بھارت کسی بھی مہم جوئی سے باز رہے

مقبوضہ کشمیر کے سیاحتی مقام پہلگام میں نامعلوم افراد نے سیاحوں پر فائرنگ کر دی جس کے نتیجے میں 26سیاح ہلاک اور 30 زخمی ہو گئے۔ بھارتی میڈیا کے مطابق واقعہ پہلگام کے ایک سیاحتی ریزورٹ میں پیش آیا، جہاں مرنے والوں میں زیادہ تر کا تعلق انڈیا سے ہی تھا۔ دفترِ خارجہ پاکستان نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ہم اس واقعے میں مرنے والوں کے لواحقین سے تعزیت کرتے ہیں اور زخمیوں کی جلد صحت یابی کی دعا کرتے ہیں۔

دوسری طرف پہلگام واقعے کے فوراً بعد بھارتی میڈیا نے پاکستان کے خلاف زہر اگلنا شروع کر دیا ہے۔ پروپیگنڈے میں مذہب کا استعمال کرتے ہوئے غیر مسلم سیاحوں کو نشانہ بنائے جانے پر زور دیا جا رہا ہے اور اس معاملے کو مبینہ طور پر اسلامی انتہا پسندی سے جوڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ساتھ ہی بھارتی سرکار کو پاکستان کے خلاف ”کارروائی” کیلئے اکسایا جا رہا ہے۔

مقبوضہ کشمیر کے پر فضا سیاحتی مقام پہلگام میں پیش آنے والا یہ واقعہ بلاشبہ ایک تشویش ناک واقعہ ہے۔ کسی سے کتنی ہی شدت کا اختلاف کیوں نہ ہو، بے گناہ اور عام افراد کو نشانہ بنائے جانے کی کوئی بھی توجیہ قابل قبول نہیں ہوسکتی، اسی تناظر میں دفتر خارجہ پاکستان نے بھی بجا طور پر دو ٹوک انداز میں اس واقعے کی مذمت کی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بے گناہ، غیر متعلق، غیر متحارب اور عام بے گناہ افراد پر حملہ جنگ کے دوران بھی جائز نہیں ہے اور یہ عمل اسلام کی جنگی اور عسکری اخلاقیات کے بھی منافی ہے۔ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ مقبوضہ کشمیر کے حالات باقی دنیا سے مختلف ہیں۔ بھارت نے اس علاقے پر وہاں کے لوگوں کی مرضی اور رائے کے برخلاف قبضہ کر رکھا ہے اور اس قبضے کیخلاف کشمیری عوام پون صدی سے زائد عرصے سے مزاحمت اور آزادی کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کشمیر کے حالات کو کسی بھی نارمل صورتحال والے علاقے پر قیاس نہیں کیا جاسکتا۔ دوسرے لفظوں میں کشمیر میں حالات 1948ء سے اب تک بھارت کے ہزار جتن اور ہزار اقدامات کے باوجود نارمل معمول پر نہیں آسکے ہیں، چنانچہ مقبوضہ کشمیر ایک جنگی علاقہ ہے اور وہاں کے حالات کو اسی تناظر میں دیکھ کر ہی درست تجزیہ کیا جا سکتا ہے۔ کشمیری عوام بھارتی قبضے کے روز اول سے اس کے خلاف بر سر جنگ ہیں۔ آزادی کی اس جنگ میں کئی فیز اور مراحل آئے ہیں، جن میں بات چیت، سیاسی جدوجہد اور آخر میں بہ امر مجبوری ہتھیار اٹھانا شامل ہیں، جب تک اس قضیے کا کوئی ایسا فیصلہ نہیں ہوجاتا جس پر کشمیر کے باشندے دل سے مطمئن ہوجائیں، کشمیر میں حالات نارمل نہیں ہوسکتے۔

