وزراتِ خارجہ پاکستان کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق افغانستان کی عبوری حکومت کے وزیر خارجہ ملا امیر خان متقی نے پاکستان کے نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار کی جانب سے دورۂ پاکستان کی دعوت قبول کرلی ہے۔ قبلِ ازیں پاکستان کا ایک اہم وزیر خارجہ اسحاق ڈار کی قیات میں افغانستان کا دورہ کر چکا ہے۔
اسحا ق ڈار نے ایک پریس کانفرنس میں اس امر کی تصدیق کی کہ ان کا دورہ کامیاب رہا اور افغان حکام نے ٹی ٹی پی جیسی دہشت گردہ تنظیموں کو پاک، افغا ن سرحد سے دور بھیجنے پر آمادگی ظاہر کر دی ہے لہٰذا پاکستان کی جانب سے بھی خیر سگالی اور تعلقات میں بہتری کے لیے مزید اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ اسحاق ڈار کے مطابق پاکستان بہرصورت افغانستان میں امن، استحکام اور وہاں کے باشندوں کی خوشحالی کا متمنی ہے۔ امید ہے کہ دونوں جانب سے تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے کوششیں جاری رہیں گی اور دونوں ممالک اس امر کا خیال رکھیں گے کہ ان کی سرزمین ایک دوسرے کے خلاف استعمال نہ ہو۔
پاک، افغان تعلقات میں بہتری کے اشارے بلاشبہ دونوں اطراف میں بسنے والے کروڑوں انسانوں کے لیے کسی خوش خبری سے کم نہیں ہے۔ اگرچہ پاکستانی حکومت کی جانب سے ملک میں غیر قانونی طورپر مقیم مہاجرین کی بے دخلی کا سلسلہ جاری ہے لیکن دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات کی بحالی سے امید کی جا سکتی ہے کہ قانونی دستاویز کے مطابق ملک میں مقیم افغان باشندوں کے ساتھ رعایت کا برتاؤ کیا جائے گا۔ پاک، افغان تعلقات میں برف پگھلنے کا عمل سیاسی سطح پر بات چیت کے آغاز، سفارتی تعلقات کے استعمال اور افغان عبوری حکومت کو پاکستان کا موقف سمجھانے کی مسلسل کوششوں کے بعد خالق کائنات کے خاص فضل و کرم ہی سے ممکن ہو سکا ہے ورنہ محسوس یہ ہو رہا تھا کہ دونوں ملک کھلے تصادم کی راہ پر چل نکلے ہیں۔ گو کہ جس انداز میں فتنۂ خوارج اور ٹی ٹی پی جیسے گروہوں نے پاکستان کے خلاف جنگ چھیڑ رکھی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ افغان سرزمین پر پاکستان کے لیے کوئی نرم گوشہ موجود نہیں کیوں کہ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف مسلسل استعمال ہو رہی ہے، اس سے یہ بدگمانی بھی قائم ہو رہی تھی کہ خود افغان طالبان بھی پاکستان کے متعلق کوئی نیک ارادے نہیں رکھتے تھے تاہم گفتگو، مذاکرات اور ایک دوسرے کے گھر آنے جانے کا سلسلہ یہ بات ظاہر کرنے کے لیے کافی ہے کہ گفتگو کا دروازہ بند نہیں ہوا اور نہ ہی فیصلے بندوق کی نوک پر کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ امر اس بات کی تائید کرتا ہے کہ افغان طالبان تکفیری گروہوں سے مکمل طورپر متاثر نہیں ہوئے۔ دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی اور سیاسی سطح پر تعلقات میں بہتری اس وجہ سے بھی ضروری ہے کہ طویل سرحد کے دونوں جانب نسلی، قبائلی، تجارتی اور اقتصادی رشتے بہت گہرے ہیں اور دونوں ملکوں کا مفاد اسی میں وابستہ ہے کہ یہ رشتے خوش اسلوبی اور باہمی احترام کے ساتھ برقرار ہیں۔ دونوں پڑوسی برادر اسلامی ملکوں کی اکثریت نوجوانوں پر مشتمل ہے اور باہمی تعلقات کو بہتر بنایا جائے تو یہ نوجوان لڑائی، فساد، فتنے اور توانائیوں کے ضیاع سے نکل کر نمایاں خدمات انجام دے سکتے ہیں۔
