اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کا فوجی آپریشن کی آڑ میں غزہ پر قبضہ کرنے اور فلسطینیوں کو جبری طور پر غزہ سے بے دخل کرنے کا منصوبہ سامنے آگیا۔ غیر ملکی خبررساں ایجنسی کے مطابق نیتن یاہو نے سماجی رابطے کے پلیٹ فارم پر جاری اپنی ویڈیو میں کہا ہے کہ غزہ میں شروع ہونے والا نیا فوجی آپریشن پہلے سے زیادہ شدید ہوگا۔نیتن یاہو نے کہا کہ اس آپریشن کا مقصد حماس کا خاتمہ کرنا ہے، تاہم نیتن یاہو نے یہ نہیں بتایا کہ اسرائیلی فوج غزہ کے کتنے حصے پر قبضہ کرے گی۔نیتن یاہو نے کہا کہ فوجی آپریشن کے دوران غزہ کی آبادی کو ان کے تحفظ کے لیے وہاں سے ہٹایا جائے گا۔ اب ایسا نہیں ہوگا کہ اسرائیلی فوج غزہ میں جائے گی اور کارروائی کرکے واپس آجائے گی بلکہ اس بار اس کے برعکس ہوگا۔
تقریباً ڈیڑھ برس تک وحشت و سفاکیت اور بہیمیت وچنگیزیت کے تمام ہتھکنڈے استعمال کرنے کے باوجود اسرائیل غزہ کی چھوٹی سی پٹی کے نہتے مگر غیور مسلمانوں کو شکست دینے اور ان کی مزاحمت کو کچل دینے میں ناکام ہے اور اب ہر گزرتے دن کے ساتھ اسرائیل کے سرٹیفائیڈ جنگی مجرم وزیر اعظم نیتن یاہو کی بوکھلاہٹ اور فرسٹریشن میں اضافہ ہورہا ہے، ایک جانب اس کی بزدل فوج باقی ماندہ 25 یرغمالیوں کو بازیاب کرانے میں ناکام ہوچکی ہے تو دوسری طرف خود اسرائیلی عوام میں نیتن یاہو کے خلاف غیظ وغضب کے جذبات بڑھ رہے ہیں۔ تل ابیب کے بن گوریون ائیر پورٹ پر یمن کے حوثیوں کے میزائل کی ”کامیاب لینڈنگ” نے اسرائیل کے فضائی دفاعی نظام ناقابل تسخیر ہونے کا بھرم بھی توڑ دیا ہے اور اسرائیل کو نظر آرہا ہے کہ ایسے مزید چند حملے ہوئے تو دنیا بھر سے آئے ہوئے صہیونی بھگوڑے اسرائیل سے راہ فرار اختیار کرسکتے ہیں۔ اب اپنی اس خفت کو مٹانے کے لیے اسرائیل نے ایک جانب یمن پر بمباری کی ہے اور دوسری جانب صہیونی وزیر اعظم اور ان کے بڑ بولے انتہا پسند وزراء غزہ پر قبضہ کرنے کی باتیں کر رہے ہیں۔
اسرائیلی کابینہ نے غزہ پر قبضے کا جو منصوبہ پیش کیا ہے، اس میں غزہ کے تیس لاکھ باشندوں کو بھوک اور محاصرے کے غیر انسانی ہتھیار کے ذریعے جنوب کی طرف دھکیلنے اور وہاں سے امریکی صدر ٹرمپ کے خیال کے تحت انہیں جبراً کسی تیسرے ملک بھیج کر غزہ کی سرزمین پر فحاشی و عیاشی کے اڈے بنانے کا ایجنڈا کار فرما ہے اور اطلاعات کے مطابق امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے گزشتہ روز واشنگٹن میں اردن کے بادشاہ عبد اللہ ثانی سے خصوصی ملاقات کی ہے اور مبصرین کے مطابق امریکا اردن اور مصر پر دباؤڈال رہا ہے کہ وہ غزہ سے فلسطینیوں کو نکالنے کے سلسلے میں تعاون کریں اور جبری انخلا کا شکار ہونے والے افراد کو اپنی سرزمین میں جگہ دیں۔ اردن اور مصر کی موجودہ قیادتوں سے اس بات کی توقع رکھنا بہت مشکل ہے کہ وہ فلسطینیوں کے جبری انخلا کے امریکی و اسرائیلی منصوبے کی زیادہ تک مخالفت کر سکیں گے، اگر انہیں اپنے عوام میں بغاوت پھیلنے کا خوف نہ ہوتا تو شاید وہ اب تک امریکا کو ہاں کہہ چکے ہوتے۔ وہ شاید اس وقت کا انتظار کر رہے ہیں جب غزہ کے مسلمان بھوک اور محاصرے کی شدت سے بے حال ہوکر خود ہی وہاں سے ہجرت کرنے پر مجبور ہوجائیں گے اور اردن اور مصر کے عوام بھی بادل نخواستہ فلسطینیوں کو اپنی سرزمین میں پناہ دینے پر آمادہ ہوجائیں گے۔
