لندن/واشنگٹن:یورپ کی ڈیفنس تجزیاتی ویب سائٹ نے اینٹی ائیر کرافٹ سسٹم ایس 400 کی تباہی پاک بھارت جنگ کا سب سے بڑا واقعہ قرار دے دیا۔بلغاریہ ملٹری ریویو کے مطابق پاکستانی جوابی حملے میں ایس 400 کی تباہی ہوئی ہے تو یہ سب سے زیادہ ہائی پروفائل واقعہ ہے،اودھم پور بیس شمالی بھارت کا مرکزی بیس، سخوئی اسکواڈرن مرکز اور سرحد سے 100 کلومیٹر دور ہے۔
ڈیفنس تجزیاتی ویب سائٹ میں کہا گیا ہے کہ انتہائی اہم ائیر بیس پر روسی سسٹم کی تباہی سے بھارتی دفاع کمزور پڑ گیا، پاکستان نے ہائپر سونک، جے ایف 17 تھنڈر میں لگایا ہے تو پاک فضائیہ کے حملے کی صلاحیت بہت بڑھ گئی۔
بلغاریہ ملٹری ریویو کے مطابق ہو سکتا ہے کہ پاکستان نے چین کے ہائپر سونک میزائلوں کا مقامی ماڈل تیار کیا ہو، ایس 400 تباہی کے بھارت کی دفاعی حکمت عملی پر دور رس نتائج ہوں گے۔ملٹری ریویو میں کہا گیا ہے یہ علامتی پیغام بھی گیا کہ پاکستان بھارت کے بہت اندر جا کر حملہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، ایس 400 سیچوریشن حملوں یا ریڈار و کمانڈر پر حملہ کیے جانے پر کمزور پڑجاتا ہے۔
ادھربھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی کے دوران دو امریکی حکام نے انکشاف کیا ہے کہ پاکستان کی جانب سے چین میں تیار کردہ جے-10لڑاکا طیاروں کے ذریعے بھارت کے کم از کم دو فوجی طیارے مار گرائے گئے جن میں ایک فرانسیسی ساختہ رافیل طیارہ بھی شامل ہے۔
برطانوی ٹی وی کے مطابق چین نے اس کشمکش سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارت کے خلاف خفیہ معلومات اکٹھا کرنے میں نمایاں پیش رفت کی ہے۔ماہرین کا کہنا تھا کہ پاکستان کی طرف سے استعمال ہونے والے چینی جنگی طیاروں اور دیگر ہتھیاروں کے ذریعے چین بھارت کی دفاعی حکمت عملی، حرکات اور سیکورٹی ڈھانچے سے متعلق انتہائی اہم معلومات حاصل کر رہا ہے۔
سیکورٹی اور سفارتی تجزیہ کاروں کے مطابق چین کی عسکری ترقی اتنی پیش رفت کر چکی ہے کہ وہ نہ صرف بھارتی فوج کی زمینی نقل و حرکت کو سرحدی تنصیبات سے براہ راست دیکھ سکتا ہے بلکہ بحر ہند اور خلا سے بھی مسلسل نگرانی کر رہا ہے۔
بین الاقوامی ادارہ برائے اسٹریٹجک اسٹڈیزکے مطابق چین کے پاس اس وقت 267سیٹلائٹس موجود ہیں جن میں 115خالصتاً انٹیلی جنس، نگرانی اور جاسوسی کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ 81سیٹلائٹس ایسے بھی ہیں جو الیکٹرانک اور فوجی اشاروں پر نظر رکھتے ہیں۔
یہ نیٹ ورک بھارت جیسے علاقائی حریفوں کے مقابلے میں کئی گنا وسیع اور جدید ہے۔ماہرین کا کہنا تھا کہ چین اور بھارت دونوں اپنی سرحدی تنصیبات اور دفاعی صلاحیتوں کو زمینی اور فضائی سطح پر تیز رفتاری سے بڑھا رہے ہیں مگر چین نے خاص طور پر انٹیلی جنس کے شعبے میں نمایاں برتری حاصل کی ہے۔
چینی انٹیلی جنس ٹیمیں بھارت کے دفاعی نظام، کروز اور بیلسٹک میزائلوں کے استعمال پر بھی گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔ ان کی دلچسپی صرف میزائلوں کی پرواز اور ہدف تک پہنچنے کی درستگی میں نہیں بلکہ بھارتی کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم کی ساخت اور کام کے طریقہ کار میں بھی ہے۔
ماہرین نے کہا ہے کہ اگر بھارت روس کے تعاون سے تیار کردہ براہموس سپرسانک کروز میزائل کو جنگ میں استعمال کرتا ہے تو یہ چین کے لیے انتہائی اہم معلومات کا ذریعہ بن سکتا ہے کیونکہ تاحال اس میزائل کے عملی استعمال کی کوئی تصدیق نہیں ہوئی۔
چین نے حالیہ برسوں میں بحر ہند میں اپنی موجودگی میں بھی اضافہ کیا ہے۔ اس نے خلائی نگرانی کے جہاز، سمندری تحقیقاتی کشتیاں اور ماہی گیری کے جہاز تعینات کیے ہیں جن کے بارے میں خیال ہے کہ یہ بھی خفیہ معلومات اکٹھی کرنے کے مشن پر ہیں۔
گذشتہ ہفتے کے دوران مبصرین نے غیر معمولی طور پر بڑی تعداد میں چینی ماہی گیر کشتیوں کے قافلے کو بحر عرب میں بھارتی نیول مشقوں کے قریب 120سمندری میل کے فاصلے پر متحرک دیکھا۔ اس سے یہ تاثر مزید پختہ ہوتا ہے کہ چین اس پورے بحران کو اپنی انٹیلی جنس صلاحیتوں کو وسعت دینے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