پاکستان ہر طرح تیار ہے

بھارتی دھمکیوں، اشتعال انگیز بیانات، پانی روکنے کی کوششوں اور سرحدوں پر فائرنگ سمیت ہر قسم کے اقدامات کے مقابلے میں پاکستان بفضلہ تعالیٰ ہمہ وقت تیار، چوکس اور مستعد دکھائی دیتا ہے۔ بھارت کی جانب سے جارحیت کے خطرات گو کہ کم ہو چکے ہیں لیکن معدوم نہیں ہوئے۔ وزیر دفاع خواجہ آصف کے مطابق بھارت کی جانب سے کسی غیر متوقع اقدام کے خطرات تاحال موجود ہیں اور سرحدوں پر کشیدگی اس بات کا ثبوت ہے کہ بھارت نے پاکستان کے خلاف جارحیت کا ارادہ ترک نہیں کیا ہے، بس وہ مناسب موقع کی تلاش میں ہے لیکن مقامِ شکر ہے کہ پاکستان میں بھارت کے کسی بھی اقدام کے حوالے سے کوئی خوف نہیں پایا جاتا۔ یہ درست ہے کہ پاکستان جنگ میں پہل نہیں کرے گا تاہم بھارت کو سبق سکھانے اور جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کے لیے ملک کی مسلح افواج اپنے فرائض کی انجام دہی میں مصروف ہیں۔ اتوار کی رات بھی بھارت کی جانب سے کئی محاذوں پر گولہ باری کی گئی جس کا ملک کے محافظ دستوں نے بھرپور جواب دیا۔

ایک دن قبل کی ایک رپورٹ کے مطابق دفاعی اداروں کے حساس آلات نے چار بھارتی رافیل طیاروں کو پاکستان کی جانب پرواز کرتے ہوئے نوٹ کر لیا تھا اور ان کے جواب میں پاک فضائیہ کے خصوصی جہاز حرکت میں آگئے تھے جس کے بعد بھارتی رافیل اسکواڈ کو واپس لوٹنا پڑا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق رافیل کی ناکامی بھارتی عزائم کے لیے ایک بڑا دھچکا ثابت ہوئی ہے۔ بھارتی دھمکیوں کے جواب میں پاکستان کی تیاریوں کو دیکھ کر قیاس تو یہی کہتا ہے کہ بھارت کسی اوچھے اقدام کی حماقت نہیں کرے گا تاہم جہاں تک پراکسی وار، پروپگنڈا مہم اور پانچویں کالم کی جنگ کا تعلق ہے تو ہو سکتا ہے کہ بھارت اس میں مزید تیزی لانے کی کوشش کرے اور کشمکش کا ایک طویل سلسلہ چل نکلے۔

سرحدوں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ پاک فوج کی جانب سے ملک کے داخلی اتحاد اور حکومت اور عوام کے درمیان یکجہتی اور اتحاد کو بروئے کار لانے کے لیے مختلف اقدامات کیے جا رہے ہیں جیسا کہ ڈی سی آئی ایس پی آر نے سیاسی جماعتوں کے نمائندہ وفد کو ان کیمرہ بریفنگ دیتے ہوئے بھارتی جارحیت کے امکانات، ممکنہ اقدامات اور جوابی دفاعی تیاریوں کے حوالے سے مسلح افواج کی حکمتِ عملی کے متعلق وضاحت دی۔ داخلی اتحاد کی کوششوں کے علاوہ حکومت نے سفارتی محاذ پر بھی بھارت کے ساتھ مقابلے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ اطلاعات کے مطابق پاکستان نے اقوام متحدہ کے سامنے بھارت کے جارحانہ رویے کو اٹھانے کا فیصلہ کر لیا ہے اور اس سلسلے میں حکومت کی جانب سے اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے نمائندے کو ہدایات دی گئی ہیں کہ وہ سلامتی کونسل کے اجلاس میں یہ معاملہ پیش کرے۔ پاکستان کو اقوامِ متحدہ میں یہ مسئلہ بھی اٹھانا چاہیے کہ بھارتی حکومت آتش انتقام میں اندھی ہوکر مسلمانوں کو نشانہ بنا رہی ہے جس سے خطے میں مزید اشتعال پیدا ہو سکتا ہے۔

