حالتِ جنگ اور دراندازی کی بڑی کوشش

وطنِ عزیز پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ کی فضا قائم ہے اور دونوں اطراف سے فوجیں آمنے سامنے آ چکی ہیں۔ عالمی تجزیہ کاروں کے مطابق طبلِ جنگ مسلسل بج رہا ہے۔ کسی بھی وقت جنگ چھڑنے کا خطرہ موجود ہے۔ بعض اطلاعات کے مطابق آزاد کشمیر کے مختلف مقامات پر لائن آف کنٹرول پر دونوں جانب سے فائرنگ کا تبادلہ ہوا ہے۔ پاک فوج نے اہم مقامات پر ٹینکوں کو میدانِ جنگ میں اتار دیا ہے۔ پاک فضائیہ کے شاہین دشمن پر جھپٹنے کے لیے بالکل تیار ہیں۔

جنگوں کے عالمی ماہرین کے مطابق پاکستان کی تیاریوں کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ وہ گویا یوکرین پر روس کی یلغار کی مانند حریف کی سرزمین میں داخل ہونے کے لیے تیار ہو چکا ہے۔ اس سلسلے میں ایک اہم خبر یہ دی جا رہی ہے کہ پاک فوج نے حیرت انگیز طورپر لائن آف کنٹرول پر جدید ترین ہتھیار پہنچا دیے ہیں جبکہ چین اور ترکیہ کی جانب سے پاکستان کو نہایت خطرناک اور جنگ کا نقشہ پلٹ دینے کی صلاحیت رکھنے والے بعض جدید وسائل فراہم کر دیے گئے ہیں۔ دوسری جانب سرحد پار سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق بھارتی افواج دونوں ملکوں کے قائم جغرافائی حدبندی یعنی بین الاقوامی سرحد کے مختلف اطراف میں جتھوں کی صورت جمع ہو رہی ہیں۔ میزائلوں کی تنصیب جاری ہے اور کئی علاقوں سے آبادی کو انخلا کا حکم دے دیا گیا ہے جبکہ کسانوں کو دو دنوں کے اندر فصلیں کاٹ کر لے جانے کی ہدایات دی گئی ہیں۔

ان حالات کو دیکھتے ہوئے امریکی محکمۂ اطلاعات کی جانب سے دی گئی رپورٹ کے مندرجات درست معلوم ہوتے ہیں کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی جلدی میں دکھائی دے رہے ہیں اور یوں لگتا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان محدود پیمانے کی ایک جنگ ممکن ہو چکی ہے۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ بھارت کی مودی سرکار اپنے جنگی جنون کے اظہار کرنے کے لیے موقع کے انتظار میں ہے، بھارت کے دفاعی ارکان اپنے بعض اتحادیوں کی جانب سے اشارہ ملنے کے منتظر ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ اتحادی کون ہو سکتے ہیں؟ پاکستان میں جنگ کے متعلق خوف و ہراس کی کیفیت نہیں ہے۔ پورا ملک اطمینان کی کیفیت میں دکھائی دیتا ہے جو کہ ایک اچھی علامت ہے۔ ایسا نہیں کہ اہلِ وطن کو برہمن سامراج کے توسیع پسندانہ عزائم کا علم نہیں۔ وطنِ عزیز میں کسی کو بھی بھارت کی متعصب حکومت، آر ایس ایس کے غنڈوں اور نفرت پھیلانے والے لیڈروں سے کسی قسم کی رحم دلی، خیر سگالی، امن پسندی یا بھلائی کی خوش فہی لاحق نہیں ہے۔ پاکستان کا ایک عام شہری بھی اس امر سے واقف ہے کہ بھارت نے روزِ اول سے پاکستان کو تسلیم نہیںکیا اور وہ دونوں ریاستوں کے درمیان قائم حدِ فاصل کو مٹا کر اکھنڈ بھارت کے قیا م کی کوششوں میں مصروف ہے اور اسے جس وقت بھی موقع ملا وہ وار کرنے سے گریز نہیں کرے گا، جیسا کہ اس وقت بھی کہا جا رہا ہے کہ بھارتی فوج پاکستان کو دو حصوں میں منقسم کرنے کی حکمتِ عملی کے ساتھ پیش قدمی کرتی دکھائی دے رہی ہے لیکن اہلِ وطن کے اطمینان کی ایک وجہ تو رب العزت کی رحمت پر بھروسہ ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ خالق کائنات کے فضل و کرم کی وجہ سے پاکستان مشکل ترین حالات میں بھی اپنے دفاع کی کوششوں سے باز نہیں آیا اور اسباب و وسائل کے ذیل میں یہی حکمتِ عملی اس وقت بھارت کے جنگی جنون کو لگا م ڈالے ہوئے ہے۔

