چمن کی فکر کرو، آشیاں کا غم نہیں!

جدید دور میں ریاست ومملکت اور حکومت میں معنوی فرق رکھا جاتا ہے۔ ریاست سے وفا غیر مشروط ہوتی ہے، اس سے اختلاف کی گنجائش نہیں ہوتی، اس کی بقا وسلامتی ہر چیز پر مقدم ہوتی ہے، اس سے وفا کا رشتہ گروہی اور جماعتی مفادات سے بالاتر ہوتا ہے۔ ریاست ہماری پہچان ہے، ہماری آن ہے، ہمارا مان ہے اور اس کی بقا سے ہماری بقا وابستہ ہے۔ اس کے برعکس آئینی اور قانونی دائرہ کار کے اندر رہتے ہوئے ہیئتِ انتظامی یا حکومتِ وقت محدود دورانیے کیلئے ایک انتظامی بندوبست ہوتا ہے، اس سے اتفاق اور اختلاف دونوں کی گنجائش ہوتی ہے۔

حکومت سے وفا غیر مشروط نہیں ہوتی، آئین وقانون کے دائرے کے اندر ہوتی ہے، اس کے طرزِ حکومت سے اختلاف کیا جا سکتا ہے اور ہوتا رہتا ہے۔ اگر یہ نہ ہوتا تو جدید دور کے جمہوری ممالک کے نظام کے اندر حزبِ اختلاف کی گنجائش نہ ہوتی۔ تمام تر اختلاف کے باوجود حزبِ اختلاف کو بھی اتنا ہی محبِ وطن سمجھا جاتا ہے، جتنا حکومتِ وقت اپنے آپ کو گردانتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عدالتیں ریاست کو نہیں چھیڑ سکتیں لیکن حکومتِ وقت پر تحدید و توازن کا کام کرتی ہیں، اس کے خلافِ آئین وقانون اقدامات اور فیصلوں پر روک ٹوک عائد کرتی ہیں تاکہ کوئی حکومت اپنے آپ کو عقلِ کل نہ سمجھے اورطاقت کے زعم میں آکر سرخ لائن کو عبور نہ کرے۔

اس کی تازہ ترین مثال یہ ہے: وفاقی حکومت نے چولستان کے صحرا کو سبزہ زار بنانے کیلئے نئی نہریں نکالنے کا فیصلہ کیا، اسے سبز پاکستان کی مہم کا نام دیا گیا، اس کیلئے ایک بڑا رقبہ مختص کرکے دعویٰ کیا گیا کہ زراعت اور کاشتکاری کے جدید طریقوں کو استعمال کیا جائے گا تاکہ فی ایکڑ پیداوار عالمی معیار کے مطابق ہو، نیز ملکی وبیرونی سرمایہ کاروں کو اس میں سرمایہ کاری کی ترغیب دی جائے گی، زمین طویل عرصے کیلئے اجارے پر دی جائے گی۔ مقتدرہ نہ صرف یہ کہ اس منصوبے کی پشت پر ہے بلکہ یہ منصوبہ اسی کی اجتماعی دانش کا شاہکار ہے لیکن صوبہ سندھ میں اس پر شدید ردِعمل آیا۔ نہ صرف قوم پرست گروہ میدان میں آئے بلکہ سندھ کی حکمران اور وفاقی حکومت کے قیام میں معاونت کرنے والی جماعت پیپلز پارٹی نے بھی پورے شدومد کے ساتھ اس سے اختلاف کیا اور آخرِکار وزیراعظم کو اسے روکنا پڑا کیونکہ اس وقت ملک مزید داخلی اختلافات کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

