نئے بجٹ میں عوام کو ٹھوس ریلیف دیں

مالی سال 2025ـ26 کے بجٹ میں ٹیکس ریونیو بڑھانے کے لیے کھانے پینے کی متعدد اشیاء مہنگی ہونے کا امکان ہے۔ ذرائع کے مطابق سافٹ ڈرنکس، میٹھے مشروبات، جوسز، کاربونیٹڈ سوڈا واٹر، اضافی فلیور یا نان شوگر سویٹس مہنگے ہوسکتے ہیں۔ان اشیا پر ٹیکس ڈیوٹی 20 فیصد سے بڑھا کر 40 فیصد کرنے کی تجویز ہے۔ جوس یا پلپ سے تیار ہونے والے کاربونیٹڈ واٹر، سیرپ، اسکواشز وغیرہ شامل ہیں۔ دودھ سے بنی صنعتی مصنوعات پر بھی 20 فیصد ٹیکس لگانے کی تجویز ہے۔ ساسیجز، خشک، نمکین یا اسموکڈمیٹ سمیت گوشت کی اشیاء مہنگی ہونے کا امکان ہے۔ اگلے 3 سال میں ان اشیاء پر ٹیکس کی شرح میں بتدریج 50 فیصد اضافے کا امکان ہے۔ ذرائع کے مطابق رواں مالی سال کے مقابلے نئے مالی سال دفاعی بجٹ میں 7.49 فیصد اضافے کا تخمینہ ہے۔

ادھرگورنراسٹیٹ بینک جمیل احمد نے بھی مہنگائی بڑھنے کی رفتار میں اضافے کی پیش گوئی کرتے ہوئے کہا ہے کہ آئندہ ماہ سے افراطِ زر میں اضافہ ہوگا۔ کراچی میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ مارچ 2025ء میں ہم نے 0.7 فیصد کی کم ترین سطح پر افراطِ زر دیکھی تاہم آئندہ ماہ سے افراطِ زر میں اضافہ ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ مالی سال 25ء کے اختتام تک جی ڈی پی نمو 2.5 سے 3.5 فیصد رہے گی، زرعی ترقی بہتر رہی تو معاشی نمو 4.2 فیصد تک ہوسکتی ہے۔

حکومت کی جانب سے ا نے والے بجٹ میں کھانے پینے کی متعدد اشیاء پر ٹیکس لگانے کا عندیہ اور گورنر اسٹیٹ بینک کی جانب سے ملک میں مہنگائی اور افراط زر بڑھنے کے خدشے کا اظہار پاکستان کے عوام کے لیے تشویش اور مایوسی کا باعث ہے جو آنے والے بجٹ میں حکومت سے بڑے ریلیف کی توقع لیے بیٹھے ہیں۔ ایک ایسے وقت میں جبکہ حکومت کے دعوؤں کے مطابق ملکی معیشت بہتر ی کی طرف گامزن ہوچکی ہے، تمام معاشی اشاریے مثبت رخ دکھا رہے ہیں ، تازہ اطلاعات کے مطابق بین الاقوامی ریٹنگ ایجنسی فچ نے پاکستان کی ریٹنگ مزید بہتر کردی ہے ،علاوہ ازیں حکومت نے حالیہ عرصے میں قوم کے کھاتے پر اربوں ڈالرز کے قرضے بھی لے رکھے ہیں، ملک میں بیرونی سرمایہ کاری میں اضافے کی نوید سنائی جارہی ہے اور تازہ اطلاعات کے مطابق بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے رواں سال مارچ کے مہینے میں تاریخی مالیت کی ترسیلات وطن بھیجی ہیں۔ مارچ میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے 4.1 ارب ڈالر کی ترسیلات موصول ہوئیں جو ایک ریکارڈ ہے۔رواں مالی سال جولائی تا مارچ مجموعی طور پر 28 ارب ڈالر کی ترسیلات موصول ہوچکی ہیں۔ پھر عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں حالیہ عرصے کی کم ترین سطح پر آچکی ہیں جس کے بعد حکومت نے تیل کی قیمتوں میں معمولی سی کمی کی ہے البتہ بجلی کی قیمتوں میں حکومت قدرے معقول کمی کرچکی ہے۔

