میرے ابا جان

میرے والد حافظ محمد ثناء اللہ، میرے سامنے ہمیشہ ایک آئیڈیل کی صورت میں رہے ہیں۔ میں ہمیشہ حیرت سے سوچا کرتا تھا کہ باہر کے ہر بڑے اور بھاری کام کو وہ اتنی آسانی سے کیسے کر لیتے ہیں؟ سات آٹھ سال کی عمر تک بھی میری معصومیت باقی تھی۔ جب بادل کے ٹکڑے ہمارے ساتھ ساتھ چلتے تھے تو میں ان سے پوچھتا تھا: ابا! یہ بادل ہمارے ساتھ ساتھ کیوں جاتے ہیں؟ ایسا ہی تب بھی ہوتا تھا جب ان کے ساتھ میں ٹرین میں جایا کرتا تھا۔ تیز رفتاری کے باعث باہر کے کھمبے اور درخت تیزی سے پیچھے کی طرف بھاگ رہے ہوتے تھے اور اپنی حیرانی دور کرنے کی خاطر میں کہتا: ابا! دیکھئے، درخت اور کھمبے کتنی تیزی سے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔ اور تب میری چھوٹی سی عقل کو سن کر وہ مسکرا دیتے تھے۔

ایک تربیت سی تربیت تھی جس کی کھٹالی میں ڈھل کر ہم بچے برآمد ہوتے تھے۔ کوئی مولانا محمد علی جوہر بنتا تھا، کوئی علامہ اقبال، کوئی سید مودودی نکلتا تھا، کوئی بی اماں نکلتی تھی۔ والدین کی تربیت اور نقشِ قدم کے باعث نماز بچپن ہی سے میری زندگی میں شامل رہی ہے۔بچپن میں ابا جان دو تین آیتیں زبانی دہراتے تھے۔ ابا جان سے سنتے سنتے بچپن ہی سے یہ آیتیں ازبر ہو چکی تھیں اور آج بھی جب میں انہیں قرآن شریف میں پڑھتا ہوں، تو ابا جان کی شکل اور آواز سامنے آ جاتی ہیں۔ والد صاحب زندگی بھر میرے آئیڈیل رہے ہیں۔

ان گنت دکھوں، مصیبتوں اور پریشانیوں کو تاحیات جھیلتا ہوا، ہر ہر تلاوت پر آنکھوں سے آنسو بہاتا ہوا اور ماں کی اطاعت میں سر تا پا ڈوبا ہوا، میرا باپ اس وقت جنت الفردوس کا ابدی مکین بن کر اپنی تمام محرومیوں کا ازالہ کر رہا ہوگا لیکن ادھر میں، کم مایہ، اس سوچ میں ڈوبا ہوں کہ کیا میرے اعمال بھی ایسے ہیں کہ اپنی جنتِ گم گشتہ کو پا سکوں؟ جنوری کی وہ یخ بستہ رات آج بھی مجھے یاد ہے جب فجر سے کچھ پہلے چار سال کی عمر میں میں سینے کی ایک تکلیف سے تڑپ رہا تھا اور میرا باپ ریلوے کی گرم یونیفارم پہنے، فرض کی ادائی کی خاطر دفتر جانے کے لیے تیار کھڑا تھا۔ بیٹے کی وہ تڑپ اس سے دیکھی نہ جاتی تھی۔ ایک طرف دنیاوی فرض اور دوسری طرف معصوم بیٹے کی محبت! اس نے بے اختیار مجھے گود میں اٹھا لیا اور اس لمحے اپنے گالوں پر میں نے باپ کی داڑھی کی چبھن اور آنسوؤں کے قطروں کی گرمی محسوس کی تھی۔آہ! کیا بتاؤں، داڑھی کی وہ چبھن اور آنسوؤں کی وہ گرمی، مجھ پر کیا اثر کر گئی؟