مگر کیا فلسطینی عوام اسرائیل کے آگے ہتھیار ڈال کر اپنی سرزمین سے نکلنے پر تیار ہوں گے؟اس کا جواب اسرائیل کو معلوم ہے۔ فلسطینیوں نے جس حیرت انگیز اور بے مثال جرأت و استقامت کے ساتھ ابھی تک اسرائیل کی بدترین ریاستی دہشت گردی کی مزاحمت کی ہے، وہ اس بات کی علامت ہے کہ ارض فلسطین میں طاقت کا فلسفہ ناکام ہوچکا ہے اور اگر بالفرض اسرائیل بھوک اور حصار کے ہتھیار کے ذریعے فلسطینی عام شہریوں کو غزہ کے رہائشی علاقوں سے نکلنے پر مجبور کرنے میں کامیاب بھی ہوجاتا ہے تو ان علاقوں میںفلسطینی مجاہدین کی مزاحمت جاری رہے گی بلکہ بعض عسکری مبصرین کے مطابق آبادی کے انخلا کے بعد مزاحمت کاروں کو گوریلا جنگ کے لیے کھلا میدان میسر ہوگا اور وہ اسرائیلی دہشت گرد فوجیوں کو آسانی سے شکار کرسکیں گے۔ وہ تو آج بھی صہیونی دہشت گردوں کا تاک تاک کر ہدف بنا رہے ہیں اور ڈیڑھ سال گزرجانے کے بعد بھی اسرائیل میں تابوتو ں او ر زخمیوں کی منتقلی کاسلسلہ بدستور جاری ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ماضی میں ناقابل تسخیر سمجھی جانے والی صہیونی ریاست اس وقت بری طرح پھنسی ہوئی ہے۔ نیتن یاہو اور اس کی شیطان فطرت انتظامیہ کو اس بارے میں کوئی فکر نہیں کہ یہ جنگ کس طرح اسرائیل کے جوانوں کو قبرستانوں میں منتقل کرتی جارہی ہے، یورپ سے آئے ہوئے متعدد بہترین گوریلے یہ جنگ نگل چکی ہے اور یہی صورتِ حال اسرائیلی فوج کو بھی درپیش ہے۔ فلسطینی مجاہدین کی مزاحمت کو ختم کرنے اور ان کی مقاومت کو متزلزل کرنے کے لیے صہیونی دہشت گرد ہر قسم کی کوشش کرچکے ہیں، امریکا نے اسرائیل کو ہر طرح کی امداد فراہم کرنے کے علاوہ گزشتہ سال غزہ میں ایک عارضی بندرگاہ بھی قائم کی تاکہ خوفناک بمباری سے گھبرا کر غزہ سے نکلنے والے فلسطینیوں کو جائے فرار مہیا کردی جائے لیکن دو یا تین ماہ کے دوران میں کسی فلسطینی نے اس بندرگاہ کا رخ تک نہیں کیا، چار وناچار امریکا نے غزہ میں قائم عارضی بندرگاہ کو وہاں سے منتقل کردیا۔ ابھی غزہ سے فلسطینیوں کو زبردستی نکالنے کا ٹرمپ کا منصوبہ بھی اسی طرح ناکامی سے دوچار ہوگا۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلامی دنیا غزہ کے مسلمانوں کا ساتھ دے،اردن ، مصر،متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب جیسے ممالک اگر فلسطینیوں کی مدد نہیں کرسکتے تو کم از کم ان کے خلاف بنائے جانے والے سازشی منصوبے کا حصہ بننے سے گریزکریں۔ امریکی صدر ٹرمپ اگلے دوہفتوں کے اندر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے دورے پر جارہے ہیں جہاں انہیں ان ممالک کی جانب سے امریکا میںکھربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کی پیشکش کی جاچکی ہے، یہ اچھا موقع ہے کہ یہ ممالک غزہ میںفلسطینیوں کی نسل کشی رکوانے کے لیے امریکی صدر سے بات کریں اور امریکا کے ساتھ تجارتی تعلقات کے لیے مشرق وسطی کے مسئلے کے حل کی ضرورت پر اصرار کریں۔ اگر ایسا نہیں ہوا اور امریکی صدر کے دورہ خلیج کے موقع پر بھی غزہ کے مسلمانوں کو بھوک اور محاصرے کی صہیونی جنگ سے نجات نہیں ملی تو نہیں کہا جاسکتا کہ عالم اسلام میں اور خود اپنے عوام میں ان ممالک کی کیا ساکھ رہ جائے گی اور اس کے اثرات کہاں تک جائیں گے۔