پہلگام واقعہ جس میں چوبیس سے زائد بھارتی سیاحوں کو مقبوضہ کشمیر کے ایک جنگل میں ہلاک کر دیا گیا تھا، اس وقت پاکستان کے خلاف ایک ہتھکنڈے کے طورپر استعمال کیا جا رہا ہے اور مودی سرکار روایتی پاکستان دشمنی کے جذبات کو مزید ابھار کر بھارت کو پاکستان کے ساتھ تصادم کی پوزیشن میں لے آئی ہے۔ بھارتی حکومت نے سندھ طاس معاہدے کو یکطرفہ طورپر ختم کرنے کا اعلان کر دیا ہے جو کہ ماہرین کے مطابق پاکستان کے خلاف آبی جارحیت کا اعلا ن ہے۔ بھارتی حکومت اپنے طورپر یہ اقدام نہیں کر سکتی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ موجودہ عالمی قوانین کی رو سے کوئی بھی بالائی ملک کسی زیریں ملک کا پانی روکنے کا مجاز نہیں ہے اور ایسا اقدام جنگ چھیڑنے کے مترادف ہے جس کے جواب میں چین بھی بھارت کا پانی روک سکتا ہے۔ بھارتی حکومت نے سندھ طاس معاہدے کے خاتمے کے اعلان کے علاوہ پاکستان کے سفارتی عملے کو بھی ملک چھوڑنے اور بھارت میں موجود پاکستانیوں کو فی الفور واپس جانے کا کہہ دیا ہے جو کہ سفارتی آداب کے منافی اقدام ہے۔ اس وقت سرحدوں پر حالات کشیدہ ہو چکے ہیں۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ متعصب مودی حکومت پاکستان کے خلاف اپنے گھناؤنے عزائم کو پورا کرنے کے لیے اس موقع کو جواز بنا کر کوئی خطرناک قدم اٹھانے کے موڈ میں ہے۔
بھارت کے جنونی رویے کے جواب میں حکومتِ پاکستان کی جانب سے اعلان کیا گیا ہے کہ بھارت کو کسی بھی جارحیت کا بھاری قیمت چکانا ہوگی۔ پاک فوج کے سپہ سالار جنرل عاصم منیر نے فوج کو جنگ کے لیے تیار رہنے کا حکم جاری کر دیا ہے۔ متعدد مقامات پر پاک فوج کے دستے جنگی مشقیں کر رہے ہیں تاکہ دشمن کو اس کے ناپاک عزائم کا مزہ بخوبی چکھایا جا سکے۔ حکومت اور افواجِ پاکستان کی جانب سے جنگ کی تیاری کو دیکھتے ہوئے اس وقت پوری قوم میں بھی جوش و جذبے کی لہر دوڑ چکی ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کے وہ لاکھوں نوجوان جو اپنے فلسطینی بھائیوں کی مدد کے لیے غزہ پہنچنے کی تمنا دلوں میں رکھتے ہیں، اس وقت بھارت کے جارحانہ رویے کو اپنے ارادوں کی تکمیل کی صورت میں محسوس کر رہے ہیں کیوں کہ بھارت کی مودی حکومت نہ صرف اسرائیلی مظالم کی حامی ہے بلکہ مودی جی عالمی مجرم نیتن یاہو کے دوست بھی ہیں اور اس دوستی کے اظہار کے طور پر بھارتی اسلحہ اور فوجی غزہ کے محاذ پر بھیجے بھی گئے ہیں جن میں سے چند فلسطینی مجاہدین کے ہاتھوں کیفرِ کردار تک بھی پہنچے ہیں۔
بھارت کی جانب سے جس پہلگام واقعے کی آڑ لے کر پاکستان کے خلاف جنگ کا ماحول بنایا جا رہا ہے، وہ بذاتِ خود بھارتی ایجنسیوں کی کارروائی لگتی ہے۔ یہ سوال اہمیت رکھتا ہے کہ بلوچستان میں جعفر ایکسپریس پر حملے کے دوران جو اسلحہ استعمال ہوا تھا، ویسا ہی امریکی ساختہ اسلحہ پہلگام حملے میں کیوں کر استعمال ہوا؟ تجزیہ کاروں کے مطابق افغانستان میں موجودہ امریکی اسلحہ جو کہ بھاری مقدار میں پاکستان مخالف گروپوں کے ہاتھوں تک پہنچ چکا ہے اور مسلسل پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہا ہے، دراصل بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کے خفیہ مراکز اور اس کے نیٹ ورک سے سپلائی کیا جاتا ہے جیسا کہ دہشت گردی میں ملوث بھارتی ایجنٹوں کی گرفتاری سے بھی یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کے نوے فیصد واقعات میں خواہ ٹی ٹی پی کے ذریعے ہو یا بلوچ علیحدگی پسند دہشت گرد اس میں ملوث ہوں، دراصل ’’را‘‘ کی منصوبہ بندی کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ چنانچہ پہلگام واقعے میں امریکی ساختہ اسلحہ کا استعمال اس بات کی نشانی ہو سکتی ہے کہ یہ واقعہ خود راہی کی کارستانی ہے جس کا اصل مقصد پاکستان کے خلاف جارحیت کا جواز پیدا کرنا ہے۔ یہ تجزیہ بھی قرینِ قیاس ہے کہ امریکا کی جانب سے چین کے خلاف چھیڑی گئی تجارتی جنگ میں چین کو ایک بڑی زک پہنچانے کے لیے بھارت نے اپنی خدمات پیش کر دی ہوں جیسا کہ مودی کی اسرائیل اور امریکا کے ساتھ مشترکہ دفاعی حکمتِ عملی کے شواہد بھی سامنے آ چکے ہیں۔
اس تجزیے کا حاصل یہ ہے کہ بھارت پاکستان کے خلاف ایک ماحول پیدا کر کے چین کے بڑھتے ہوئے قدموں کو روکنے کے لیے امریکا کے اتحادی کا کردار ادا کرنا چاہتا ہو۔ بھارتی حکومت کا خیال ہے کہ اس کے شمالی علاقوں میں آزادی کی بڑھتی ہوئی تحریکوں میں چین اور پاکستان ملوث ہیں اور وہ بھارت کو داخلی طورپر کمزور کرنا چاہتے ہیں۔ دراصل یہ وہی الزام ہے جو کہ خود پاکستان بھارت پر عائد کرتا رہتا ہے اور ثبوت کے طورپر اس کے پاس دہشت گردی میں ملوث بھارتی محکموں کے افراد بھی موجود ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ بھارت پاکستان کے خلاف جاری پراکسی وار کو ناکام ہوتا دیکھ کر اب کھل کر جارحیت کا ارتکاب کرنا چاہتا ہے تاکہ امن کی جانب پیش قدمی کرتا ہوا پاکستان ایک مرتبہ پھر اقتصادی اور معاشی تباہی کا سامنا کرتے ہوئے غیر مستحکم ہو جائے۔ ان حالات میں پاکستان کے پاس خم ٹھونک کر میدان میں اترنے اور بھارت کو اسی کی زبان میں جواب دینے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ اگر بھارت نے پاکستان کو مقابلے کا چیلنج دے ہی دیا ہے تو پاکستان کو چاہیے کہ وہ بھارتی حکومت کو مایوس نہ کرے اور براہِ راست اور بالواسطہ ہر نوع کے مقابلے کے ذریعے بھارتی قیادت کے توسیع پسندانہ عزائم کو اچھی طرح ٹھنڈا کر کے رکھ دے۔
یہ امر بھی واضح ہونا چاہیے کہ بھارت کی جانب سے کسی بھی جارحیت کا امکان گزشتہ چند سالوں میں ہمہ وقت موجود رہا ہے۔ آر ایس ایس کے سیاسی ونگ یعنی بی جے پی کی حکومت کے پاس عوام میں اپنی مقبولیت برقرار رکھنے کا بس یہی نسخہ ہے کہ وہ پاکستان کو بھارت کے لیے ایک خطرے کے طورپر ظاہر کرتی رہے اور اسی بنیاد پر بھارتی عوام کو بے وقوف بنا کر اپنے اقتدار کا سکہ قائم رکھے۔ جب تک آر ایس ایس کو توقع تھی کہ پاکستان افغانستان کے راستے حملہ آور ہونے والے دہشت گرد گروہوں کے ہاتھوں زخموں سے چور ہوکر لڑکھڑاہٹ کا شکار ہو جائے گا، اس وقت مودی کے پاتھوں پر سیاست کے دستانے دکھائی دیتے تھے لیکن اب پاک، افغان تعلقات میں بہتری کے امکانات اور دہشت گردوں کی قریب دکھائی دیتی شکست کے بعد مودی نے اپنے پنجے ظاہر کر دیے ہیں جو کہ پاکستان کے سبز ہلالی پرچم کے رنگوں کو چھیننا چاہتے ہیں لیکن نور خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن والی مثال یہاں بھی دکھائی دے رہی ہے۔ بھارت کی دھمکیوں کے جواب میں پاکستان کے عوام کا ردعمل قابل دید ہے اور وہ بھارت کے ساتھ دو دو ہاتھ کرنے کے لیے بے تاب دکھائی دیتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ بھارت اپنی تمام تر کاوشوں اور دہشت گرد گروہوں اور سیاسی فتننے کی پشت پناہی کے باوجود پاک فوج اور عوام کے درمیان موجود رشتے کو توڑنے میں کامیاب نہیں ہوا۔ ان حالات میں بھارت کی کوئی بھی حماقت پاکستان کو مزید مضبوط کر دے گی۔ پاکستان کے عوام اور فوج مل کر بھارت سے مقابلے کے لیے تیار ہیں۔