رات کی تاریکی میں ایک ماں اپنے بچوں کے جسمانی ٹکڑے جمع کر رہی تھی۔ اسپتال کی راہداری میں ایک باپ اپنی بیٹی کی لاش کو کندھوں پر اٹھائے بیٹھا آسمان کی طرف خالی نگاہوںسے تک رہا تھا۔ انکوبیٹر میں سسکتا ایک نومولود ، جس کا پورا خاندان شہید ہو چکا تھا، دنیا کی بے حسی کا نوحہ بن چکا تھا۔ ایک بچہ، جس کی آنکھوں کے سامنے اس کے والدین اور بہن بھائیوں کو چن چن کر شہید کیا گیا، خاموشی سے آسمان کی طرف دیکھ رہا تھا، گویا رب سے سوال کر رہا ہو: کیا ہم انسان نہیں؟ کیا ہمارا خون اتنا ارزاں ہے؟ہمارا جرم کیا ہے؟ ہم پر مظالم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں، لیکن دنیا خاموش تماشائی کیوںہے؟ مگر ان سوالوں کا جواب دنیا کی فضائوں میں فقط ایک گہری، سفاک اور مجرمانہ خاموشی ہے۔ ایک ایسی خاموشی جو چیخوں سے زیادہ سفاک اور کربناک ہے، جو گولیوں سے زیادہ قاتل اور جو ظلم سے زیادہ بے رحم ہے۔
فلسطین ایک ایسی سرزمین جسے رب نے برکتوں والی کہا، جہاں انبیائے کرام کے قدم پڑے، جہاں بیت المقدس جیسا مقدس مقام ہے، لیکن جہاں آج دنیا کا بدترین ظلم جاری ہے۔ جہاں انسانوں کو جلتے، کٹتے اور سسکتے ہوئے گوشت کے لوتھڑوں میں بدلا جا رہا ہے۔ یہ کوئی افسانہ نہیں، نہ کوئی پرانی داستان ہے۔ یہ اکیسویں صدی کی وہ تلخ حقیقت ہے جس پر انسانیت کا سر شرم سے جھک جانا چاہیے اور اگر نہ جھکے تو پھر یقین کر لیجیے کہ انسانیت مر چکی ہے۔یہ وہ دنیا ہے، جو تہذیب، انسانیت اور اخلاقیات کے علمبردار ہونے کی دعویدار ہے۔جس نے جانوروں کے حقوق پر قوانین بنائے، پودوں کے تحفظ پر فنڈز مختص کیے اور جسے کسی درخت پر کلہاڑا بھی کاٹتا دکھائی دے تو چیخیں سنائی دینے لگتی ہیںمگر آج وہی مہذب دنیا اس وقت خاموش ہے جب فلسطین میں معصوم بچوں کو زندہ جلایا جا رہا ہے، جب حاملہ خواتین کے پیٹ چاک کیے جا رہے ہیں، جب اسپتالوں اور اسکولوں کو بموں سے اڑایا جا رہا ہے اور جب گھروں کے ملبے تلے انسانوں کی چیخیں دب چکی ہیں۔
فلسطین پر ظلم کی یہ داستان نئی نہیں، بلکہ یہ خوں فشاںداستان عشروںسے جاری ہے، مگر اکتوبر 2023 کے بعد اسرائیل نے جو کچھ کیا، وہ دنیا کی تاریخ کا بدترین انسانی المیہ ہے۔ یہ ایک قتلِ عام (Genocide) اور کھلی نسل کشی ہے، جو مہذب دنیا کے کیمروں کے سامنے، لائیو اسٹریمز اور نیوز فیڈز کے بیچ کیا گیا۔ غزہ کے اسپتالوں کو بار بار نشانہ بنایا گیا۔ زخمیوں، بچوں، خواتین، ڈاکٹروں کو جان بوجھ کر قتل کیا گیا۔ یو این کے اسکولوں، ریلیف کیمپوں، عبادت گاہوں پر بم برسائے گئے۔ اسرائیل نے واضح کیا کہ نہ بچوں کو بخشے گا، نہ عورتوں اور بیماروں کو چھوڑا جائے گا۔ ایک نومولود بچے کو ملبے سے زندہ نکالا گیا۔ اس کی سانسیں چل رہی تھیں، لیکن اس کے اردگرد اس کا پورا خاندان لاشوںمیںبدل چکا تھا۔ حملہ آور اسرائیلی فوجیوں نے ماں کے سامنے اس کی بیٹی کو قتل کیا، صرف اس لیے کہ وہ فلسطینی تھی۔ نرسوں کو اسپتال کے آپریشن تھیٹر میں قتل کیا گیا۔ دوائی ختم ہو چکی تھی، مگر بم ختم نہیں ہوئے تھے۔ موت جاری رہی، چیخیں دبتی رہیں اور انسانیت مرثیہ بن گئی۔
