افغانستان کے ساتھ تعلقات کی بحالی کی کوششیں

گزشتہ روز نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار ایک روزہ دورے پر کابل پہنچے، جہاں ان کی اعلیٰ افغان حکام سے ملاقاتیں ہوئیں، اس موقع پر مشترکہ امن و ترقی کا عہد کیا گیا۔ اسحاق ڈار نے افغان وزیر اعظم ملا محمد حسن اخوند، نائب وزیر اعظم ملا عبدالسلام حنفی، وزیر خارجہ مولوی امیر خان متقی سمیت دیگر رہنماؤں سے ملاقاتیں کیں۔ ملاقاتوں میں سیکورٹی، تجارت، ٹرانزٹ تعاون پر بات چیت ہوئی۔ملاقاتوں میں اس بات پر اتفاق کیاگیا کہ دونوں برادر ممالک کے درمیان تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کے لیے اعلیٰ سطح کے وفودکے تبادلوں کا سلسلہ جاری رکھا جائے گا۔

عرصے سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات کی فضا میں چھائی ہوئی کشیدگی کے پس منظر میں وزیر خارجہ سینیٹر اسحاق ڈار کا کابل کا ایک روزہ دورہ خوش آئند قدم اور ایک مثبت و قابل تحسین پیشرفت ہے، جس سے دونوں پڑوسی اور برادر ممالک کے درمیان تعلقات میں بہتری کی امید پیدا ہوئی ہے۔ وزیر خارجہ کا دورۂ افغانستان ایسے موقع پر ہوا ہے جب دونوں ملکوں کے دوران کئی اختلافی معاملات پر شدید منقسم رائے موجود ہے اور یہی اختلاف بڑھ کر سرحدوں پر دونوں ملکوں کے سرحدی محافظوں کے درمیان کئی بار جھڑپوں اور شدید گولہ باری کے حادثے کا سبب بھی بن چکا ہے ۔ ساتھ ہی مہاجرین کی واپسی کا ایک تلخ اختلافی معاملہ بھی سر اٹھائے کھڑا ہے۔ ان حالات میں یہی لگ رہا تھا کہ شاید دونوں ملکوں میں تعلقات کی بحالی اب خواب ہی رہے اور دونوں ممالک ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوششوں میں اپنا نقصان کرنے کی پالیسی پر ہی گامزن رہیں گے، تاہم یہ امر خوش آئند ہے کہ جہاں دونوں ملکوں کے درمیان باہم تصادم اور مخاصمت کو تقویت پہنچانے والے کچھ اختلافی امور موجود ہیں، وہاں اس کے برعکس ان حوالوں اور اسباب کی تعداد کثرت میں ہے جو دونوں ملکوں میں اخوت، بھائی چارے، اچھے اور قابل اعتماد پڑوسی کے تقاضوں کی تکمیل کرتے ہیں۔ چنانچہ ایک رپورٹ کے مطابق ٹریک ٹو ڈپلومیسی کے دوران ایسے ہی مشترکات کو بروئے کار لاکر اعلیٰ سطح کے روابط کی بحالی میں کامیابی حاصل کرلی گئی اور نتیجے میں پہلے افغان عبوری حکومت کے ایک اعلیٰ سطحی وفد کا دورہ پاکستان اور اب وزیر خارجہ پاکستان کا دورہ کابل ممکن ہو پایا۔

