جنگ کا ماحول اور پاکستان کا مستحکم بیانیہ

پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت بفضلہ تعالیٰ جنگ کے ماحول اور تصادم کے خطرات میں مضبوط اعصاب کا مظاہرہ کرتے ہوئے مستحکم بیانیہ پیش کر رہی ہے اور صاف دکھائی دے رہا ہے کہ باقاعدہ ٹکراو سے قبل پیدا ہونے والی صورتِ حال میں پاکستان منظر عام پر چھایا ہوا ہے جبکہ مودی حکومت کی گھبراہٹ اور بھارت کی صفوں میں موجود کھلبلی بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ پاکستان کی مسلح افواج کے ترجمان نے ایک اہم پریس بریفنگ کے دوران دوٹوک الفاظ میں بیان دیا تھا کہ پاکستان جنگ کا آغاز نہیں کرے گا لیکن بھارت نے پہل کی تو یہ فیصلہ پاکستان پر منحصر ہوگا کہ جنگ کب اور کیسے ختم ہوگی۔ اس واضح انتباہ کے فوراً بعد پاک فوج کے سپہ سالار لائن آف کنٹرول پر صف اول کے مورچوں پر دکھائی دیے جہاں وہ جوانوں کے ساتھ محاذ کا جائزہ لے رہے تھے۔
اس منظر نے دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ جنگ کی صورت میں پاکستان پیش قدمی کرے گا اور روس یوکرین جنگ کی مانند ہی خطے کے جغرافیائی نقشے میں تبدیلی واقع ہو جائے گی۔ تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان نے پوری قوت سے جواب دینے کا جو موقف اختیار کیا ہے، اس کا عملی ثبوت افغانستان کے راستے بھارتی پراکسی کے ہرکاروں یعنی فتنہ خوارج کے ستر سے زائد دہشت گردوں کو ایک ہی وقت میں گھیر کر مارنے کی صورت میں دیا جا چکا ہے۔ سیاسی و عسکری قیادت کی جانب سے پاکستان کے موقف کو پوری دنیا کے سامنے دوٹوک الفاظ میں بیان کرنے، بھارت کی طرف سے سیاسی مقاصد کی خاطر دہشت گردی کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کے ثبوت پیش اور بھارتی پراکسی وار کو بے نقاب کرنے کے بعدآئی ایس آئی کے سربراہ کو قومی سلامتی کا مشیر مقرر کر کے پاکستان کی قیادت نے بھارت کو پیغام دے دیا ہے کہ اب پاکستان صرف دفاع پر انحصار نہیں کرے گا بلکہ کھیل کے اگلے مرحلے کا آغاز ہو رہا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان کو سفارتی سطح پر تنہا کرنے کا بھارتی پروپیگنڈا بھی محض افواہ ہی ثابت ہوا ہے۔ ترکیہ اور چین پاکستان کے ساتھ فرنٹ لائن پر دکھائی دے رہے ہیں۔ آذر بائیجان کی جانب سے جنگ کی صورت میں مسلح فوجی دستے فراہم کرنے کی پیش کش سامنے آئی ہے، عالم اسلام اور عرب دنیا کے عوام کے جذبات و احساسات اور دعائیں پاکستان کے ساتھ ہیں۔ پاکستان میں اس وقت جنگ کے حوالے سے خوف و ہراس کا ہلکا سا تاثر بھی نہیں پایا جاتا بلکہ عوام حق و باطل کے درمیان کسی معرکے یا شرکیہ تہذیب کے درندوں اور توحید کے متوالوں کے درمیان پنجہ آزمائی کے طور پر دیکھتے ہیں جس میں ناکامی کا کوئی تصور موجود نہیں ہے۔ لائن آف کنٹرول اور سیالکوٹ سمیت جن محاذوں پر سرحدی جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے۔ وہاں سے سامنے آنے والے حیران کن مناظر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ بچے، بوڑھے، نوجوان سب ہی اپنی افواج کے شانہ بشانہ لڑنے کے لیے تیار ہیں اور گولہ باری اور فائرنگ کے باوجود میدانوں، گھروں کی چھتوں اور کھیتوں اور کھلیانوں میں کھڑے ہوکر اپنی افواج کی بہادری کا مشاہدہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ گولہ باری اور شدید فائرنگ کے باوجود بچے میدانوں میں پوری دلچسپی کے ساتھ کھیلتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ اعتماد، اطمینان اور بے خوفی ثابت کر رہی ہے کہ پاکستان جنگ کی صورت میں کیا کچھ کر گزرنے کے موڈ میں ہے اور بھارت کی کسی بھی غلطی کا خمیازہ اسے کس طرح بھگتنا پڑ سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی قیادت اور عوام کے ردعمل نے دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے اور جنگ سے پہلے کا یہ ماحول بھارت میں خوف، اندیشوں اور داخلی اختلافات کا سبب بن گیا ہے۔
