غلط معلومات کے پھیلاؤ کا سدباب ضروری ہے

نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے وفاقی دار الحکومت اسلام آباد میں منعقد ہونے والی اقوام ِ متحدہ امن مشن دو روزہ وزارتی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ غلط معلومات کا پھیلاؤ عالمی امن کے لیے بڑا خطرہ بن چکاہے۔ پاکستان اور جمہوریہ کوریا کی شراکت داری سے منعقد ہونے والی ا من کانفرنس میں نائب وزیر اعظم نے مسئلۂ کشمیر کے حل کو عالمی امن کے لیے ضروری قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی کے فوجی دستے اقوامِ متحدہ کے امن پروگرام کے تحت دنیا کے مختلف مقامات پر قیام ِامن کی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں اور پاکستان عالمی تنظیم کے چارٹر کے مطابق دنیا میں امن کے قیام کے لیے کردار ادا کرنے کی خاطر بالکل تیار ہے۔

جہاں تک غلط معلومات کے پھیلاؤ سے عالمی امن کو لاحق خطرات کا تعلق ہے تو یہ بات بلاشبہ درست ہے تاہم دیکھنا یہ ہے کہ غلط معلومات کی وجہ سے حالیہ تاریخ میں دنیا کے کن ممالک کو خطرات لاحق ہوئے ہیں اور وہ کون سے عناصر اور طاقتیں ہیں جو دوسروں کے لیے خطرات اور تباہی کا سبب ثابت ہوئے۔ ؟ معاصر تاریخ کا جائزہ لینے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ امریکا نے سن دو ہزار تین میں بے بنیاد الزامات، غلط معلومات اور گمراہ کم اعداد و شمار پر مشتمل رپورٹوں کو جواز بنا کر عراق پر حملہ کیا اور ایک ہنستے بستے ملک کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ امریکی حملے کے نتیجے میں عراق کے اندر لاکھوں لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، لاکھوں افراد زخمی یا لاپتہ ہوگئے۔ عراق کی معیشت تباہ ہوگئی۔ ملک بدترین خانہ جنگی کا شکار ہوا اور سب سے زیادہ ظلم کا شکار خواتین اور بچے ہوئے۔ یہی کھیل بعد ازاں دیگر عرب ریاستوں میں بھی کھیلا گیا۔ امریکا نے غلط معلومات کی بنیاد پر پیشگی حملے کا اختیار از خود حاصل کرلیا اور یوں طاقت ور ریاستوں کو کمزور اقوام پر جارحیت کا کھلا پروانہ دے دیا گیا جو کہ عالمی قوانین کی خلاف ورزی تھی لیکن امریکی جارحیت نے ثابت کیا کہ عالمی قوانین ہوں یا اقوام کے درمیان طے شدہ کوئی بھی ضابطہ ہو، طاقت بہرحال خود کو منوانے یا مفادات کو حاصل کرنے کے لیے کسی بھی قانون اور ضابطے کو اڑا سکتی ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق امریکا کے اسی کردار سے فائدہ اٹھاتے ہوئے روس نے یوکرین کے خلاف جارحیت کو جواز فراہم کیا اور سن دو ہزار تیئس میں یوکرین کی جانب پیش قدمی شروع کی یوں دنیا ایک نئی جنگ کا شکار ہوئی جو کہ تاحال جاری ہے۔ غلط معلومات کئی ملکوں میں خانہ جنگی کا باعث بنی ہیں۔

ان واقعات سے اندازہ کیا جاسکتاہے کہ طاقت معلومات کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال بھی کرتی ہے اور غلط معلومات، افواہوں اور بے بنیاد قیاس آرائیوں کی وجہ سے معاشرے میں ردعمل، اشتعال اور فساد بھی برپا ہوتاہے۔ غور کیا جائے تو خود پاکستان بھی گزشتہ دو دہائیوں سے ایسے ہی حالات کا شکار ہے۔ دو ہزار تیرہ سے ملک میں برپا ہونے والے سیاسی خلفشار میں معلومات کے غلط ا ستعمال کوبنیادی سبب کا درجہ دیا جاسکتاہے۔ پروپیگنڈے، انفارمیشن وار یا پانچویں کالم کی جنگ جو کہ بالواسطہ لڑائیوں کا منظم اور فعال ہتھیار بن چکاہے، پاکستان میں فعال اور منظم انداز میں استعمال کیا گیاہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت پاکستانی معاشرے کی اندرونی سطحوں میں اشتعال سلگ رہا ہے اور ملک دشمن قوتیں ان جذبات کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔

ان حالات میں ملک کے نائب وزیر اعظم کی جانب سے معلومات کے غلط استعمال کو عالمی امن کے لیے خطرناک قرار دینا بے محل نہیں ہے کیوں کہ پاکستان ایک حساس خطے میں واقع ہے جہاں دو جوہری قوتیں ہمہ وقت آمنے سامنے ہیں۔ بالکل قریب ہی ایران جوہری ہتھیاروں کی تیاری کے قریب پہنچ چکاہے جبکہ افغانستان میں متعدد دہشت گرد، امن دشمن اور خارجی نظریات کی حامل تنظیمیں خطے کے امن کو تباہ کرنے کے لیے تیار بیٹھیں ہیں جن پر افغان عبوری حکومت کا کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ ان حالات میں سماجی روابط کے جدید ذرائع کی مدد سے پھیلائی جانے والی اطلاعات کس قدر خطرناک اور معاشرے کے امن کے لیے تباہ کن ثابت ہوسکتی ہیں ؟ یہ کسی بھی ذی شعور سے مخفی نہیں ہوسکتا۔

اطلاعات اور افواہوں کے معاشرے پر منفی اور زہریلے اثرات کو دیکھتے ہوئے قرآن کریم اور سنت ِ مبارکہ سے ملنے والی واضح ہدایات کو ہمیں پیش ِ نظر رکھنا چاہیے کیوں کہ قرآن و سنت کی تعلیمات پر عمل ہی مسلم معاشرے میں امن اور استحکام کا باعث ہوسکتاہے۔ ایک روز قبل ہی ملک کے سپہ سالار جنرل سید عاصم منیر نے ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے قرآن کریم کی اسی آیتِ مبارکہ کا حوالہ دیا جس میں ہدایات دی گئی ہے کہ ایمان والوں کو کسی فاسق کی جانب سے ملنے والی خبر کی تصدیق کیے بغیر اسے آگے نہیں پھیلانا چاہیے۔ اسی طرح ایک حدیث مبارک میں جھوٹی خبر کو بلا تصدیق آگے پھیلانا کسی انسان کے جھوٹے ہونے کے لیے کافی قرار دیا گیاہے، تاہم بدقسمتی سے معاشرے کاعمومی رویہ یہی دیکھا جارہاہے کہ لوگ کسی خبر کی تصدیق سے زیادہ اسے آگے پھیلانے میں دل چسپی رکھتے ہیں اور اس ضمن میں میڈیا بھی بعض اوقات غیر ذمہ دارانہ کردار ادا کرتاہے۔

ان حالات و واقعات کو دیکھتے ہوئے ضرورت اس امر کی ہے کہ معاشرے کو خبروں کی اشاعت اور تجزیوں اور تبصروں کے حوالے سے محتاط رہنے کی تلقین کی جائے اور رائے کی آزادی کے مطلق تصور کو معاشرے کے استحکام کے لیے غلط قرار دیاجائے کیوں کہ یہ کوئی انسانی حق نہیں بلکہ الٹا انسانی شرف، تکریم بنی آدم اور عزت و ناموس کے لیے مضمرات کا حامل نظریہ ہے جس کی اصلاح ضروری ہے۔ اس وقت میڈیا اور تعلیمی اداروں کو اس امر کا پابند کیا جانا چاہیے کہ وہ خبروں، تجزیوں اور تبصروں میں احتیاط، عزت نفس، تکریم آدم اور احترام انسانیت کے اصولوں کو پیش ِ نظر رکھیں۔ ابلاغی جنگ کے دور میں چوں کہ اطلاعات کو جنگی مقاصد کے لیے بھی استعمال کیا جارہاہے اس لیے ملک کے سپہ سالار کی جانب سے دی گئی ہدایات کو بھی اسی تناظر میں ملحوظ رکھنا ضروری ہے کیوں کہ ملک دشمن قوتیں یا عالمی طاقتیں دراصل کسی بھی ملک کے دفاع اور استحکام ہی کو اول مرحلے پر نشانہ بنانے کی کوشش کرتی ہیں۔ عراق اور لیبیا میں ہونے والی تباہی کا آغاز معلومات اور اطلاعات کے گمراہ کن استعمال ہی سے ہوا تھا۔ ان حالات میں ملک کے نایب وزیر اعظم کا انتباہ صرف لفظی بیان نہیں بلکہ ایک حقیقت کی جانب اشارہ ہے۔ اقوامِ متحدہ اس ضمن میں کوئی کردار ادا نہیں کرسکتی لیکن من حیث القوم ہمیں ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