عالمی تعلقات میں بہتری کیلئے مثبت کوششیں

مختلف ذرائع ابلاغ سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق پاکستان نے فعال سفارت کاری سے کام لیتے ہوئے علاقائی ممالک کے ساتھ خوش گوار تعلقات اور مستحکم روابط قائم کرنے کی کوششیں تیز کردی ہیں۔ اس سلسلے میں اہم پیش رفت یہ ہے کہ نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار وزیرِ خارجہ کی حیثیت سے آئندہ چند دنوں میں افغانستان کا دورہ کرنے والے ہیں۔

خبروں کے مطابق وزیر خارجہ کا یہ دورہ ان سفارتی کوششوں کے نتیجے میں ممکن ہوا ہے جو کالعدم ٹی ٹی پی کے حوالے سے پاکستان کے موقف پر سنجیدگی اختیار کرنے کے لیے کئی ماہ سے جاری تھیں، اس سلسلے میں پاکستان کے نمائندہ صادق محمد خان کی کوششوں کی ستائش کی جارہی ہے جنھوں نے کشیدہ تعلقات کے باوجود افغان عبوری حکومت کے اہم ارکان کے ساتھ گفتگوکی کوششیں جاری رکھیں۔ خبروں کے مطابق کابل کے بعد وزیر خارجہ ڈھاکہ بھی جائیں گے۔

پڑوسی اور علاقائی ممالک کے ساتھ برادرانہ، دوستانہ اور ہم سائیگی کے ساتھ ساتھ اخوت، انسانی ہمدردی اور امن و سلامتی کے قیام کے لیے روابط قائم رکھنا ایک مسلم ریاست کے تشخص کے لیے اہمیت رکھتاہے۔ یہ ضروری ہے کہ اس ضمن میں ریاستوں کے مابین محض مفادات کی خاطر تعلق کے خود غرضی اور جدید معاشی رویوں کے حامل نظریے سے بالا تر ہوکر کردار ادا کرنے کی کوشش کی جائے کیوں کہ انسانی تعلق مادی مفادات سے زیادہ اہمیت رکھتاہے، اس حوالے سے افغانستان اور بنگلہ دیش جیسی مسلم ریاستوں کے ساتھ پاکستان کے تعلقات میں بہتری یقینا خوش آئند امر ہے۔ ماضی میں افغانستان اور بنگلہ دیش کے ساتھ پاکستان کے مراسم زیادہ خوش گوار نہیں رہے۔ اس کی وجوہ خواہ کچھ بھی ہوں لیکن موجودہ حالات اس امر کے متقاضی ہیں کہ یہ تینوں مسلم ریاستیں خطے میں موجود ایک تنگ نظر، توسیع پسندانہ عزائم کی حامل اور شدید مذہبی تعصب کا شکار ریاست کے خطرناک عزائم سے خود کو محفوظ رکھنے کے لیے باہمی اتحاد کی ضرورت او ر اہمیت پر توجہ دیں۔ اس خطے میں بسنے والے پچاس کروڑ سے زائد مسلمانوں کے لیے اس سے زیادہ افسوس ناک بات کیا ہوگی کہ ان کی سیاسی کمزوریوں کا فائدہ ایک ایسی ریاست اٹھائے جو برہمن انتہا پسند گروہوں کے ہاتھوں میں یرغمال بن چکی ہے اور مشرکانہ تہذیب کو بزور قوت نافذ کرنے کی آرزو مند یہ ریاست قریبی مسلم ممالک کے باہمی اختلافات کا فائدہ اٹھا کر انھیں باہم دست و گریباں رکھے اور اپنی توسیع پسندانہ پالیسیوں کو عمل میں لاتی رہے۔

