جعلی ادویات کی روک تھام کی جائے

یہ گزشتہ سال مارچ کی اخیر کی بات ہے۔ ایف آئی نے کوئٹہ میں کریک ڈاؤن کرتے ہوئے بڑی مقدار میں جعلی ادویات برآمد کی تھیں۔ یہ کامیاب کارروائی ایک خفیہ اطلاع پر عمل میں لائی گئی تھی جس کے دوران ایک بڑے اسٹور پر چھاپا مار کر ایک سو سے زائد اقسام کی جعلی ادویات پکڑی گئیں۔ ادویات کو ڈریپ حکام کے حوالے کر دیا گیا۔ بتایا گیا ہے کہ ایف آئی اے نے ڈریپ عملہ کے ساتھ مل کر 33چھاپہ مار کارروائیاں کیں جبکہ ان کارروائیوں کے نتیجے میں 26انکوائریوں کا اندراج کیا گیا۔ مقامی اخبارات نے شہ سرخیوں کے ساتھ اس خبر کوشائع کیا مگر اتنی بڑی کارروائی کے باوجود جعل ساز بچ نکلے۔ جعلی ادویات بنانے اور فروخت کرنے والے دھڑلے سے اپنا کاروبار جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان کے خلاف کوئی مؤثر کارروائی نہ ہونے کی وجہ سے وہ کھل کھیلنے کیلئے آزاد ہیں۔

دیکھا جائے تو جعلی ادویات کی تیاری اور فروخت ملکِ عزیز کا دیرینہ مسئلہ ہے۔ کوئی حکومت بھی اس مافیا پر سخت ہاتھ نہیں ڈال سکی۔ موت کے یہ سوداگر نہ صرف عوام کی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں بلکہ دونوں ہاتھوں سے ان کی خون پسینے کی کمائی بھی لوٹنے میں مصروف ہیں۔ گزشتہ سال ہی معروف صحافی رانا عظیم کی ایک تحقیقی رپورٹ شائع ہوئی تھی جس میں انہوں نے بتایا تھا کہ ملک میں جعلی ادویات تیار کرنے کی تین ہزار فیکٹریاں موجود ہیں جو ہزاروں اقسام کی جعلی ادویات تیار کرنے میں دن رات مصروف ہیں۔ ان فیکٹریوں کے مالکان میں 35فیصد موجودہ و سابق ارکان اسمبلی ہیں۔ جعلی ادویات میں طاقت کے انجکشن اور اینٹی بائیوٹکس ادویات سب سے زیادہ تیار ہوتی ہیں۔ رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا گیا تھا کہ لاہور میں لوہاری مارکیٹ، پشاور میں صدر بازار، کراچی میں ایم اے جناح روڈ جعلی ادویات کی بڑی ہول سیل مارکیٹیں ہیں جبکہ سکھر، حیدرآباد اور کوئٹہ میں بھی یہ ادویات بڑی تعداد میں فروخت ہوتی ہیں۔ جعلی ادویات بنانے والی فیکٹریوں کے مالکان میں 21فیصد پرائیویٹ اسپتالوں کے مالکان جبکہ 15فیصد ڈاکٹر بھی شامل ہیں۔ یہ بھی پتا چلا ہے کہ پرائیویٹ اسپتالوں کے ساتھ ساتھ بعض سرکاری اسپتالوں میں بھی جعلی ادویات استعمال کی جاتی ہیں۔

جعلی ادویات بنانے والی فیکٹریوں میں بھارت، چین اور ایران سے سستا اور غیرمعیاری خام میٹیریل درآمد کر کے ان ادویات کی تیاری میں استعمال کیا جاتا ہے جن سے مریضوں کو فائدے کی بجائے الٹا نقصان ہو رہا ہے۔ مریض پرائیویٹ اسپتالوں میں لاکھوں روپے علاج پر خرچ کرنے کے باوجود موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ یہ ہوشربا انکشاف ہمارے حکمرانوں اور حکامِ بالا کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے کہ ہمارے دیہات میں 70فیصد ادویات جعلی استعمال کی جا رہی ہیں۔ طرفہ تماشہ یہ ہے کہ انہیں استعمال کرنے والے بھی نان کوالیفائڈ پریکٹشنر ہوتے ہیں جو چند روز کسی ڈسپنسر یا میڈیکل اسٹور پر بطور اسسٹنٹ کام کرنے کے بعد خودساختہ ڈاکٹر بن کر پریکٹس شروع کر دیتے ہیں۔ ڈرگ انسپکٹرز ان ’’ڈاکٹروں‘‘ سے اپنا ماہانہ بھتا وصول کر کے انہیں مریضوں کی زندگیوں سے کھیلنے اور لوٹ مار کرنے کی کھلی چھٹی دے دیتے ہیں۔ ہماری ہر حکومت کو صورتِ حال کا مکمل طور پر علم ہوتا ہے مگر اس مافیا پر ہاتھ ڈالنے کی جرات کبھی کوئی حکومت بھی نہیں کر سکی کیونکہ اس کے اپنے اندر موت کے یہ ہرکارے بیٹھے ہوتے ہیں جو اپنے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہونے دیتے۔ اس کے برعکس ہر چند ماہ بعد یہ مافیا حکومت پر دباؤ ڈال کر ادویات کی قیمتیں بڑھوانے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔

درج بالا حقائق کی روشنی میں یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ میں آ گئی ہے کہ ہمارے ارکان اسمبلی اور بڑے لوگ اپنے علاج کے لیے بیرون ملک کیوں جاتے ہیں؟ انہیں اپنے ملک میں علاج کروانا کیوں پسند نہیں ہے؟ اس کی وجہ یہی نظر آتی ہے کہ انہیں صورتِ حال کا پتا ہوتا ہے بلکہ ان میں سے یقینا کئی حضرات تو خود جعلی ادویات کی فیکٹریوں کے مالک ہوتے ہوں گے۔ ہمارے حکمرانوں، ارکانِ پارلیمنٹ، مراعات یافتہ لوگوں اور اشرافیہ کو بھی اچھی طرح پتا ہوتا ہے کہ ان کے ملک میں اسپتالوں اور ادویات کا کیا معیار ہے۔ کس طرح جعل سازی سے لوگوں کی صحت، جسم و جاں کے ساتھ کھیلا جاتا ہے۔ یہ بھی سبھی جانتے ہیں کہ ہمارے یہاں ڈاکٹروں کی ایک بڑی تعداد کیسے ڈرگ مافیا کی سہولت کار بنی ہوئی ہے، اس لیے ہماری اشرافیہ کے ’’عظیم‘‘ لوگ ملک کے اندر علاج کروانے کا رسک ہی نہیں لیتے۔ رہے عوام تو ان کی حیثیت جانوروں اور کیڑے مکوڑوں سے زیادہ کچھ بھی نہیں۔ جب تک عوام جہالتوں کے پہاڑ بن کر فلاں لیڈر زندہ باد، فلاں لیڈر مردہ باد، آوے ای آوے اور جاوے ای جاوے کے نعروں سے باہر نہیں نکلتے، تب تک حکمرانوں کے لیے راوی چین ہی چین لکھتا ہے، وہ یونہی عوام کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ کر خود معمولی سے معمولی علاج کیلئے بھی لندن اور واشنگٹن کا رخ کرتے رہیں گے۔