یہ واضح ہے کہ پاکستان تمام تر اصولی اختلاف اور بھارت کی جانب سے مستقل معاندانہ روش اور سبوتاژ کی سازشوں کے باوجود ایک امن پسند اور ذمے دار ریاست کی حیثیت سے بے گناہ سویلین کو نشانہ بنائے جانے کو اصولاً غلط سمجھتا ہے، مگر بد قسمتی سے بھارت کی جانب سے ویسی ہی ذمے داری اور حقیقت پسندانہ طرز عمل کی بجائے غیر ذمے دارانہ روش کا مظاہرہ کیا جاتا رہا ہے اور حالیہ واقعے کے بعد بھی حسب روایت بھارت کی طرف سے انتہائی غیر ذمے داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس واقعے کی ذمے داری اپنی ناکامی، نا اہلی اور غلط و غیر منصفانہ اقدامات پر ڈالنے کی بجائے پاکستان کے سر تھوپی جا رہی ہے۔ منگل کی شام اس حملے کی گونج ابھی نہیں تھمی تھی کہ جنم جنم کے غیر ذمے دار اور غیر سنجیدہ بھارتی میڈیا نے اپنی تمام تر بے بنیاد تر تجزیوں، اندازوں اور الزامات کی توپیں پاکستان کی سرحد پر گاڑنا شروع کردیں اور تحقیق و تفتیش کے جھنجھٹ میں پڑے بغیر پاکستان پر نفرت، عداوت اور الزامات کے جلتے گولے داغنے کا آغاز کردیا۔ یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے اور اس واقعے کو بھارت کا ”سات اکتوبر” قرار دے کر جلتی پر پاکستان کیخلاف ”بھرپور کارروائی” اور پاکستان کو اس حملے کا ”سبق سکھانے” کا تیل چھڑکا جا رہا ہے۔ بھارت کا غیر ذمے دار میڈیا اس طرح کے کسی اقدام کے ممکنہ نتائج اور عواقب کی جمع تفریق کے بغیر یکطرفہ ”ہلہ بول” میں لگا ہوا ہے اور یہی ڈفلی بھارت کا سوشل میڈیا بھی بجا رہا ہے، جس سے مجموعی طور پر بھارت میں ایک بار پھر پاکستان کیخلاف نفرت انتہا کو پہنچی ہوئی ہے۔

بھارت کی رائے عامہ پر اثر انداز ہونے والی انٹیلی جنشیا کو ذمے داری، سنجیدگی، تدبر اور صبر و تحمل سے کام لینا چاہیے اور ٹھنڈے دماغ سے تمام معاملات کا اچھی طرح جائزہ لے کر کوئی بیانیہ اپنانا چاہیے۔ پاکستان بھوٹان نہیں کہ بھارت اسے آنکھ دکھا کر ڈرا دے گا اور یہ تاریخ نے ثابت بھی کر دکھایا ہے۔ بھارت کے میڈیا واریئرز اور سیاست و فوج کے شہ دماغوں کو زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں، 2019 میں اسی کشمیر میں پلواما کا واقعہ پیش آیا،( بعد میں خود بھارتی میڈیا نے اس واردات پر سوالات اٹھائے) پاکستان نے اس کی مذمت کی، مگر زبانوں سے نفرت کی آگ برسانے والے میڈیائی نابغوں کے اکسانے پر بھارت نے فلمی انداز میں ہیرو پنتی کی کوشش کی تو دنیا نے اس کا انجام ابھینندن کی” چائے سے تواضع” اور پاکستان کے ”سوئفٹ ریٹارٹ” کی صورت میں دیکھ لیا۔ بھارت کو کشمیر میں جو بھی مسئلہ ہے، اس کا حل طاقت، فالس فلیگ آپریشنز، سبوتاژ کی کارروائیوں، دہشت گردی، پاکستان پر الزام تراشی اور نفرت و عداوت میں ڈھونڈنے کی بجائے پاکستان اور کشمیریوں کے ساتھ امن مذاکرات میں ہی ملے گا، طاقت اور ڈنڈے سے مسائل الجھیں گے، حل کبھی نہیں ہوں گے۔

ماضی کی طرح ایک بار پھر من گھڑت کہانیاں، مذہب کا تڑکا اور غیر مسلم سیاحوں کو نشانہ بنانے کے بیانیے کا سہارا لینے سے ماضی کی طرح ہی اچھے نتائج برآمد نہیں ہوں گے۔ پاکستان کا بیانیہ واضح ہے کہ کشمیر میں حالات نارمل ہرگز نہیں ہیں، کشمیری باشندے زخم خوردہ ہیں، بے چین و مضطرب ہیں، ناامید و مایوس ہیں اور غم و غصے میں ہیں۔ یہ وہ عناصر ہیں جو کسی بھی وقت لاوا پھٹنے کا سبب بن سکتے ہیں۔ سویلین افراد پر حملہ ہزار قابل مذمت سہی، پاکستان کا اصولی موقف واضح ہے کہ اس طرح کی کارروائیوں کا کوئی جواز نہیں، مگر اس کے باوجود ایسی کارروائیاں ہو رہی ہیں تو بھارت کو ان کی وجوہات اور اسباب کشمیر میں ہی تلاش کرنے چاہئیں اور اپنی پالیسیوں اور اقدامات میں ڈھونڈنے چاہئیں۔ پاکستان پر الزام تراشی اور پاکستان کو بدنام کرنے سے مسائل حل ہوں گے اور نہ ہی مودی سرکار کی ناکامی کو اس پالیسی سے زیادہ دیر کیموفلاج کیا جا سکتا ہے۔ نیز اس واقعے کی آڑ میں بھارت کسی بھی مہم جوئی کی حماقت سے بھی گریز کرے، ورنہ حالات بے قابو ہوگئے تو اس کا سب سے زیادہ نقصان بھارت کو ہی اٹھانا پڑے گا۔