ایسے منصوبوں کیلئے آئین میں طریقہ کار تجویز کیا ہوا ہے، ایک آئینی ادارہ مشترکہ مفادات کی کونسل قائم ہے، اس کی تشکیل کا طریقہ کار اور دائرہ اختیار آئین کے آرٹیکل 153 تا 155 میں طے شدہ ہے۔ دستور میں درج ہے کہ مشترکہ مفادات کی کونسل کی تشکیل صدر کرے گا، اس کے ارکان حسبِ ذیل ہوں گے:تمام صوبوں کے وزرائے اعلیٰ، مساوی تعداد میں وفاقی حکومت کے ارکان، جنہیں وقتا فوقتا وزیراعظم نامزد کرے گا، اگر وزیرِاعظم کونسل کا رکن ہو تو وہ اس کا چیئرمین ہوگا ورنہ صدر کسی وفاقی وزیر کو جو کونسل کا رکن ہو اس کا چیئرمین نامزد کرے گا۔ یہ کونسل پارلیمنٹ کے سامنے جوابدہ ہو گی۔ کونسل کے فرائض میں وفاق اور صوبوں کے درمیان تنازعات کو طے کرنا بھی شامل ہے۔ اسی کے تحت 21 مارچ 1991ء کو اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کے عہدِ حکومت میں صوبوں کے درمیان دریائے سندھ کے پانی کی تقسیم کا فارمولا طے ہوا۔ اس کی رو سے پنجاب کے حصے میں پانچ کروڑ پچاس لاکھ چالیس ہزار، سندھ کے حصے میں چار کروڑ ستاسی لاکھ ساٹھ ہزار، خیبر پختونخوا کے حصے میں ستاسی لاکھ اسی ہزار اور بلوچستان کے حصے میں اڑتیس لاکھ ستر ہزار ایکڑ فٹ پانی کا حصہ مقرر ہوا۔

مشترکہ مفادات کی کونسل یا قومی فنانس کمیشن ہو ان کے اجلاس بلانے اور حقائق کا سامنا کرنے سے ہر حکومت کتراتی رہی ہے کیونکہ یہ مفادات کا معاملہ ہے اور اس میں وفاق اور صوبوں کے درمیان ٹکرائو ناگزیر ہے، نیز اگر تمام صوبوں میں ایک ہی جماعت کی حکومت ہو اور اس کی قیادت کو عوامی مقبولیت بھی حاصل ہو تو وہ کسی حد تک ان اداروں کو اتفاقِ رائے یا کثرتِ رائے سے چلا سکتی ہے لیکن ایسا ہونا ایک تخیلاتی تصور تو ہو سکتا ہے، عملی دنیا میں یہ بہت مشکل کام ہے۔ نیشنل فنانس کمیشن میں صوبوں کے درمیان وسائل کی تقسیم کا مسئلہ بھی آتا ہے اور 18ویں ترمیم میں یہ مسئلہ پہلی بار طے کیا گیا ہے۔ وفاقی محصولات میں سے ساڑھے 42 فیصد وفاق کے پاس رہ جاتا ہے اور طے شدہ فارمولے کے مطابق ساڑھے 57 فیصد صوبوں کو منتقل ہو جاتا ہے۔ وفاق کے ذمے دفاع اور داخلی سلامتی بھی ہے، نیز وفاقی نظم ونسق کوبھی چلانا ہوتا ہے اور موجودہ صورتحال میں کوئی بھی اقتدار میں آ جائے اس کیلئے مزید قرضے لیے بغیر وفاق کو چلانا عملاً ناممکن ہے کیونکہ داخلی اور خارجی قرضوں کی اقساط مع سود بھی وفاق کو ادا کرنی ہوتی ہیں۔

اس وقت مودی سرکار نے پاکستان کے خلاف جنگ کی فضا پیدا کر دی ہے، آبادی، رقبے اور معیشت کے حجم کی وجہ سے بھارت امریکا اور اہلِ مغرب کا پسندیدہ ہے۔ ایسے حالات میں پاکستان میں اتحاد واتفاق کی شدید ضرورت ہے، حکومتِ وقت سے کسی کو کتنا ہی اختلاف کیوں نہ ہو، اس کی پالیسیاں کتنی ہی قابلِ اعتراض کیوں نہ ہوں، نظام میں کتنی ہی خرابیاں ہوں، ان کے خلاف نفرت کا رخ پاکستان کی ریاست کی طرف نہیں مڑنا چاہیے۔ ریاست ومملکت قائم رہنے کیلئے بنی ہے اور ان شاء اللہ تعالی تاقیامت قائم رہے گی۔ حکومتیں بدلتی رہتی ہیں، آج ایک ہے، کل دوسری حکومت آ جائے گی۔ ہماری اقتصادی مشکلات اور داخلی تضادات کے سبب ہرحکومتِ وقت عوام کی نفرت وملامت کا ہدف بنتی ہے لیکن ریاست اور حکومت کو ایک سمجھنا آئین وقانون سے لاعلمی کی دلیل ہے۔ پہلگام واقعے کے بعد بھارت میں جنگ کی فضا پیدا ہوتے ہی ساری سیاسی جماعتیں ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو گئیں، اس میں ہمارے لیے سبق بھی ہے اور درسِ عبرت بھی۔

