پاکستان اس وقت جن چیلنجز سے دوچار ہے، ان میں دہشت گردی، سیاسی عدم استحکام، قومی وحدت کی کمی اور معاشی دباؤ سرفہرست ہیں۔ ایسے نازک حالات میں کسی بھی مثبت پیش رفت کو نظرانداز کرنا ممکن نہیں۔ گزشتہ حکومت پاکستان کی جانب سے پہلا اوورسیز پاکستانیز کنونشن کا انعقاد ایک خوش آئند قدم ہے، جو نہ صرف اوورسیز پاکستانیوں کی خدمات کا اعتراف کا مظہر ہے، بلکہ قومی اتحاد اور ہم آہنگی کے قیام کی ایک سنجیدہ کوشش بھی ہے۔
کنونشن سے وزیر اعظم پاکستان اور آرمی چیف نے بطور خاص خطاب کیا اور موجودہ قومی منظرنامے کو سامنے رکھتے ہوئے فکر انگیز باتیں کیں۔ انہوں نے اوورسیز کی خدمات کے اعتراف کے ساتھ موجودہ حالات میں ملک کو درپیش معاشی، سماجی، سیاسی اور بین الاقوامی چیلنجوں اور حکومتی و ریاستی کوششوں کا ذکر کیا اور انہیں حالات کے قومی تقاضوں کی طرف متوجہ کیا۔
اس میں شک نہیں کہ آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے اس موقع پر جو باتیں کیں، وہ صرف خطاب نہیں بلکہ قومی بیانیے کی تشکیل اور ایک اجتماعی سوچ کی ترجمانی تھی۔ انہوں نے واضح الفاظ میں کہا کہ پاکستان کے دشمنوں کا خیال ہے کہ مٹھی بھر دہشت گرد پاکستان کی تقدیر کا فیصلہ کر سکتے ہیں، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ دہشت گردوں کی دس نسلیں بھی نہ بلوچستان اور نہ ہی پاکستان کا کچھ بگاڑ سکتی ہیں۔ سپہ سالار کا یہ غیر متزلزل عزم نہ صرف حوصلہ افزا ہے بلکہ قوم کو ایک نیا اعتماد دینے والا ہے۔ ان کا یہ کہنا بھی معنی خیز تھا کہ جو پاکستان کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنے گا، ہم مل کر اسے ہٹا دیں گے۔ یہ پیغام صرف بیرونی دشمنوں کیلئے نہیں بلکہ اندرون ملک ان عناصر کیلئے بھی ہے جو قومی مفاد کے مقابل ذاتی یا پارٹی و گروہی مفادات کو ترجیح دیتے ہیں اور اپنے اقتدار اور سیاسی مقاصد کیلئے ریاست کو بھی نقصان پہنچانے سے گریز نہیں کرتے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے بھی اپنے خطاب میں موجودہ حالات میں قومی اتحاد و یگانگی کی اہمیت و ضرورت کو اجاگر کیا۔ انہوں نے کھلے دل سے اوورسیز پاکستانیوں کی خدمات کو سراہا اور انہیں ”ہمارے سروں کا تاج” تک کہہدیا۔ ان کی طرف سے یہ اعلان کہ ہر سال پندرہ اوورسیز پاکستانیوں کو سول ایوارڈ دیا جائے گا، یقینا ایک حوصلہ افزا اقدام ہے۔ انہوں نے اوورسیز پاکستانیوں سے اپیل کی کہ وہ ملک کیخلاف زہریلا پروپیگنڈا کرنے والوں کو بے نقاب کریں۔ یہ واضح ہے کہ وطن سے دوری کے باعث بیرون ملک پاکستانی منفی پروپیگنڈے سے متاثر ہو جاتے ہیں، ایسے میں انہیں حقیقی صورتحال سے آگاہ کرنا ضروری ہے اور اس کنونشن کا مقصد بھی یہی تھا۔
بدقسمتی سے گزشتہ چند برسوں میں پاکستان سیاسی کشمکش اور انتشار کی ایسی دلدل میں دھنستا چلا گیا ہے، جہاں قومی یکجہتی، تحمل اور مفاہمت جیسے الفاظ بے معنی ہو چکے ہیں۔ اقتدار کی جنگ، ایک دوسرے پر الزام تراشیوں اور نفرت انگیز بیانیوں نے معاشرے کو بری طرح تقسیم کرکے رکھ دیا ہے۔ کہنے کو ہم ایک قوم ہیں، مگر حقیقت کی نگاہ سے دیکھا جائے تو ایسی کوئی علامت دکھائی نہیں دیتی، جو ہمیں ایک قوم ثابت کرے، سیاست، مذہب، مسلک، قوم، نسل اور زبان کی بنیاد پر اس قدر دراڑیں ہیں کہ قومی اتحاد پارہ پارہ دکھائی دیتا ہے۔ تمام سیاسی، مذہبی، لسانی طبقات ایک دوسرے کی طرف پشت پھیرے ہوئے ہیں اور سب کو اگر کوئی فکر ہے تو ”اپنے حقوق” کی ہے۔ کسی ایک کو بھی ”اپنے فرائض” یاد نہیں۔ حکومت ہو یا اپوزیشن یا اس قوم کا کوئی بھی دوسرا طبقہ، ہر ایک یہی سمجھتا ہے کہ فرض اور ذمے داری اگر کوئی ہے تو مخالف کی ہے، اس کے بس حقوق ہیں، جو نہیں دیے جا رہے۔ یہ رویہ بڑے پیمانے پر اصلاح احوال کا متقاضی ہے۔ ان حالات میں اوورسیز کنونشن کا انعقاد ایک محدود پیمانے پر اور قوم کے ایک خاص حصے کے حوالے سے سہی، ایک مثبت اور قابل تحسین کوشش ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسی کوششوں کا دائرہ قوم کے مختلف طبقات تک درجہ بہ درجہ پھیلایا جائے اور سب کو ایک ہی قوم کے افراد کی نگاہ سے دیکھا جائے اور جس کسی کو جائز شکایات ہیں، انہیں دور کرنے کی کوشش کی جائے اور سب کو حقوق کے ساتھ ساتھ اپنے قومی و ملی فرائض و ذمے داریوں کا بھی پاس و لحاظ رکھنا چاہیے۔
یہ حقیقت ہے کہ اوورسیز پاکستانی ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کی ترسیلات زر ہر سال اربوں ڈالر ملک کے خزانے میں منتقل کرتی ہیں، لیکن بدلے میں انہیں اکثر نظرانداز کیا جاتا ہے۔ ان کے مسائل، قانونی پیچیدگیاں، جائیدادوں پر قبضے، سفارتی تعاون کی کمی جیسے سنگین مسائل کو اکثر حکومتیں سنجیدگی سے نہیں لیتیں، ایسے میں موجودہ حکومت کا یہ اقدام، جس میں اوورسیز پاکستانیوں کو بلا کر ان کی حوصلہ افزائی کی گئی، ان کے جذبات کی قدر کی گئی اور مسائل کے حل کا وعدہ کیا گیا، بلاشبہ ایک قابل تحسین اقدام ہے، تاہم قومی یکجہتی صرف جلسوں، تقریروں یا کانفرنسوں سے قائم نہیں ہوتی۔ اس کیلئے رویوں کی تبدیلی، سیاسی بالغ نظری اور سب کو ساتھ لے کر چلنے کے جذبے کی ضرورت ہے۔ حکومت ہو یا اپوزیشن، دونوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ قوم کے مشترکہ مفادات پر سیاست نہیں ہونی چاہیے۔ یہ طرزعمل نہ صرف قومی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے بلکہ اس سے بیرونی دشمن کے عزائم کو بھی تقویت ملتی ہے۔
آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم بطور قوم اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں۔ اختلاف رائے کو دشمنی کی حد تک لے جانے کی بجائے، اسے سننے اور سمجھنے کی روایت کو فروغ دیں۔ حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ ہر معاملے پر اپوزیشن کو الزام دینے کی بجائے اپنی اصلاح پر بھی توجہ دے۔ ایک دوسرے کیخلاف سیاسی بیانات کی تحدید ہونی چاہیے، سیاست اور سیاسی بیان بازی صرف انتخابی مہم کے دوران ہونی چاہیے۔ یہ وقت ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں بشمول حکومت بالغ نظری کا مظاہرہ کرکے سیاسی بیان بازیوں کو انتخابی مہم تک محدود کرنے پر اتفاق کریں اور انتخابات کے بعد سب کو مل کر اپنے اپنے دائرے میں ملک و قوم کی خدمت میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی روایت کو فروغ دیں۔ ورنہ ہر وقت سیاسی اختلاف اور سیاست کرنے کی روش ملک و قوم کو مزید نقصان پہنچائے گی، جس کے ہم متحمل نہیں ہیں۔ ملک کو اس وقت ایسے بیانیے کی ضرورت ہے جو نفرت کو نہیں، محبت کو فروغ دے، جو تقسیم کو نہیں، اتحاد کی راہ ہموار کرے۔ آج اگر ہم نے بحیثیت قوم اتحاد و یکجہتی کو اپنا شعار بنا لیا، تو کوئی دشمن ہمارے سامنے ٹھہر سکتا ہے اور نہ ہی کوئی طاقت ہمیں ترقی و خوشحالی کی منزل سے دور رکھ سکتی ہے۔