پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زداری نے حیدر آباد میں ایک عوامی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے دریائے سندھ سے کینال نکالنے کے وفاقی حکومت کے منصوبے کوترک نہ کرنے کی صورت میں حکومت کا ساتھ چھوڑ نے کی دھمکی دے دی ہے اور کہا ہے کہ پانی کی تقسیم کا تنازع وفاق کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔دریں اثنا ء سندھ ہائی کورٹ میںدریائے سندھ سے نہریں نکالنے کے وفاقی حکومت کے منصوبے سے متعلق مقدمے کی سماعت کے دوران عدالت عالیہ نے وفاق اور سندھ حکومت سے کہا ہے کہ اس معاملے پر قومی اتحاد کو نقصان پہنچانے سے گریز کیا جائے۔
وطن عزیز پاکستان کا ایک بڑالمیہ یہ ہے کہ یہاں کی سیاسی جماعتوں اورسماجی طبقات میں قومی سوچ تاحال پختہ اور جاگزیں نہیں ہوسکی ہے اور صوبوں،مختلف لسانی و نسلی اکائیوں اورعوامی حلقوں کے درمیان باہمی اعتماد کی سطح بدقسمتی سے ابھی تک اتنی بلند نہیں ہوسکی ہے کہ اہم قومی مسائل ومعاملات میں اتفاق رائے اور یگانگت کا حصول بروقت ممکن ہو۔نتیجہ یہ ہے کہ ملک کی فلاح اور بہتری کے لیے کوئی اہم منصوبہ سامنے آتا ہے تو مختلف اطراف سے اس پر اعتراضات و اشکالات کا سلسلہ شروع کردیا جاتا ہے اور ایک ایسی لایعنی بحث شروع ہوجاتی ہے جو کسی انجام کو پہنچنے والی نہیں ہوتی اور منصوبہ وہیں کا وہیں رہ جاتا ہے۔پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے بے پناہ قدرتی وسائل سے نوازا ہے،ہمارے پاس سونا اگلتی زمینیں ہیں، سرسبز وشاداب وادیاں ہیں،بلندو بالا پہاڑ ہیں، پرشور دریا ہیں، گلیشیرز ہیں،معدنیات سے مالامال صحرا ہیں اور سمندر کے خزانوں اور آبی حیات سے بھرپورہزاروں کلومیٹر پر پھیلا ساحل ہے۔ دنیا میں چند ہی ایسے ممالک ہیں جن کو قدرت نے اتنے متنوع وسائل اتنی فیاضی اورفراوانی سے عطا کیے ہوں۔ اس کے باوجود آج اگر ہم قوموں کی برادری میں ایک محتاج،مقروض اور دریوزہ گر قوم کے طور پر جانے جاتے ہیں تو اس کی واحد وجہ یہی ہوسکتی ہے کہ ہم سے کوئی بڑی بھول ہوئی ہے۔
وہ قومی سوچ کے فقدان کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے۔اس کی ایک نمایاں مثال کالاباغ ڈیم کا منصوبہ ہے۔ جیساکہ گزشتہ سطور میں عرض کیا گیا،پاکستان میں پانی کے وسائل کی توکمی نہیں ہے تاہم پانی کا ذخیرہ کرنے کے لیے ڈیموں کی تعمیر کی ضرورت شروع دن سے مسلمہ رہی ہے۔اسی ضرورت کے تحت 60 کی دہائی میں پاکستان میں تربیلا ڈیم کا منصوبہ شروع کیا گیا جو اس وقت بھی ہماری پانی اور بجلی کی ضروریات کا ایک بڑا حصہ پورا کررہا ہے۔اسی زمانے میں مستقبل کی ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے کالاباغ کے مقام پر ایک اور بڑا ڈیم بنانے کا فیصلہ کیا گیا تھا،کالاباغ ملک کے تین صوبوں خیبرپختونخوا،پنجاب اور بلوچستان کے سنگم پر واقع ہونے اور پانی کا بہت بڑا ذخیرہ کرنے کی استعداد رکھنے کی وجہ سے ڈیم کی تعمیر کے لیے موزوں تریں مقام ہے،یہی وجہ ہے بہت سے ملکی و غیر ملکی ماہرین نے اسے پاکستان کے لیے گیم چینجر منصوبہ قرار دیا تھا جس کی تکمیل کی صورت میں لاکھوں ایکڑ بنجراراضی سیراب ہونے کے علاوہ ملکی ضرورت سے زائد مقدار میں بجلی کا حصول بھی ممکن تھا۔یہ منصوبہ اگر قومی اتفاق رائے سے شروع کرکے بروقت پایہ تکمیل تک پہنچایا جاتا تو شاید آج پاکستان کا نقشہ ہی کچھ اور ہوتا۔