جارحیت پر مشتمل بھارتی عزائم کے راستے میں پاکستان کی دفاعی قوت ایک ناقابلِ تسخیر چٹان کی صورت موجود ہے لیکن داخلی تنازعات اور مسلم ریاستوں کے باہمی ٹکراؤ سے جس طرح آج تک دشمن طاقتوں نے اپنے مفادات حاصل کیے ہیںجن کی مثالیں فلسطین، عراق، لیبیااور شام سے دی جاسکتی ہیں، بالکل اسی طرح جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کی آزادی اوران کے عقیدے و نظریے اور طرز حیات اور تشخص کو بھارتی عزائم سے خطرات لاحق ہیں جن کا مقابلہ مل جل کر ہی ممکن ہے۔ اس تمام تناظر میں پاکستان کی موجودہ سیاسی حکومت کی جانب سے افغانستان کے ساتھ روابط قائم رکھنے کی مسلسل کوششوں اور بنگلہ دیش کے ساتھ تعلقات کی بحالی اور گرمی جوش روابط میں کامیابی ایک قابلِ ستائش امر ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق افغانستان کی جانب سے پاکستان کے موقف پر سنجیدگی کے ساتھ غور کرنے کا حوالہ دراصل اس بات کی علامت ہے کہ افغان عبوری حکومت کو بھی ٹی ٹی پی یا فتنہ ٔ خوارج کی غیر شرعی، غیر دانش مندانہ اور خلاف ِ مصلحت سرگرمیوںکا کچھ احساس ہوچکاہے۔ تجزیہ کاروں کے خیال میںاس تبدیلی کی ایک وجہ جہاں چین کا دباؤ ہوسکتاہے وہاں روس بھی اس موقع پر یہ بات پسند نہیں کرے گا کہ وسطِ ایشیا کی راہدری شمار ہونے والے افغانستان میں امریکا کو ایک مرتبہ پھر قدم جمانے کے مواقع میسر آجائیں جو ٹی ٹی پی یا دیگر مسلح گروہوں کو امریکی اسلحے کی فراہمی کی وجہ سے ممکن سمجھا جا رہا تھا۔

افغان عبوری حکومت کے رویے میں تبدیلی کی ایک وجہ پاکستان کی جانب سے غیر قانونی طورپر مقیم افغان مہاجرین کی بے دخلی کی حکمتِ عملی بھی ہے کیوں کہ اس کے بعد ہی افغان حکام کو اندازہ ہوا کہ وہ علاقائی ممالک کے ساتھ تصادم کی پالیسی اختیار کرکے زیادہ دیر تک اپنے داخلی معاملات کو متوازن نہیں رکھ پائیں گے۔ صورتِ حال جو بھی ہو لیکن دونوں پڑوسی ملکو ں کے درمیان منجمد تعلقات میں حرارت نمودار ہونا خوش آئند ہے اور یہ سلسلہ آگے بڑھنا چاہیے تاکہ ایک دوسرے کے موقف پر ہمدردانہ غور و فکر اور مل جل کر اپنے عوام کے مسائل کو حل کرنے اور امن اور سلامتی کے ماحول کو یقینی بنانے کا سلسلہ شروع کیا جاسکے۔ بات چیت، مذاکرات، سہ فریقی اور کثیر فریقی تعلقات جیسے اقدامات سے دونوں پڑوسی ملکوں کے درمیان پیدا ہونے والے خدشات کم ہوںگے، اگر افغان حکومت اپنے وعدے کے مطابق اپنے ملک کی سرزمین کو پاکستان یا کسی بھی دوسرے ملک کے لیے استعمال ہونے سے روکنے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو پاکستان کے لیے خطرہ بننے والے بہت سے عوامل یعنی دہشت گردی، انارکی، علیحدگی پسندی وغیرہ کم ترسطح پر پہنچ جائیں گے اور پاکستان کو بھی افغان حکومت کے داخلی مسائل کے حل میں کچھ کردار ادا کرنے کا موقع مل سکے گا۔

آنے والے مہینوں میں دونوں پڑوسی اور برادر ملکوں کے درمیان تجارتی اور دیگر پہلوؤں پر مشتمل تعلقات میں بہتری کا پیمانہ دراصل فتنہ ٔ خوارج اور ٹی ٹی پی جیسی تنظیموں کے بارے میں افغان قیادت کے ردعمل پر مبنی ہوگا۔ اگر افغان حکام نے خلوص دل کے ساتھ پاکستان کیلئے پیدا ہونے والے ان مسائل پر قابو پانے کی کوشش کی جو ان کے دائرۂ اختیار میں ہیں، مثلا ً دہشت گرد گروہوں اور مسلح تنظیموں سے اسلحہ واپس لے لیا جائے اور انھیں اپنے ملک میں کیمپ اور اڈے بنانے سے روک دیا جائے تو پاکستان کی جانب سے بھی کشادہ دلی اور باہمی تعاون میں اضافے اور ویزوں میں سہولت جیسے ردعمل کا مظاہرہ کیاجائے گا، بصورت دیگر یہ با ت واضح ہوجائے گی کہ افغان عبوری حکومت خطے میں قیامِ امن سے متعلق اپنے وعدوں میں سنجیدہ نہیں ہے۔ ایک ایسے وقت میں جبکہ غزہ جیسی صورتحال سے دوچار امت مسلمہ کو باہمی اتحاد اور تنظیم کی اشد ضرور ت ہے، مسلم ریاستوں کو اپنی حقیقی ذمہ داریوں کا احساس کرنا چاہیے۔ دانش مندی اور اخوت پر مشتمل سفارت کاری کی کوششیں کامیاب ثابت ہوئیں تو اس کا فائدہ تمام عالم ِ اسلام کو ہوسکتاہے۔