اس وقت پاکستان کے لیے کوئی چیز خطرناک ہو سکتی ہے تو وہ اندرونی غدار یا پڑوس میں بیٹھے ہوئے وہ دشمن ہیں جو کہ پشت میں خنجر گھونپنے کی ایک سیاہ تاریخ رکھتے ہیں۔ جہاں تک عوام کی اکثریت اور فوج کا تعلق ہے تو پاکستان کی جوہری صلاحیت، اس کی ایمان، تقویٰ اور جہاد فی سبیل اللہ کا ماٹو رکھنے والی ہر دم تیار افواج اور کلمہ طیبہ کی بنیاد پر مشترک ایمانی جذبے سے سرشار پاکستان کے عوام بھارت کے وجود میں ابلتی ہوئی مشرکانہ لیکن مسلح تہذیب کے آتشیں سیلاب کے سامنے ایک ناقابلِ تسخیر رکاوٹ کی صورت میں موجود ہیں لہٰذا، ان حالات میں بھارت کو پاکستان کے خلاف ایک ایسے دوست کی ضرورت ہے جو کہ اسے اندر سے نقصان پہنچا سکے۔ حالات و واقعات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سیاسی فتنے کے سرد پڑ جانے کے بعد اب فتنۂ خوارج ہی وہ اندرونی مددگار ہو سکتا ہے کہ جو کہ جنگ کے بادلوں میں گھرے ہوئے پاکستان کے عوام پر کوئی کاری وار کر سکے۔ قیاس کے مطابق یہی وجہ ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب کہ پاکستان کو اپنے داخلی اتحاد کی اشد ضرورت ہے فتنۂ خوارج کے دہشت گردوں نے پاکستان میں گھس کر ایک بڑی واردات کی کوشش کی تاہم خدا کا شکر ہے کہ یہ ناپاک کوشش کامیاب نہ ہو سکی اور سرحدوں پر موجود چوکس محافظوں نے افغان سرزمین پر غیر معمولی نقل و حرکت کو بھانپتے ہوئے جنگی حکمتِ عملی کے مطابق دہشت گردوں کے ایک بڑے گروہ کو گھیر کر کیفرِ کردار تک پہنچا دیا۔ اطلاعات کے مطابق اس جھڑپ میں پچاس سے زائد خارجی مارے گئے جبکہ زخمیوں کی درست تعداد کا تاحال علم نہیں۔ ملک کے بعض باخبر لوگوںکے مطابق پاکستان کی جانب سے افغان عبوری حکومت کے ساتھ مصالحت کی کوششوں کے باوجود حالیہ کارروائی ایک تشویش ناک واقعہ ہے اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کے خلاف افغان سرزمین کا استعمال روکا نہیں جا رہا۔

تجزیہ کار وں کا خیال ہے کہ اس وقت عالمی سطح پر سفارتی تعلقات میں تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں اور مختلف ممالک نئے عالمی اتحاد کے قیا م کے لیے کوشاں ہیں۔ ایسے میں پاکستان کے وہ دوست بھی بھارت کے ساتھ دکھائی دیتے ہیں جن کے ساتھ پاکستان کے بہترین مفادات وابستہ ہیں۔ ان حالات میں پاکستان کو گہرائی کے ساتھ اپنی پالیسیوں میں متوازن تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ جنگ کے اس ماحول میں کون سا ملک پاکستان کا ساتھ دے رہا ہے اور کون بھارت کی پشت ٹھونک رہا ہے؟ اس کا گہری بصیرت کے ساتھ تجزیہ ہونا چاہیے اور آنے والے وقت میں جبکہ پاکستان اپنی دفاعی قوت کی بدولت مزید اہمیت اختیار کر جائے گا، پاکستان کو کسی بیرونی اشارے پر استعمال ہونے کی غلطی سے خود کو محفوظ رکھنا چاہیے۔ جہاں تک جنگ کا تعلق ہے تو سردست حالات ایک بڑی جھڑپ کے اشارے دے رہے ہیں، مودی حکومت اپنی جنونی ذہنیت کی تسکین کے لیے ایک تجربہ کرنے کے موڈ میں دکھائی دیتی ہے۔ اہل وطن کو بلند ہمت اور مضبوط حوصلوں اور بھرپور تیقظ اور تیاریوں کے ساتھ ساتھ دعا و استغفار پر بھی توجہ دینی چاہیے اور محض اسباب و وسائل پر اکتفا نہیں کرنا چاہیے۔