اسلامی جمہوریہ پاکستان اس وقت روئے زمین پر اللہ تعالی کی بے بہا نعمت ہے، پاکستان آبادی کے اعتبار سے دنیا میں پانچویں اور مسلم ممالک میں دوسرے نمبر پر ہے۔ یہ دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت ہے۔ معاشی بدحالی کے باوجود ایک بڑی فوجی قوت بھی ہے۔ پاکستان کی مسلح افواج کا دنیا کی تربیت یافتہ افواج میں ایک مقام ہے۔ ہمارے پاس جدید میزائل ٹیکنالوجی بھی ہے اور ہم چین کے اشتراک سے دو انجنوں اوردو نشستوں والے جدید ترین لڑاکا طیارے جے ایف 17تھنڈر بھی بنا رہے ہیں۔ عالمی مارکیٹ میں ہمارے لڑاکا طیارے ایک مقام رکھتے ہیں۔ اکیسویں صدی سے ہماری مسلح افواج تقریبا حالتِ جنگ میں ہیں، ہم دہشت گردی کا مقابلہ کر رہے ہیں اور عالمی امن افواج میں پاکستانی فوج ہمیشہ شریک رہی ہے۔

وقت کا تقاضا ہے کہ پوری قوم اپنے پیارے وطن کے دفاع بقا اور سلامتی کیلئے مسلح افواج کے شانہ بشانہ کھڑی ہو، دنیا کی افواج قومی حمایت ہی سے جنگیں جیتتی ہیں، ہمیں اپنی دفاعی افواج پر پورا اعتماد ہے، ورنہ امریکا اور یورپ کی پشت پناہی کے باوجود یوکرین کی حالتِ زار ہمارے سامنے ہے۔ جنگ پاکستان اور بھارت دونوں کے مفاد میں نہیں، بھارتی قیادت کو چاہیے کہ ہوش کے ناخن لے اورجنگ کے امکانات کو اتنا نہ ابھارے کہ پیچھے ہٹنا اس کیلئے مشکل ہو جائے۔ اس میں دونوں ملکوں کا نقصان ہوگا۔ چونکہ بھارت اس وقت تیزی سے ترقی کرتی ہوئی معیشت ہے، اس لیے اس کا نقصان نسبتاً زائد ہو گا۔ بتایا جاتا ہے کہ بھارت میں میڈیا نام نہاد دفاعی ماہرین اور تجزیہ کار جنگی ماحول پیدا کرنے کیلئے ڈرائیونگ سیٹ پر آ بیٹھے ہیں اور حکومت ان سے ایک قدم آگے چلنے پر مجبور ہے لیکن یہ دانشمندی نہیں ہے۔ قوموں اور ملکوں کی قیادت کیلئے جنگ چھیڑنا کمال نہیں ہے، بلکہ جنگ کے پھیلے ہوئے بادلوں کو سمیٹنا ہی قیادت کا امتحان ہوتا ہے۔ قائد وہ نہیں جو نتائج کی پروا کیے بغیر عوامی جذبات کی رو میں بہہ جائے بلکہ قائد وہ ہے جو متانت اور وقار کے ساتھ قوم کو اپنے پیچھے چلائے اور خطرات کا سدِباب کرے۔ اللہ تعالی پاکستان کا حامی وناصر ہو۔