اطلاعات کے مطابق جنگ کے ماحول کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارتی حکومت نے مختلف ریاستوں اور مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کے خلاف آپریشن کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ بھارت کی مختلف ریاستوں میں مسلح جتھے اور بلوائی مسلمانوں کی جان و املاک کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کی گرفتاریاں کی جا رہی ہیں اور بے گناہ لوگوں کو اذیت دی جا رہی ہے۔ ان حالات سے واضح ہے کہ مودی حکومت پاکستان کے مقابلے میں ناکامی پر تلملاہٹ کا شکار ہے اور وہ اپنا غصہ معصوم مسلمانوں پر اتار رہی ہے۔ ان حالات میں اہم سوال یہ ہے کہ جنگی جنون، مذہبی تعصب اور بالادستی کے خبط میں مبتلا مودی حکومت جو اپنے ہی ملک کی اقلیتوں کی زندگی دوبھر کر چکی ہے کیا پاکستان پر کوئی وار نہیں کرے گی؟ آخر بھارتی ریاست پاکستان کے خلاف کیا اقدام کر سکتی ہے؟ حالات و واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ بھارتی حکومت پاکستان کے خلاف جنگ کے ماحول کو دیر تک قائم رکھنے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ پاکستان پر دباؤ ڈالا جا سکے یا اسے جنگ کی کیفیت میں مبتلا کر کے معاشی لحاظ سے کمزور کیا جا سکے۔ سرحدوں پر حملے سے زیادہ وہ پراکسی وار اور آبی جارحیت کو ترجیح دے گی کیوں کہ اس قسم کے اقدامات میں جوابی حملے کے خطرات کم ہیں تاہم پاکستان کا رویہ اور موڈ بتا رہا ہے کہ وہ کسی بھی پہلو کو نظر انداز کیے بغیر بھارت کی ہر سازش کو بھرپور جواب دینے پر کمربستہ ہے۔ ماہرین کے مطابق پاکستان نے دفاعی تیاریوں کو اس طرح مرتب کیا ہے کہ وہ ملک کی عمومی کمزور معاشی صورت حال پر ایک قابلِ برداشت بوجھ کی صورت میں جاری رہ سکتی ہیں کیوں کہ اس وقت فوجوں کی نقل و حرکت سے زیادہ میزائلوں اور ڈرون ٹیکنالوجی سے مدد لی جا رہی ہے، اسی طرح آبی جارحیت سے بھی زیادہ خطرات لاحق نہیں کیوں کہ بھارت زیادہ سے زیادہ چند ہی دنوں تک پانی کو ذخیرہ کر سکتا ہے، اس کے بعد وہ پانی چھوڑنے پر مجبور ہو جائے گا، البتہ پراکسی وار کے خطرات موجود رہیں گے جس کے تدارک کے لیے پاکستان کو افغانستان سے متصل سرحدوں کی مسلسل نگرانی کرنا ہوگی جس کے لیے ڈرون ٹیکنالوجی کے استعمال کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے۔

موجودہ صورت حال ثابت کر رہی ہے کہ پاکستان دفاعی پہلو ہو یا سفارتی محاذ ہو، بھارت کو منہ توڑ جواب دینے کے لیے ہر لحاظ سے تیار ہے۔ اس صورتِ حال میں تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کو مسلح افواج کا بھرپور ساتھ دینا چاہیے جیسا کہ جامعة الرشید کے سرپرست حضرت مفتی عبد الرحیم صاحب اور دیگر علماء کرام پر مشتمل ایک وفد نے واہگہ پہنچ کر اپنے جوانوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا اور بھارت کو تجویز پیش کی کہ وہ پہلگام واقعہ کی غیر جانب دارانہ تحقیقات مکمل ہونے سے پہلے تک، پاکستان پر الزام تراشی سے گریز کرے تاکہ دونوں ملکوں کے درمیان صورت حال معمول پر آ سکے۔ ایران، سعودی عرب اور امریکا کی جانب سے بھی دونوں ملکوں کو تحمل سے کام لینے کی تلقین کی جا رہی ہے۔ پاکستان کی دفاعی صلاحیتوں کے سامنے آنے اور سرحدوں پر پیش قدمی کے لیے تیار مسلح افواج کے جوانوں کو دیکھنے کے بعد دنیا کے کئی ممالک امن کی آواز لگا رہے ہیں تاہم افسوس کہ انھیں یہ خیال کچھ تاخیر سے آیا۔ بالفرض بھارت جارحیت کا ارتکاب کر گزرتا تو یہی طاقتیں پاکستان کو خاموشی سے مار کھانے کی نصیحت کرتی دکھائی دیتیں۔ ان حالات میں پاکستان کی جانب سے بھارتی جارحانہ اقدامات کو سلامتی کونسل میں اٹھائے جانے سے مودی حکومت کے رویے میں کسی بہتری کی توقع تو نہیں لیکن اقوامِ عالم پر یہ ضرور واضح ہوگا کہ بھارت اس خطے میں مسلسل دہشت گردی پھیلا رہا ہے اور اس کے جارحانہ عزائم خطے کے تمام ممالک کے لیے ایک بڑا خطرہ ہیں۔ جنوبی ایشیا کے تمام ممالک کو اس امر کا ادراک کر لینا چاہیے کہ پاکستان کی عسکری قوت، حربی صلاحیت اور اس کی جوہری طاقت صرف پاکستانیوں کے لیے ہی نہیں بلکہ خطے کے تمام کمزور ممالک اور عالم اسلام کے لیے بھی ایک ایسی ڈھال ہے جسے بھارت اب توڑ نہیں سکتا۔ (ان شاء اللہ تعالیٰ)