عالمی برادری بھارت کو کسی مہم جوئی کی حماقت سے روکے

وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہاہے کہ جنگ چھڑ جانے کی بات نہیں کی لیکن خطرہ موجود ہے، ہم پر جنگ مسلط کی گئی تو بھرپور جواب دیں گے۔ ایک ٹی وی انٹرویو میںوزیر دفاع نے کہا کہ دونوں ممالک کی سرحدوں پر فوج کھڑی ہے، ہماری تینوں مسلح افواج تیار ہیں، ملک کے ہر انچ کا دفاع کریں گے۔ خواجہ آصف نے کہا کہ انٹرنیشنل فورم پر بھارت پہلگام واقعے کی تحقیقات کرا لے، ہم پہلگام واقعے پر بھارت کے جھوٹ کو بے نقاب کرنا چاہتے ہیں۔ بھارت کی بیان بازی بڑھ رہی ہے، پاکستانی فوج نے حکومت کو بھارتی حملے کے امکان سے آگاہ کر دیا ہے۔ پاکستان ہائی الرٹ ہے اور اپنے ایٹمی ہتھیاروں کا استعمال صرف اس صورت میں کرے گا جب ہمارے وجود کے لیے براہ راست خطرہ موجود ہو۔

دریں اثناء بھارت کی جانب سے پاکستان کے خلاف کسی ممکنہ مس ایڈونچر کا جواب دینے کے لیے پاکستان نے بھی سرحد پار سینکڑوں اہداف کا تعین کرلیا۔ بھارت کے کسی حملے کے جواب میں ان اہداف کو منٹوں کے اندر نشانہ بنایا جائے گا۔ سیکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان نے حالیہ کشیدگی کا آغاز نہیں کیا نہ ہی پاکستانی ریاست کا پہلگام واقعے میں کوئی ہاتھ ہے۔ ابھی تک پاکستان کے کسی نان اسٹیٹ ایکٹر کے بھی اس واقعے میں ملوث ہونے کے شواہد سامنے نہیں آئے ہیں۔ اس کے باوجود بھارت پاکستان کے خلاف جارحیت کرتا ہے تو پاکستان کے دفاعی ادارے جواب دینے کے لیے تیار ہیں۔

یہ بھارت کے سوا ارب سے زائد انسانوں کی بڑی بد قسمتی ہے کہ ان کی قسمت کے فیصلے ایسے چند لوگوں کے ہاتھ میں ہیں جن کی ذھنی صلاحیت ادنیٰ درجے سے بھی کم نظر آتی ہے اور جو اپنی افتاد طبع کے لحاظ سے کسی چھوٹے گاؤں کی پنچائیت کے فیصلے کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ بھارت کے پردھان منتری نریندر مودی کی وجہ شہرت ہی ان کی انتہا پسند ذہنیت، نفرت کی سیاست اور اسلام دشمنی کی خصلت ہے۔ یہ وہ شخص ہے جس کو دنیا گجرات کے قصائی کے نام سے جانتی ہے اور جس کی گردن پر دوہزار سے زائد مسلمانوں کا خون ہے اور جو 2002کے گجرات فسادات میں اپنے کردار پر شرمندہ نہیں بلکہ نازاں رہا ہے۔ دنیا کے مہذب معاشروں میں نریندر مودی جیسے لوگوں کی رہنے کی جگہ جیل ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم بننے سے پہلے مودی کے امریکا میں داخلے پر پابندی تھی۔ اسے ہندوؤں کی تنگ نظری کی انتہا ہی کہا جاسکتا ہے کہ انہوں نے ایسے بدنام زمانہ قاتل شخص کو ایک نہیں بلکہ تین بار وزارت عظمیٰ کے منصب پر لابٹھا دیا۔ سوا ارب کی آ بادی پر مشتمل ایک ایٹمی ملک کا اختیار و اقتدار مودی جیسے شخص کے ہاتھ میں ہونا بندر کے ہاتھ میں استرا دینے سے بھی کسی بد تر مثل اور محاورے کا مصداق ہوسکتا ہے۔

