کو عرب ممالک کے ذریعے غیر مشروط طور پر رہا کرا لیا ہے۔ یہ سیدھا سیدھا مذاق ہے جو ٹرمپ سرکار نے عرب حکمرانوں کے ذریعے فلسطینیوں کے ساتھ کیا ہے۔ ان عرب ممالک کو کچھ تو شرم اور غیرت کا احساس کرنا چاہیے اور اب امریکا سے مطالبہ کرنا چاہیے کہ غزہ میں جنگ رکوائی جائے یا کم سے کم غزہ والوں کے لیے امداد کی فراہمی کی کوئی سبیل نکالی جائے جو دو ماہ سے شدید محاصرے کا شکار ہیں۔ واضح رہے کہ جنیوا کنونشن اور تمام بین الاقوامی قوانین کے مطابق جنگ کے دوران بھی کسی آبادی کا محاصرہ کرنے، بنیادی انسانی ضروریات کی فراہمی روکنے، اجتماعی سزا دینے کی اجازت نہیں ہے اور ایسا کرنے والا جنگی مجرم تصور کیا جاتا ہے۔ اسرائیل ایک دہشت گرد ریاست ہے جس کے جنگی جرائم بین الاقوامی عدالت انصاف میں ثابت ہوچکے ہیں، صہیونی بھیڑیا اور انسان نما جانور نیتن یاہو اپنی بہیمیت کی جوابدہی کے لیے دنیا کے ایک سو بیس ممالک کی پولیس کو مطلوب ہے۔ لیکن چونکہ وہ امریکاکا لے پالک ہے، اس لیے اسے کوئی پوچھنے والا نہیں۔ امریکا کو اس امر کا ادراک ہونا چاہیے کہ غزہ میں انسانیت کے خلاف اسرائیلی جرائم ایک نہ ایک دن امریکا کے گلے پڑ جائیں گے اور کبھی تو وہ لمحہ آئے گا جب امریکی قوم اپنے حکمرانوں کی انسانیت سوز پالیسیوں پر شرمسار ہوگی۔