اس سارے پس منظر کا توتقاضا یہ ہے کہ ملک میں مہنگائی کی زمینی صورت حال میں بھی واضح کمی دیکھنے کو ملے، مگر بد قسمتی سے عملاًایسا نہیں ہوا ہے،دو روز قبل خود وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب یہ اعتراف کرچکے ہیں کہ حکومت کے تمام تر اقدامات کے باوجود مارکیٹ میں اشیاء صرف کی قیمتوں میں کوئی قابل ذکر کمی نہیں ہوئی۔ اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ آٹے کی قیمت میں خاصی کمی ہونے کے باوجود ملک کے بیشتر شہروں میں روٹی کی قیمت میں کمی نہیں ہوئی، چینی کے نرخ میں اضافہ ہی ہوا ہے، پھلوں اور سبزیوں کا بھی یہی حال ہے۔ اسی طرح پبلک ٹرانسپورٹ کے کرایے بھی اس سطح سے نیچے آئے جہاں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں 300 روپے لٹر سے اوپر جانے پر پہنچا دیے گئے تھے۔بلاشبہہ یہ حکومت کی انتظامی مشینری کی ناکامی ہے،جیساکہ وزیر خزانہ نے کہا ہے کہ مڈل مین حکومت کے قابو میں نہیں آیا اور ملک میں ناجائز منافع خور عناصر عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں۔ ایسے میں حکومت کی جانب سے مہنگائی پر قابو پانے کے لیے اقدامات کرنے اور عوام کو ریلیف دینے کی بجائے الٹا آنے والے بجٹ میں کھانے پینے کی مزید کئی اشیاء پر ٹیکس لگانے کی باتیں کرنا اس کی بہت بڑی ناکامی شمار ہوگی جس کا خمیازہ اسے سیاسی طور پر بھگتنا پڑ سکتا ہے۔

اس بنا پر ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت کی معاشی ٹیم کو آنے والے بجٹ میں عوام پر مزید ٹیکسوں کا انبار تھوپنے کی بجائے معاشی ترقی کے ثمرات عوام تک منتقل کرنے کی تجاویز پر غور کرنا چاہیے اور عوام کو مہنگائی سے ٹھوس ریلیف دینے کے لیے موثر اقدامات کرنے چاہئیں۔ عوام پر ٹیکسوں پر ٹیکس لگاتے چلے جانا اچھی حکمرانی کی علامت نہیں ہے،پاکستانی عوام پہلے ہی ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں، دوسری جانب بیرون ملک مقیم پاکستانی اپنی خون پسینے کی کمائی سے بھاری ترسیلات زر بھیج رہے ہیں، ا ب کچھ بوجھ حکمرانوں اور طبقہ اشرافیہ کو بھی اٹھانا چاہیے اور غریب عوام کا ہی خون نچوڑتے رہنے کی پالیسی ترک کردینی چاہیے۔ عوام نئے بجٹ میں حکومت سے معقول ریلیف کے منتظر ہیں۔

پرائیویٹ حج کمپنیوں کی مشکل حل کی جائی

میڈیا رپورٹوں کے مطابق سعودی حکومت سے بروقت معاہدہ اور ادائیگیاں نہ ہونے کے باعث پرائیویٹ حج اسکیم میں بکنگ کرنے والے 67 ہزار عازمین کے فریضہ حج کی سعادت سے محرومی کا خدشہ ہے۔ حج آرگنائزرز کی جانب سے کہا گیا ہے کہ 67 ہزار عازمین حج کی بکنگ کی جا چکی ہے تاہم سرکاری معاہدے میں تاخیر اور حج کمپنیوں کو عازمین کی رقوم بھیجنے کے لیے کم وقت ملنے کے باعث معاملہ پیچیدہ ہوگیا ہے۔ پرائیویٹ اسکیم کے صرف 14 ہزار عازمین کی ادائیگیاں قبول کی گئیں۔ حالیہ 10 ہزار کا کوٹہ شامل کر کے بھی نجی اسکیم کے عازمین کی تعداد صرف 24 ہزار ہوگی۔حج آرگنائزرز نے حج کوٹہ کیلئے وزیراعظم سے مداخلت کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ سعودی حکومت سے بات چیت کرکے پرائیویٹ حج کمپنیوں اور اس کے توسط سے جانے والے عازمین حج کی مشکل حل کی جائے اور پرائیویٹ کمپنیوں کو ان کا نصف کوٹہ مکمل کرنے کا موقع دیا جائے۔ پرائیویٹ حج کمپنیوںکا یہ مطالبہ بالکل جائزاور حق بجانب ہے، وزیر اعظم شہباز شریف کو خود اس معاملے کو دیکھنا چاہیے اور سعودی اعلیٰ حکام سے اپنے روابط کو بروئے کار لاکر پرائیویٹ حج کمپنیوں کا مسئلہ حل کروانا چاہیے۔