امر واقع یہ ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی بہتری دراصل عالم اسلام کے لیے ایک نیک شگون ہے۔ اگر تہران اور ریاض ایک دوسرے سے مصافحہ کر سکتے ہیں تو کابل اور اسلام آباد میں تو ہر قسم کے فاصلے بہت کم ہیں۔ ماضی کے افسوس ناک واقعات، پڑوسی ملک کی سازش اور متعدد ناکام اور تلخ تجربا ت کے بعد یہ اصول ذہن نشین کر لیا جانا چاہیے کہ افغان سرزمین کا پاکستان کے خلاف استعمال ہونا دراصل دونوں ملکوں کی تباہی کا سبب بنے گا۔ اگر یہ بات افغان قیادت کو سمجھ آ چکی ہے اور وہ علاقائی سلامتی، امن، استحکام اور عالم اسلام کے اتحاد کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے باہمی اختلافات کو ختم کرنے پر آمادہ ہو چکے ہیں تو بلاشبہ یہ ایک تاریخی سفارتی اور سیاسی کامیابی ہوگی۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ دونوں اطراف کے بزرگوں نے جوانوں کے جھگڑوں کو ختم کرنے کے لیے مل جل کر کام کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے اور وہ بھڑکتی ہوئی آگ پر مٹی ڈالنے کے لیے خود آگے آگئے ہیں۔ دونوں پڑوسی ممالک میں بزرگوں کے احترام، بڑوں کی بات کو ماننے اور جرگے، مصالحت اور گفتگو کے ذریعے تنازعات کو ختم کرنے کی ایک روایت موجود ہے۔ اس ضمن میں کہا جاتا ہے کہ ایک نان اور قہوے کی ایک پیالی وہ کام کر دکھاتے ہیں جو کہ ایک بڑی لڑائی سے ممکن نہیں ہو سکتا۔ ہر معاملہ خنجر کی نوک سے طے کرنا کوئی درست حکمتِ عملی نہیں ہے۔ اگر افغان طالبان اس امر کا ادراک کر چکے ہیں تو پاکستان بھی کشادہ ظرفی، وسعتِ قلبی اور ماضی کے تعاون کی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے افغان بھائیوں کے لیے اپنی گنجائش کے مطابق تعاون سے پیچھے نہیں رہے گا۔ اس ضمن میں چین کے کردار بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا جیسا کہ چند ماہ کے دوران میں چین کی جانب سے متعدد بار کہا گیا کہ وہ دہشت گردی کے معاملے پر پاکستان کے ساتھ ہے اور افغان طالبان کو اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہونے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔ چین پاکستان کے راستے سے وسطِ ایشیائی ممالک کے ساتھ ساتھ یورپ تک رسائی حاصل کر سکتا ہے اور امریکا کے ساتھ تجارتی جنگ چھڑنے کے بعد یہ کام مزید ضروری ہو چکا ہے کہ چین کے ارد گرد کوئی جنگ نہ برپا ہو تاکہ وہ تجارتی و اقتصادی جنگ پر یکسوئی کے ساتھ توجہ دے سکے۔
پاک، افغان تعلقات میں بہتری کے لیے عملی اقدامات کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ پاکستان اپنی سرحدوں کی حفاظت کے لیے جدید ترین ٹیکنالوجی اور آلات کا استعمال شروع کر چکا ہے۔ ملک کے محافظ دستوں نے سرحدوں کی حفاظت کے لیے جان ہتھیلی پر رکھ کر پیش کی ہوئی ہے۔ اندرونِ ملک فتنۂ خوارج اور دہشت گرد گروہوں کے خلاف مسلسل اقدامات کیے جا رہے ہیں، اس سب کی موجودگی میں فسادی گروہوں کے لیے انارکی پھیلانا آسان نہیں رہا۔ پاک فوج کے سپہ سالار واضح کر چکے ہیں کہ دہشت گردوں کے لیے کوئی رعایت روا نہیں رکھی جائے گی۔ ان حالات میں افغانستان کی جانب سے پاکستان کے خلاف کسی بالواسطہ جنگ کا حصہ بننا دراصل خود اس کے لیے بھی بہتر نہیں ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان گفتگو، مکالمے اور بات چیت کے ذریعے تعلقات کو بہتر بنانے کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے اور اس متعلق طے شدہ امور کو عملی صورت دینی چاہیے، اسی طرح اعتماد کے ٹوٹے ہوئے رشتے بحال ہوں گے اور پاکستان کے عوام میں بھی افغان بھائیوں کے ساتھ حسن سلوک برقرار رکھنے کا سلسلہ جاری رہے گا۔ اس وقت غزہ کے دل خراش حالات، عرب ممالک کر سر پر لٹکتی ہوئی جنگ کی تلوار اور بھارت اور اسرائیل کے درمیان دفاعی معاملات پر بڑھتا ہوا تعاون دراصل پاکستان اور افغانستان کے لیے بھی خطرے کی گھنٹی سے کم نہیں۔ عالم اسلام کو درپیش ان خطرات کا ادراک کرتے ہوئے افغان قیادت کو پاکستان کے ساتھ مستحکم تعلقات اور سرحدوں کی حفاظت جیسے اہم امور کو یقینی بنانے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ سازشوں کا بر وقت تدارک کیا جا سکے۔