پہلگام واقعے کے بعدبھارتی حکومت کے ابتدائی ردعمل اور ایف آئی آر سے واضح طور پر نظر آرہا ہے کہ یہ ایک فالس فلیگ آپریشن تھا جس کامقصد ہی پاکستان کو نشانے پر رکھ کر مودی کی سیاست کی ڈوبتی ناؤ کو بچانا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ نہ صرف خود بھارت کے اندر پہلگام ڈرامے پر سوالات اٹھائے جارہے ہیں بلکہ عالمی مبصرین بھی مودی سرکار کے اس بھونڈے مذاق پر ششدر ہیں۔ امریکا کی سابق سفارتکار اور جنوبی ایشیا ئی امور کی ماہر رابن رافیل نے کہاہے کہ واقعے کے پانچ منٹ بعد ہی اس کا الزام پاکستان پر لگانا کوئی عقل میں آنے والی بات نہیں ہے۔ بھارت میں سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ ریاست بہار میںرواں سال منعقد ہونے والے انتخابات سے پہلے پہلگام واقعے کو لے کر پاکستان کے خلاف جارحانہ بیان بازی کا واحد مقصد اس اہم ریاست میں شکست کے خطرے سے خود کو بچانا ہے۔ یاد رہے کہ اس سے پہلے پلوامہ حملے کا ڈرامہ بھی عین ایسے وقت میں ہوا تھا جب بھارت میں 2019کے عام انتخابات ہونے والے تھے اور بھارتیہ جنتا پارٹی کی پوزیشن نہایت کمزور تھی۔ ایسے میں پلوامہ فالس فلیگ آپریشن کے ذریعے مودی سرکار کو ہندوستان میں پاکستان اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کا اپنا روایتی سودا بیچنے کا موقع مل گیا اور پھربی جے پی غیر متوقع طور پر الیکشن جیت گئی۔ گزشتہ برس ہونے والے عام انتخابات میں بی جے پی بمشکل جیتنے میں کامیاب ہوئی اور رام مندر کا قبل از وقت افتتاح کرنے کے باوجود خود ایودھیا میں بھی اسے شکست کا منہ دیکھنا پڑا، الیکشن کے بعد سے اب تک مودی سرکار عوام سے کیے گئے اپنے وعدوں پر عمل سے بہت دور ہے اور اس کی مقبولیت کا گراف تیزی سے گر رہا ہے،ا یسے میں بہار میں ہونے والے ریاستی انتخابات میں شکست بی جے پی کی سیاست کو ہمیشہ کے لیے دفن کرنے کا نقطۂ آغاز ثابت ہوسکتی ہے۔ اسی بنا پر مودی جی کسی ایسے مدے کی تلاش میں تھے جس کو لے کر وہ تنگ نظری میں ضرب المثل ہندو اکثریت کو ایک بار پھر بے وقوف بناسکیں۔ بادیٔ النظر میں پہلگام کا ڈرامہ اسی مقصد کے لیے اسٹیج کیا گیا ہے۔

اب چونکہ روایتی گیدڑ بھبھکیوں اور بیان بازی سے کام چلتا دکھائی نہیں دے رہا، اس لیے مودی سرکار پاکستان کے خلاف کوئی ایڈونچر کرنے کی کوشش میں ہے۔ اسے شاید اندازہ نہیں ہے کہ ایسی کوئی بھی حماقت خطے میں کس قسم کے خطرناک حالات پیدا کرنے کا باعث بن سکتی ہے۔ پاکستان نے تو بھارت کو اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی تیاری کر لی ہے اور پاکستان کی فوج اور عوام بھارت سے اگلے پچھلے حساب برابر کرنے کے لیے بے چین ہیں تاہم ظاہر ہے کہ جنگ کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس کی خواہش اور تمنا کی جائے، وہ بھی ایسی حالت میں جب دونوں طرف ایٹم بم جیسے تباہ کن ہتھیار موجود ہوں۔ لہٰذاپاکستان ابھی بھی امن کو ترجیح دینا چاہتا ہے۔ عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ بھارت کی انتہا پسند قیادت کو ہوش دلائے اور اسے پاکستان کے خلاف کسی بھی قسم کی مہم جوئی سے باز رکھے۔ اقوام متحدہ اور امریکا نے دونوں ملکوں سے ضبط و تحمل کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کی ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ واشنگٹن، بھارت اور پاکستان دونوں حکومتوں سے رابطے میں ہے اور فریقین پر زور دے رہا ہے کہ وہ ”ذمہ دارانہ حل” کی طرف بڑھیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ مسئلے کا ذمہ دارانہ حل اسی صورت میں ممکن ہے جب عالمی طاقتیں اس مسئلے میں اپنی منافقانہ روش چھوڑ کر ذمہ دارانہ کردار ادا کریں گی۔ اقوام متحدہ کا کام بھی جارحیت پر آمادہ ممالک سے صرف اپیلیں کرنا نہیں ہونا چاہیے بلکہ اس ا دارے کو ایسے ممالک کا باضابطہ محاسبہ کرنا چاہیے۔ ساتھ میں اقوام متحدہ کو مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے جوکہ دو ایٹمی قوتوں کے درمیان پون صدی سے جاری کشیدگی کی بنیادی وجہ ہے۔