پاکستان کے ردعمل کو دیکھتے ہوئے اس وقت دنیا کے کئی ممالک پاک، بھارت تناو کے ماحول کو معمول کی سطح پر لانے کے لیے کوشاں ہیں۔ اقوامِ متحدہ، سعودی عرب اور امریکا سمیت کئی ممالک نے جنوبی ایشیا میں امن قائم رکھنے کے لیے دونوں ملکوں کی قیادت کو مصلحت اور نرمی سے کام لینے کی تلقین کی ہے تاہم اسی دورانیے میں امریکا نے بھارت کے ساتھ ایک نئے دفاعی معاہدے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ افغانستان کی جانب سے بھارتی تاجروں کو اپنے ملک میں سرمایہ کاری کی دعوت دی گئی ہے۔ ایک ایسے موقع پر جب جنوبی ایشا ایک خطرناک جنگ کے دھانے پر کھڑا ہے اور پاکستان اپنے دفاع، بقا اور سلامتی کے لیے ہر ہتھیار استعمال کرنے کا فیصلہ کر چکا ہے، بھارت کے ساتھ تعلقات بڑھانے والے ممالک پاکستان کو کیا پیغام دے رہے ہیں؟ یہ کوئی پیچیدہ سوال نہیں ہے۔ دراصل مسلم امہ کو ہمیشہ ہی باہمی اختلافات و تنازعات کی وجہ سے نقصان پہنچا ہے۔ اس وقت بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ جہاں ایک طرف غزہ کے مسلمان اور مجاہدین ماڈرن تہذیب اور مذہبِ الحاد کے دہشت گردوں اور توسیع پسندانہ عزائم کی حامل صہیونی طاقت کے سامنے ڈٹے ہوئے ہیں تو دوسری جانب بعض قریبی ممالک ان کے شاندار جدوجہد کو محض اپنے مفادات اور انا کی وجہ سے خاک میں ملانا چاہتے ہیں، اسی طرح پاکستان کی صورت میں ایک مضبوط قلعہ مشرکانہ تہذیب کے سیلابِ آتشیں سامنے ایک حصار کی صورت میں موجود ہے لیکن محض لسانی تعصب اور علاقائی انانیت کی وجہ سے کچھ گروہ پاکستان کی پشت میں خنجر گھونپنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن انھیں منہ کی کھانا پڑے گی۔
بعض اطلاعات کے مطابق مودی حکومت نے بھارتی افواج اور خفیہ ایجنسیوں کو پہلگام ڈرامے کی آڑ لے کر پاکستان میں کسی بھی ہدف کو نشانہ بنانے کی ہدایات جاری کر دی ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق یہ ہدف محض دفاعی نہیں بلکہ مذہبی نوعیت کا بھی ہو سکتا ہے۔ پاکستان کی کسی اہم شخصیت کو بھی نشانہ بنایا جا سکتا ہے اور اس کے لیے ممکنہ طورپر پڑوسی ملک کی سرزمین ہی استعمال کی جائے گی۔ یہ امر لائقِ تحسین ہے کہ جنگ کا ماحول پیدا ہوتے ہی ترکیہ اور آذر بائیجان جیسے ممالک پاکستان کو ہتھیار اور فوجی دستے فراہم کرنے پر تیار ہوگئے۔ فی الواقع پاکستان کو ایسے ہی دوستوں کی ضرورت ہے جو حال اور مستقبل کی جنگوں میں اس کے شانہ بشانہ کھڑے ہو سکیں۔ ترکیہ نے پاکستان کے ساتھ ساتھ شام، صومالیہ اور بنگلہ دیش کو بھی ہتھیار فراہم کر کے پیغام دیا ہے کہ امتِ مسلمہ کو آنے والے حالات کے دوران کس نوعیت کے باہمی اتحاد اور دوستی کی ضرورت ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جس طرح پاکستان نے جنگ کی بھرپور تیاری کے ساتھ ایک واضح، دوٹوک اور غیر متزلزل موقف اختیار کر کے خود سے کئی گنا بڑے ملک کو شدید سبکی، جگ ہنسائی بلکہ ذلت و رسوائی سے دوچار کر دیا ہے یہی انداز فکر اور طرز عمل مسلم امہ کے ہر خطے کے دفاع کی خاطر اختیار کیا جائے۔