امریکی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری ایک بیان میں پہلگام واقعے کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کے تناظر میںپاکستان اور بھارت سے مطالبہ کیا گیاہے وہ تحمل اور ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہوئے معاملات بات چیت سے حل کریں اور جنگ سے گریز کریں۔ اس بیان کے مندرجات میں امریکی وزارت خارجہ نے یہ موقف اختیار کیا کہ امریکا دہشت گردی کے مسئلے پر بھارت کے ساتھ ہے اودہشت گردی کیخلاف مودی حکومت کے ساتھ امریکا کا تزویراتی تعاون جاری رہے گا۔
مبصرین کے مطابق امریکا کا یہ بیان سفارتی سطح پر پاکستان کیلئے ایک دھچکا ثابت ہوسکتاہے، کیونکہ یہ بیان ظاہر کرتا ہے کہ امریکا مودی حکومت کے اقدامات کو درست سمجھ رہاہے جبکہ پاکستان کی جانب سے واضح طورپر کہا جاچکا ہے کہ پہلگا م واقعہ دراصل مودی حکومت کی اپنی سازش اور شرارت ہے اور بھارت دہشت گردی کو سیاسی مقاصد کیلئے ہتھیار کے طورپر استعمال کررہاہے۔
انہی حالات کے پس منظر میں پاکستان نے پہلگا م واقعے کی اقوام متحدہ کے کمیشن کے ذریعے تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے، جو دراصل پاکستان کی سچائی کا اعلان ہے۔ اقوام متحدہ کے تحقیقاتی کمیشن سے یہ توقع وابستہ کی گئی ہے کہ وہ اس واقعے کی غیر جانبداری کے ساتھ تحقیقات کرکے پوشیدہ حقائق کو سامنے لاسکتاہے یا کم از کم پاکستان کی بے گناہی کو جان سکتاہے۔ پاکستان کا خیال ہے کہ اس واقعے میں بھارت کی خفیہ ایجنسیاں ملوث ہیں۔ خود بھارت میں بھی یہ بات اٹھائی جارہی ہے کہ پہلگا م واقعے کے فوراً بعد اس کا الزام پاکستان پر کس طرح عائد کردیا گیا جبکہ شواہد بھی جمع نہیںکیے گئے تھے۔ واقعے کی فوری ایف آئی آر بھی شکوک پیدا کررہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ اگر واقعے کی غیر جانبدارانہ، شفاف اور منصفانہ تحقیقات کروائی جائیں تو بھارت کے موقف، بیانات اور پیش کردہ صورتحال سے مختلف حقائق سامنے آئیں گے۔ یو این متحدہ کمیشن کے ذریعے ماضی میں بھی مختلف واقعات کی تحقیقات کروائی جاچکی ہیں اور سیاسی مفادات آڑے نہ آجائیں تو تحقیقاتی کمیشن درست رپورٹ بھی تیار کردیا کرتاہے لیکن اس موقع پر سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ آخر امریکا نے از خود یہ فیصلہ کیسے کرلیا کہ مودی حکومت دہشت گردی کیخلاف درست اقداما ت کر رہی ہے؟
کیا امریکی حکومت کے علم میں نہیں کہ بھارت میں بسنے والے کروڑوں مسلمانوں کو ریاستی دہشت گردی کاسامناہے؟ مقبوضہ کشمیر میں انسانوں پر مسلط جبر اور ظلم کی بے شمار مثالیں تواتر کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کی جارہی ہیں لیکن امریکا کے کان پر اس سلسلے میں جوں تک نہیں رینگتی۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ امریکا پاکستان کے مطالبے کو درست تسلیم کرتے ہوئے پہلگام واقعے پر اقوام متحدہ کے تحت ایک کمیشن کی تشکیل پر رضا مندی کا اظہار کرے، جیسا کہ آزر بائیجان کی جانب سے پاکستان کے مطالبے کی حمایت کی گئی ہے، تاہم اس کے برعکس صورتحال دراصل اس بات کا اظہار ہے کہ مفادات کی سیاست اور تزویراتی مقاصد کا حصول عالمی طاقتوںکے نزدیک انصاف سے بڑھ کر ہے، پھر امریکا سے کسی عدل وانصاف کی توقع یوں بھی سادگی بلکہ حماقت ہی ہوگی کیوں کہ امریکا خود دنیامیں دہشت گردی کے سب سے بڑے اڈے اسرائیل کی پشت پناہی کررہاہے۔ امریکا سے یہ توقع کس بنیاد پر رکھی جاسکتی ہے کہ وہ امن، انصاف، عدل، انسانیت اور انسانی حقوق کو اپنے مفادات پر مقدم کرسکتا ہے؟ بنیادی بات یہ ہے کہ بھارت، اسرائیل اور امریکا تینوں ریاستیں عالم اسلام کے حوالے سے مشترکہ سوچ کے حامل ہیں اور یہ تینوں مل کر دہشت گردی کے نعرے یا اصطلاح کو مسلمانوں کے خلاف ایک سیاسی حربے کے طورپر استعمال کررہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خود امریکی بیانات میں متضاد موقف اور نقائض کا اجتماع دکھائی دیتاہے۔
امریکا پاکستان اور بھارت کو ذمہ دارانہ رویہ اختیار کرنے کی تلقین کررہاہے لیکن یہ جملہ دراصل پاکستان کے لیے ہی ہے۔ بھارت کو تو امریکا نے اپنے زعم میں کلین چٹ دے کر یہ اعلان کردیا ہے کہ اس معاملے پر امریکا بھارت کا ساتھ دے گا۔ امریکا کا سفارتی رویہ خود ہی غیر ذمہ دارانہ ہے اور حالیہ بیان میںبھی غیر سنجیدگی، سطحیت اور عامیانہ انداز پایاجا تاہے۔ پاکستان کے حوالے سے امریکی موقف میںبھارت کی تائید دکھائی د ے رہی ہے اور یہ رویہ اس وقت اختیار کیا گیاہے جب پاک فوج دشمن کیخلاف ایک بھرپور جنگ کیلئے تیار ہوچکی ہے۔ اس امر میں اب کوئی ابہام نہیں رہا کہ پاکستان کی جانب سے دو ٹوک موقف، دفاع کی بھرپو رتیاری اور جنگ کے حوالے سے عالمی دباؤ کو مسترد کرتے ہوئے بھارت کو سبق سکھانے کا اعلان عالمی طاقتوں بالخصوص امریکا کو ہضم نہیں ہورہا، چنانچہ پاکستان کی جانب سے یہ موقف سامنے آنا چاہیے کہ امریکا نے بھارت کی حمایت کرکے دراصل پہلگام واقعے پر بھارتی پروپگنڈے کو تقویت بخشی ہے اور دہشت گردی کے ایسے واقعات کی مزید گنجائش پیدا کردی ہے۔ پاکستان کو سفارتی سطح پر یہ موقف اختیار کرنا چاہیے کہ پہلگا م واقعے پر بھارت کے مشکوک کردار کے باجود امریکا کی جانب سے اس کی حمایت دراصل یہ ظاہر کرتی ہے امریکا خود بھی خطے میں تشدد، بگاڑ اور فتنہ و فساد کو دیکھنا چاہتا ہے۔
پاکستان عالمی میڈیا کے سامنے دہشت گردی کے واقعات میں بھارتی خفیہ اداروں حتی کہ بھارتی فوجی افسران کی شمولیت کے ثبوت بھی پیش کرچکاہے۔ پاکستان نے واضح کیاہے کہ بھارت افغانستان کی سرزمین سے پاکستان کیخلاف بالواسطہ جنگ لڑ رہا ہے، ان تمام حقائق کی موجودی میں امریکا کی جانب سے بھارت کی تائید آنے والے دنوں میں پاکستان کیلتے پراکسی جنگ کے بڑھتے ہوئے خطرات کی جانب اشارہ کررہی ہے۔ ان حالات میں پاکستان کا موقف وہی ہے جو آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے ٹلہ فائرنگ رینج میں جنگی مشقوں کے مظاہرے کے موقع پر جوانوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی مہم جوئی کی صورت میں پاکستان کا جواب فوری، حتمی اور بلند ترین سطح پر ہوگا۔ بھارت بھی جان چکاہے کہ پاکستان پر حملہ آسان نہیں، چنانچہ دفاعی ماہرین کا خیال بھی یہی ہے کہ بھارت پاکستان کیخلاف پراکسی وار استعمال کرے گا اور اس کیلئے افغانستان کی سرزمین استعمال کی جائے گی۔ امریکا اور بھارت دونوں ہی افغان سرزمین کو پاکستان کیخلاف استعمال کرسکتے ہیں۔ پاکستان کو ان تمام باتوںکا خیال رکھنا ہوگا۔