ہمارا ٹنڈوآدم (سندھ) والا واحد گھر تھا جہاں نلکا لگا ہوا تھا اور وافر پانی کی سہولت موجود تھی۔ اس لیے آس پاس کی تمام عورتیں پانی بھرنے صبح و شام ہمارے گھر آیا کرتی تھیں۔ ابا جان نے انہیں پانی بھرنے سے کبھی نہیں روکا، حالانکہ اس کے باعث ایک تو گھر کی خلوت ختم ہوتی تھی اور مزید یہ کہ گھر بھی گندا رہتا تھا لیکن ابا کے فیصلے پر نہ ان کی اماں (یعنی میری دادی) اور نہ میری والدہ کو کبھی اعتراض ہوا۔ اْس دور میں تمام فیصلے گھر کے مرد ہی کرتے تھے اور سب ہی اس فیصلے کے آگے سر جھکا دیتے تھے۔ پاکستان کے دولخت ہونے کے بعد والد صاحب کے جو رشتہ دار ڈھاکا یا چٹاگانگ میں پھنسے ہوئے تھے، ان میں سے سب کو ابا جان نے این او سی بھیج کر اپنے چھوٹے سے اور پہلے ہی سے بھرے ہوئے گھر میں ٹھہرایا اور ان کے کھانے پینے کا بندوبست کیا۔ بعد ازاں وہ لوگ یہاں ملازمتیں حاصل کرتے رہے اور اپنے بقیہ عزیزوں کو کراچی بلاتے رہے۔ والد صاحب کا یہ عمل قرآن پاک کی اس ہدایت کے عین مطابق تھا کہ اپنے رحم کے رشتوں سے حسن سلوک کیا کرو۔ یہ ان کی ایک بہت بڑی نیکی تھی، جس کے باعث نہ جانے کتنے خاندان کراچی میں آباد بھی ہوئے، اپنے مکانات بھی خریدے، اور شادی کرکے بال بچوں والے بھی ہوئے۔ آج بھی ہم سوچتے ہیں کہ اسّی گز کے چھوٹے سے گھر میں، جہاں ہمارا اپنا خاندان ہی نو افراد پر مشتمل تھا اور جب ابا جان کی تنخواہ بھی بہت کم تھی، ابا نے کیسے ہمت کر لی کہ ان بے سہاروں کو فوری سہارا دیا جائے؟اللہ تعالیٰ کی محبت غالب ہو تو سب ہی کام بن جاتے ہیں!

اپنی بزرگی کے اِس دور میں داخل ہو کر بھی باپ کی یہ تمام کیفیات مجھے بے اختیار یاد آتی ہیں۔ دنیا کے کروڑوں آدمیوں کے ہجوم میں مجھے بس اپنا بے بضاعت باپ ہی سربلند نظر آتا ہے۔ اپنی تمام زندگی اس نے میرے مستقبل کو چمکانے میں صرف کر دی۔ خود تو بے چارہ دنیا سے گمنام چلا گیا، لیکن اولاد کیلئے بہت کچھ کر گیا۔ مجھے یاد ہے اپنی بزرگ خالہ کی آنکھوں کے آپریشن کے لیے قریبی آئی اسپتال سے وقت لینے کے لیے، جب میرے باپ کو کوئی گاڑی نہ ملی تو وہ ایک گدھا گاڑی پر بیٹھ کر ہی اسپتال پہنچ گیا اور تاریخ لے کر آیا۔ آج کی اولاد کو تو گدھا گاڑی کی یہ بے معنی سواری بہت مضحکہ خیز لگے گی، لیکن یہی عجیب سی صورتِ حال میرے باپ کو یقیناً جنت کے ایک دلکش محل میں داخل کر گئی ہوگی۔ کسی نامعلوم شاعر نے باپ کو جس عمدہ طریقے سے خراجِ عقیدت پیش کیا ہے، وہ قابلِ مطالعہ ہے۔ کہتا ہے:
رہا برہنہ پا وہ خود مگر، نیا بوٹ مجھ کو دلا دیا
میرے باپ کے اسی روپ نے مجھے باپ جیسا بنا دیا
میں تماشا دیکھنا چاہتا تھا سروں کی اونچی قطار سے
میرے پیر کندھے پہ رکھ لیے، مجھے دوسروں سے بڑھا دیا
جو گلہ کیا کہ شدید دھوپ میں، یہ سفر ہے بہت کٹھن!
تو ردا میں مجھ کو چھپا لیا، کڑی دھوپ، لو سے بچا لیا
کبھی سردیوں میں ہوا چلی، تو رات کو فرش پر
میرا باپ چپکے سے سو گیا، مجھے اپنا کھیس اڑھا دیا

ہجرت کے وقت میرے والد نے بہت دانش مندانہ فیصلہ کیا تھا کہ مغربی پاکستان منتقل ہونے کی خواہش ظاہر کی تھی، ورنہ دوسرے بزرگوں کی مانند اگر وہ بھی مشرقی پاکستان کی طرف ہجرت کرتے تو پھر ہمیں بھی ہجرتین (دو ہجرتیں) کرنی پڑتیں اور جان و مال کے نقصانات اور بھارت کے جنگی قیدی بننے کی سزا الگ بھگتنی پڑتی۔ یاد رکھنا چاہیے کہ ماں اگر شفقتوں کا سایہ ہے تو باپ مشقتوں کی چٹان ہے۔ ہمیں اٹھانے، بڑھانے، مضبوط کرنے اور جوان رعنا بنانے میں ماں، باپ، دادا، دادی، اور نانا، نانی سب ہی کا مجموعی و انتھک کردار ہوتا ہے اور اسی کو مکمل خاندان کہتے ہیں!