مگر افسوس کہ کچھ ہمارے ارباب اختیار کی بے تدبیری اور کچھ اہل سیاست کی کوتاہ نظری کے باعث یہ اہم ترین قومی منصوبہ منفی سیاست کی نذر ہوگیا۔ قومی سوچ کے فقدان اور صوبوں کے درمیان اعتماد کے بحران کے باعث خیبر پختونخوا اور سندھ میں اس منصوبے کے بارے میں غلط فہمیاں پیدا ہوگئیں ،قوم پرست سیاست دانوں نے ان غلط فہمیوں کو اپنی سیاست چمکانے لیے استعمال کیا اور ایسا ماحول بنادیا گیا کہ پھر کالاباغ ڈیم کا نام لینا بھی مشکل ہوگیا اور یہ منصوبہ سرد خانے کی نذر ہوگیا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو آج کم از کم پانی کی قلت اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا وہ عذاب تو نہ ہوتا جس میں قوم آج مبتلا ہے۔کئی دہائیاں ضائع کرنے کے بعد جنرل پرویز مشرف کی حکومت میں دیامر بھاشا ڈیم منصوبے پر کام شروع کیا گیا مگر دیامر کے دور افتادہ علاقے میں شروع کیا گیا یہ منصوبہ اتنا مہنگا اور تکنیکی اعتبار سے مشکل ہے کہ آج بھی اس کے لیے وسائل مہیا کرنا اور متاثرین کو معاوضوں کی ادائیگی اور تنازعات کا خاتمہ حکومت کے لیے درد سر بن چکا ہے۔
گزشتہ چند برسوں کے دوران ملک کی سیاسی و عسکری قیادت طویل غروخوض کے بعد اس نتیجے پر پہنچ چکی ہے کہ پاکستان کو دفاعی طور پر مستحکم کرنے کے لیے ملک میں معاشی و اقتصادی استحکام لانا ناگزیر ہے۔ اس مقصد کے لیے جہاں ملک میں بیرونی سرمایہ کاری لانے کے لیے اہم اقدامات کیے گئے ہیں جن کے نتیجے میں پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری کے حجم میں قابل لحاظ اضافہ ہوگیا ہے ،وہیں یہ بھی طے کیا گیا ہے کہ پاکستان کے اپنے قدرتی وسائل کو بھی بروئے کار لایا جائے گا اور ایسے منصوبے شروع کیے جائیں گے جن کی مدد سے ہم بیرونی امداد اور قرضوں کی بجائے اپنے وسائل پر انحصار کرکے آگے بڑھ سکیں۔ اس ضمن میں ایک طرف پاکستان کے مختلف حصوں میں موجود اربوں ڈالرز کے معدنی ذخائر کو نکالنے اور ملکی ترقی کے لیے بروئے کار لانے کے لیے بین الاقوامی کمپنیوں کو ملک میں سرمایہ کاری کی دعوت دی جارہی ہے تو دوسری جانب پاکستان میں لاکھوں ایکڑ بنجر اراضی کو قابل کاشت بناکر ملک کی زرعی پیداوار میں خاطر خواہ اضافے کا منصوبہ بھی بنایا گیا ہے۔ بدقسمتی سے یہ دونوں اہم قومی منصوبے بھی تنازعات کی زد میں ہیں۔
معدنیات کے معاملے پر بین الاقوامی کمپنیوں کے ساتھ معاہدوں اور دیگر قانونی ایشوز کے حل کے لیے وفاق اور صوبوں میں قانون سازی ناگزیر ہے ،اس سلسلے میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو باہمی مشاورت سے اور دیگر متعلقہ حلقوں کو اعتماد میں لاکر متفقہ قانون سازی کرنی چاہیے مگر افسوس کہ ایسا نہیں ہورہا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کچھ سیاسی حلقے اسے محض سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔اسی طرح دریائے سندھ سے چولستان کے زرعی منصوبے کے لیے کینال نکالنے کے منصوبے پر بھی اچھی خاصی سیاست ہورہی ہے،معاملے کو سنجیدہ گفت و شنید کے ذریعے حل کرنے کی کوئی کوشش نظر نہیں آتی۔ سادہ سی بات ہے کہ صوبوں کے در میان پانی کی تقسیم کا ایک طے شدہ فارمولا موجود ہے،اس فارمولے کے مطابق سندھ کے حق کا تحفظ یقینی بناکر پنجاب اپنے حصے سے کوئی بھی آبی منصوبہ بناسکتا ہے۔جیساکہ سندھ ہائی کورٹ نے بھی ہدایت کی ہے، وفاق اور سندھ کو مل بیٹھ کر اس معاملے میں انصاف اور قومی مفاد کے تقاضوں کو سامنے رکھ کر فیصلہ کرنا چاہیے اور کسی کی حق تلفی ہونی چاہیے نہ ملک کے وسیع تر مفاد پر کوئی سمجھوتا کیا جانا چاہیے۔