ذرائع ابلاغ کی رپورٹس کے مطابق کابل میں وزیر خارجہ پاکستان کی اعلیٰ افغان قیادت کے ساتھ ملاقاتوں کے دوران سیکورٹی، تجارت، ٹرانزٹ اور افغان مہاجرین کے امور سمیت کئی اہم معاملات زیر بحث آئے اور دونوں طرف سے باہمی تعلقات کو بہتر بنانے کے عزم کا اظہار کیا گیا۔ اگرچہ ان چند ملاقاتوں سے اتنی بڑی امید نہیں رکھی جا سکتی کہ دونوں ملکوں کے بیچ تمام اختلافات اب یکسر ختم ہوجائیں گے اور دونوں ملک باہمی تعاون کے ساتھ اپنے مشترکہ مسائل حل کرنے کی طرف بڑھیں گے اور نہ ہی یہ معاملات چند ملاقاتوں سے کسی کنارے لگ سکتے ہیں، تاہم اس امر میں دو رائے نہیں کہ ملاقاتوں اور روابط کی بحالی مسائل کے حل کے ہدف کی طرف پہلا قدم اور پہلی سیڑھی ہے۔ ملاقاتیں اور باہمی روابط یوں ہی برقرار و بحال رہے اور ان میں تسلسل آگیا تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ تمام مسائل پر امن طریقے سے باہمی اعتماد کی فضا میں حل ہوکر رہیں جو تلخی کے اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان سرحدی جھڑپوں اور سرحدی محافظوں کی جانب سے ایک دوسرے کی حدود میں گولہ باری تک نوبت جا پہنچی ہے۔ یہ امر باعث اطمینان ہے کہ دونوں طرف کی قیادت نے اعلیٰ سطحی وفود کے تبادلوں کو جاری رکھنے، مسائل کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے اور مشترکہ امن و ترقی کیلئے مل کر کام کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ کابل میں ہونے والی ان ملاقاتوں میں وہ شدید اختلافی امور بھی زیر بحث آئے، جو دونوں ملکوں کے درمیان مخاصمت کی فضا کو پروان چڑھانے کا سبب ہیں، چنانچہ وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کابل میں پریس کانفرنس کے دوران اس طرف اشارہ کرتے ہوئے واضح طور پر کہا کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کیخلاف استعمال نہیں ہونی چاہیے، ساتھ ہی انہوں نے یقین بھی دلایا کہ پاکستان کی سرزمین بھی افغانستان کیخلاف استعمال نہیں ہوگی۔

افغان مہاجرین کی واپسی کا معاملہ بھی دونوں ملکوں کے درمیان متنازع ہے، پاکستان نے کئی عشروں تک اپنی سرزمین پر افغان مہاجرین کی میزبانی کی ہے، اب جبکہ افغانستان میں، وہاں کے حکام کے بقول امن آچکا ہے، تو پاکستان یہ چاہتا ہے کہ مہاجرین واپس چلے جائیں اور امن کے سائے میں اپنے ملک کی تعمیر و ترقی میں کردار ادا کریں۔ ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ان مہاجرین کو پاکستان میں بے امنی اور دہشت گردی کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہ محض الزام نہیں، شواہد موجود ہیں کہ افغان مہاجرین پاکستان میں بے امنی، انتشار اور فساد میں ملوث پائے گئے ہیں، جس کے بعد پاکستان کیلئے مہاجرین کو اپنے ملک واپس بھجوانے کے اقدامات کرنا ناگزیر ہوگیا ہے، افغان حکام کو بھی پاکستان کی مجبوریوں کو سمجھنا چاہیے، جو ملک مشکل وقت میں خود کو مشکل میں ڈال کر عشروں تک ان مہاجرین کی میزبانی کرتا رہا، آج اگر وہ مزید یہ سلسلہ جاری نہیں رکھنا چاہتا تو اس کے مسائل و مشکلات کو سمجھنا چاہیے۔

اس کے ساتھ ساتھ خیبر پختونخوا کے مشیر اطلاعات بیرسٹر سیف کا ردعمل بھی قابل توجہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ خیبر پختونخوا جو اس وقت دہشت گردی کیخلاف فرنٹ لائن پر ہے، اسے وفاقی حکومت نے نظر انداز کیا، حالانکہ صوبائی حکومت نے تین ماہ قبل مذاکرات کیلئے اپنے ٹی او آرز ارسال کیے تھے۔ یہ ردعمل اپنی جگہ بجا ہے کیونکہ اگر مقصد قومی سلامتی، علاقائی استحکام اور دہشت گردی کا خاتمہ ہے تو تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لینا ناگزیرہے۔ افغانستان کے ساتھ بات چیت صرف وفاقی معاملہ نہیں، بلکہ براہ راست صوبوں اور خاص طور پر قبائلی علاقوں سے جڑا ہوا مسئلہ ہے۔ اگر ان علاقوں کو عمل سے الگ رکھا گیا تو یہ مذاکرات ادھورے، غیر مؤثر اور کمزور ہو سکتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر کے پی کے میں پی ٹی آئی کی بجائے ن لیگ کی حکومت ہوتی تو کیا تب بھی وفاقی کی لیگی حکومت اسے یوں اس مذاکراتی عمل سے باہر رکھتی؟ صاف ظاہر ہے کہ ایک قومی اور ریاستی معاملے میں بھی سیاسی مفاد کو ترجیح دی جا رہی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ قومی معاملات میں سیاست کو دور رکھنے کا حوصلہ پیدا کیا جائے۔ ساتھ ہی امر کی بھی ضرورت ہے کہ افغانستان کے ساتھ تمام معاملات میں امن اور بات چیت کو ترجیح بنایا جائے۔