دفاعی خود انحصاری کی ناگزیر ضرورت

وزیر اعظم میاں محمد شہباز شریف نے بری فوج کے سپہ سالار جنرل سید عاصم منیر اور فضائی فوج کے سربراہ ایئر مارشل بابر ظہیر سدھو کے ہمراہ پسرور، سیال کوٹ بارڈر پر جہاں افواج پاکستان نے دشمن کے دانت کھٹے کیے ہیں، جوانوں سے خطاب کرتے ہوئے واضح کیا کہ پاکستان اپنے دفاعی تقاضوں سے سرِمو انحراف نہیں کرے گا۔
انھوں نے بھارتی وزیر اعظم کو للکارتے ہوئے کہا کہ پانی اور خون واقعی ایک ساتھ نہیں بہہ سکتے، اس لیے بھارت پاکستان کے پانیوں کی جانب نگاہِ غلط ڈالنے کی حماقت سے بھی نہ کرے۔ اس موقع پر نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار، وزیرِ دفاع خواجہ آصف، وزیر اطلاعات عطا تارڑ اور کور کمانڈر عمران شاہ بھی وزیر اعظم کے ہمراہ تھے۔ سیاسی و عسکری قیادت نے مشترکہ طورپر پاک فوج کے ٹینک پر کھڑے ہوکر فوجی دستوں سے جو گفتگو کی، دراصل وہ بھارتی قیادت کے نام واضح پیغام تھا کہ وہ پاکستان پر دہشت گردی کے الزامات کی آڑ میں خطے میں ہندوتوا پر مشتمل ناپاک عزائم کو پورا کرنے کے خواب دیکھنا اب بند کر دے کیوں کہ پاکستان رب العزت کے فضل و کرم سے اب بھارت کو قرار واقعی سبق سکھانے کی صلاحیت حاصل کر چکا ہے۔
رب کریم کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ایک جانب عزم و استقامت، قومی حمیت و غیرت اور کلمہ طیبہ کی بنیاد پر سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت اپنے سے کئی گنا بڑے اور طاقتور دشمن، بھارت، کو نہ صرف حالیہ محدود جنگ میں دھول چٹا چکی ہے بلکہ اسے آئندہ کسی بھی جارحیت کے ارتکاب پر مزید سنگین نتائج کی تنبیہ کر رہی ہے۔ وزیرِ اعظم شہباز شریف نے افواجِ پاکستان کے افسروں و جوانوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ”اگر دوبارہ یہ راستہ اختیار کرو گے تو منہ کی کھاو گے“ دراصل اسی قومی عزم کا مظہر ہے۔ یہ محض بیان بازی نہیں، بلکہ زمینی حقائق اس کی گواہی دیتے ہیں۔ اب تو پوری دنیا میں یہ خبر پھیل چکی ہے اور مختلف اقوام اس پر خوشیاں منا رہی ہیں کہ پاکستانی شاہینوں نے بھارتی رافیل کو خاک چٹائی اور بری فوج نے دشمن کے بریگیڈ ہیڈکوارٹر کو نیست و نابود کیا۔ معاملہ یہاں تھما نہیں ہے بلکہ چین جیسے آزمودہ دوست کی غیر متزلزل حمایت، جس کے تحت پاکستان کو F-400جیسے جدید ایئر ڈیفنس سسٹم (جو ہائی پاور مائیکروویو ہتھیار فائر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے) اور J-31 لڑاکا طیاروں کی فراہمی، KJ-500ایئر وارننگ سسٹم اور PL-15 و CM-400جیسے میزائلوں کی تیز تر دستیابی، اس امر کی غماز ہے کہ پاکستان اپنی دفاعی صلاحیتوں میں خود انحصاری کی جانب تیزی سے گامزن ہے اور کسی بھی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کے لیے ہمہ وقت تیار ہے۔
ان حالات میں آذربائیجان کی پاکستان کے ساتھ مضبوط دوستی کے اشارے اور ترک صدر کا یہ بیان کہ ”ترکیہ اچھے اور برے دنوں یعنی ہر حال میں پاکستان کا ساتھ دے گا“ بھی اسی دفاعی محور کی مضبوطی کا اشارہ ہے۔ عالم اسلام کے بازوئے شمشیر زن یعنی پاکستان کی ان کامیابیوں پر مسلم امہ میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے تاہم دوسری جانب غزہ کے دل خراش حالات پر ہر مسلمان کا دل غم سے بوجھل بھی ہے۔ اٹھارہ ماہ سے زائد عرصے سے کلمہ اور اپنی مٹی سے محبت کے ”جرم“ میں محصور، نہتے فلسطینی شہری اسرائیل کے ظلم وستم کا شکار ہیں لیکن اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ امر یہ ہے کہ غزہ کے پڑوس میں سعودی عرب اور قطر جیسے وسائل سے مالا مال اسلامی ممالک، اپنے مظلوم فلسطینی بھائیوں کو خوراک یا کسی دوسری ہنگامی امداد کی فراہمی میں کوئی قابلِ ذکر کردار ادا کرنے کی بجائے امریکا کے ساتھ اربوں نہیں بلکہ کھربوں ڈالر کے دفاعی و تجارتی معاہدوں پر دستخط کر کے جشن منا رہے ہیں۔ صدر ٹرمپ کا دورہ سعودی عرب اور پھر قطر، جہاں سعودی عرب کے ساتھ 142ارب ڈالر کے دفاعی معاہدے (جو 600ارب ڈالر کے سعودی سرمایہ کاری وعدے کا حصہ ہیں) اور قطر کے ساتھ 200بلین ڈالر مالیت کے بوئنگ طیاروں اور دیگر دفاعی و تجارتی معاہدے ہوئے، مسلمانوں کے لیے بہرحال حیرت اور دکھ کا باعث ہیں۔ ان مناظر کو دیکھ کر امت مسلمہ کا ہر دردمند دل یہ سوال کرنے پر مجبور ہے کہ کیا محض معاشی استحکام ہی کسی ملک کی عزت و توقیر کے لیے کافی ہے؟
یہ تضاد اور بھیانک حقیقت اس وقت مزید عیاں ہو جاتی ہے جب ہم پاک بھارت حالیہ کشیدگی کے پس پردہ عوامل پر غور کرتے ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ابتدائی طور پر امریکا کی خاموشی اور پھر اچانک جنگ بندی کے لیے بھرپور کردار ادا کرنا، کسی ایٹمی جنگ کے خطرے سے زیادہ اس خوف کا نتیجہ تھا کہ اس سارے کھیل میں اسرائیل کے ڈرون اور اس کے وسیع تر مفادات براہِ راست زد میں آ سکتے تھے۔ ’امریکا۔ اسرائیل‘ گٹھ جوڑ کی دہائیوں پر محیط منصوبہ بندی سے تعمیر کردہ کاروباری، معاشی اور اسٹریٹجک سلطنت کو خطرہ لاحق ہوگیا تھا۔ اگر پاکستان، جس کی پشت پر چین کھڑا تھا، اور بھارت، جس کی پشت پناہی اسرائیل کر رہا تھا، کے مابین تنازع بڑھتا تو نہ صرف امریکا کے خلیجی ریاستوں کے ساتھ اربوں ڈالر کے معاہدے خطرے میں پڑ جاتے، بلکہ ’ابراہیمی معاہدوں‘ کا مستقبل بھی داو پر لگ جاتا، جن کا ایک طویل المدتی ہدف پاکستان کو بھی اپنے جال میں پھانسنا تھا۔ اس نازک صورتحال میں، بقول تجزیہ کاروں، پاکستان نے ایک ”کاسٹنگ ووٹ“ کا کردار ادا کیا اور مودی کا ”آپریشن سندور“ خود بھارت کے گلے پڑ گیا۔
اس موقع پر یہی کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ جنگ جس میں پاکستان کو فتح نصیب ہوئی، دراصل خالق کائنات کی ایک ایسی تدبیر ہے جس نے مسلم امہ کے قلب و جاں میں ایک نئی حرارت پھونک دی ہے اور جس کے نتائج بھارت ہی نہیں اسرائیل کو بھی مزید تکلیف سے دوچار کریں گے۔ پاک بھارت معرکے اور غزہ میں فلسطینیوں کی مقاومت کی روشنی میں یہ سوال نہایت اہمیت اختیار کر گیا ہے کہ آخر عرب ممالک، بالخصوص خلیجی ریاستیں، پاکستان اور ترکیہ کی طرح دفاعی میدان میں خود انحصاری کی راہ کیوں نہیں اپناتیں؟ کیا ان کے پاس وسائل کی کمی ہے یا قوتِ ارادی کا فقدان ہے؟ آخر کب تک وہ اپنی سلامتی کے لیے بیرونی طاقتوں پر انحصار کرتے رہیں گے؟ مسلم حکمران باہمی دفاعی اتحاد میں اپنی سلامتی کیوں تلاش نہیں کر رہے؟
وقت کا تقاضا ہے کہ امت مسلمہ، بالخصوص اس کے وہ ممالک جو عسکری و تزویراتی اہمیت کے حامل ہیں، اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں۔ پاکستان اور ترکیہ کا باہمی دفاعی تعاون پہلے ہی قابلِ ستائش ہے، جس میں ترک و چینی ڈرونز کا موثر استعمال اور دفاعی پیداوار میں اشتراک شامل ہے۔ اس تعاون کو مزید وسعت دینے اور اس میں دیگر ہم خیال مسلم ممالک کی شمولیت کو یقینی بنانا ازحد ضروری ہے۔ اس صورت میں مسلم دنیا نہ صرف اپنے دفاع کو ناقابلِ تسخیر بنا سکتی ہے بلکہ عالمی سطح پر ایک باوقار اور موثر کردار بھی ادا کر سکتی ہے۔ معیشت بلاشبہ اہم ہے، لیکن قومی غیرت، خودمختاری اور اپنے عقیدے پر اٹل یقین کے بغیر معاشی خوشحالی بھی بے معنی ہو کر رہ جاتی ہے۔