امریکا، برطانیہ، فرانس اور جرمنی جیسے ممالک اسرائیل کی کھلی پشت پناہی کر رہے ہیں۔ ان کے لیے فلسطینی بچے صرف اعداد و شمار ہیں، نہ کہ جیتے جاگتے انسان۔ ان کی زبانیں اس وقت بند رہتی ہیں جب اسرائیل نسل کشی کر رہا ہوتا ہے اور صرف تب کھلتی ہیں جب مظلوموں کا کوئی بچا کھچا مزاحمتی جواب سامنے آتا ہے۔ عالمی میڈیا بھی اس ظلم کا ایک حصہ بن چکا ہے، جو قاتل کو مظلوم اور مظلوم کو دہشت گرد بنا کر پیش کرتا ہے۔ جب کسی مغربی ملک میں ایک کتے پر ظلم ہو تو ہیومن رائٹس کی صدائیں گونجتی ہیں۔ جب کسی جانور کے شکار کی ویڈیو وائرل ہو جائے تو عدالتیں حرکت میں آتی ہیں، لیکن جب فلسطین میں انسانوں کو ذبح کیا جاتا ہے، معصوم بچوں کے جسموں کے چیتھڑے اڑائے جاتے ہیں تو یہی دنیا،عالمی ادارے اور عالمی عدالتیں اندھے، بہرے اور گنگے ہوجاتے ہیں۔ امریکا روزانہ اسرائیل کو بم، گولہ بارود اور جنگی سازوسامان فراہم کرتا رہا۔ پھر بھی اسے امن کا داعی کہا جاتا ہے۔ یورپی ممالک اسرائیلی جرائم کے دفاع میں دلائل گھڑتے ہیں اور اقوامِ متحدہ کے ہر اجلاس میں اسرائیل کے خلاف پیش کی گئی قرارداد کو ویٹو کر دیتے ہیں۔ یو این کے سیکرٹری جنرل کی زبان بھی اس وقت مفلوج ہو جاتی ہے جب فلسطینی لاشوں کا انبار نظر آتا ہے۔ کیا یہ دنیا واقعی انسانیت کا دعوی کر سکتی ہے؟ کیا ایسی تہذیب کو مہذب کہنا خود تہذیب کی توہین نہیں؟
آج اگر فلسطین جل رہا ہے تو اس کی ایک بڑی وجہ مسلم دنیا کی یہ خاموشی، بے حسی اور بے عملی ہے۔ او آئی سی اجلاسوں میں صرف قراردادیں پاس کی گئیں۔ 57 مسلم ممالک کی افواج نے صرف پریڈز کیں، فلسطین کے لیے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا۔ فقط بیانات، مذمتیں اور دکھاوے کی ہمدردیاں، بلکہ عرب حکمرانوں نے تو اسرائیل کے ساتھ تجارتی تعلقات بھی بڑھائے۔ یہ کیسی غیرت ہے جو لاکھوں شہدا کی لاشوں پر بھی حرکت میں نہ آئی؟ یہ کیسی امت ہے جو قرآن مجید کے احکامات اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کو بھول چکی ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں، اگر جسم کے ایک حصے کو تکلیف پہنچے تو پورا جسم بے چین ہو جاتا ہے لیکن آج امت کا ایک حصہ جل رہا ہے اور باقی جسم بے حس ہو چکا ہے۔
آئیے اپنے گریبان میں جھانکیں۔ جب کسی فیشن برانڈ کی سیل لگتی ہے تو لائنوں میں کھڑے ہو جاتے ہیں، کسی اداکارہ کی موت پر آہیں بھرنے لگتے ہیں، لیکن جب فلسطینی بچوں کی لاشیں آتی ہیں تو ہماری آنکھ نم نہیں ہوتی۔ شرمناک حد تک ایسے لوگ بھی ہمارے ہاں موجود ہیں جو، فلسطین کی حمایت کو انتہا پسندی کہتے ہیں، مظلوموں کے حق میں بولنے والوں کو مذہبی کارڈ استعمال کرنے کا طعنہ دیتے ہیں اور بائیکاٹ مہم کو احمقانہ جذباتی ردعمل کہہ کر مسترد کرتے ہیں۔ انہیں فلسطینیوں کے زخم سے زیادہ اپنے برانڈڈ جوتے عزیز ہیں، انہیں خون آلود دودھ سے زیادہ ملکی چاکلیٹ کی لذت عزیز ہے، انہیں اسرائیلی مصنوعات کی فروخت پر کوئی تکلیف نہیں، صرف اپنی آسائش عزیز ہے۔
ہم یہ نہ بھولیں کہ ظلم پر خاموشی، ظالم کے ساتھ کھڑا ہونے کے مترادف ہے۔ اگر ہم آج نہ جاگیں، نہ بولیں، نہ لکھیں، نہ بائیکاٹ کیا تو ہم نہ صرف دنیا میں ذلیل ہوں گے، بلکہ آخرت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بھی شرمندہ ہوں گے۔ ایک سوال ہم سب کے سامنے کھڑا ہے: اگر ہمیں اپنی عیش و عشرت، اپنی فینسی کافی، اپنے مہنگے جوتے اور برانڈڈ کپڑے زیادہ عزیز ہیں تو پھر ہم ایمان، امت اور انسانیت کے نام پر کوئی دعوی کیسے کرسکتے ہیں؟ یہ وقت لکھنے، بولنے، جاگنے اور بائیکاٹ کرنے کا ہے۔ ظالم کا ساتھ دینے والی ہر چیز کا بائیکاٹ کیجیے۔ ہر جگہ فلسطین کے حق میں آواز اٹھائیے۔ اپنی دعاوں میں فلسطینیوں کو یاد رکھیے، اپنی جیب سے ان کے لیے عطیہ دیجیے اور اپنے ضمیر کو زندہ کیجیے،ورنہ اگر ہم خاموش رہے تو تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