افواہ اور جھوٹ نرم، مگر مہلک ہتھیار!

آج کی دنیا میں جہاں معلومات سیلاب کی مانند بہہ رہی ہیں، سچ اور جھوٹ کی تمیز روز بروز دھندلا رہی ہے۔ خبریں اب محض خبریں نہیں رہیں بلکہ بیانیے بن چکی ہیں۔ کب، کس کے حق میں اور کس کے خلاف استعمال ہوں، یہ طاقت رکھنے والوں کے ہاتھ میں ہے۔ ایسی فضا میں جہاں سچی بات جھوٹے پروپیگنڈے کے نیچے دب جائے، وہاں قاری اور سامع کی ذمہ داری بھی کسی طور کم نہیں، کیونکہ وہ بھی اتنا ہی جواب دہ ہے جتنا لکھنے والا یا نشر کرنے والا۔

سب سے بڑا فتنہ ان اقوال کا ہے، جو مشہور شخصیات، علمائے کرام، سیاست دانوں، حتیٰ کہ انبیائے کرام و مرسلین سے منسوب کیے جاتے ہیں، مگر حقیقت میں وہ جھوٹ کا ایک خوشنما پیکر ہوتے ہیں۔ ان میں ایسی چالاکی سے کچھ سچائیاں شامل کی جاتی ہیں کہ جھوٹ سچ کے لبادے میں ناقابلِ تردید بن کر سامنے آتا ہے۔ یہ کسی خفیہ ایجنڈے کی پیداوار ہوتے ہیں، جن کا مقصد ذہنوں پر قبضہ، فتنہ انگیزی یا نظریاتی جنگ ہوتی ہے۔

ماضی میں جھوٹ کی رسائی محدود تھی، مگر آج ایک جھوٹی بات لمحوں میں دنیا بھر میں پھیل جاتی ہے۔ جعلی ویڈیوز، ایڈیٹ شدہ تقاریر، اور مسخ شدہ مواد۔ سب کچھ ایسے پیش کیا جاتا ہے کہ حقیقت کا دھوکا ہو۔ پھر یہ جھوٹ صرف سیاسی شعبے تک ہی محدود نہیں، بلکہ دین، تاریخ، ثقافت اور شناخت تک پھیل چکا ہے۔ ان افواہوں کا مقصد صرف اطلاع دینا نہیں ہوتا، بلکہ ذہن سازی کرنا، اشتعال دلانا اور عوامی رائے کو مخصوص سمت میں موڑنا ہوتا ہے۔

شاید بہت سوں کو اچھا نہیں لگے گا، حقیقت مگر یہی ہے کہ خان صاحب کے دور اقتدار کے اختتام کے بعد افواج پاکستان کے خلاف بہت ہی بے رحمی کے ساتھ جھوٹ پھیلا کر ان کی ساکھ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی اور یہ نا معقول سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ اگر آپ ان جھوٹا پروپیگنڈا کرنے والوں میں سے کسی سے بھی دلیل مانگیں گے تو ان کے پاس کوئی دلیل نہیں ہوگی۔
اب سوال یہ ہے کہ جھوٹ اور افواہوں کی کثرت کے اس دور میں ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ جواب یہ ہے کہ تھوڑا سا توقف کریں، خود سے سوال کریں، اور تحقیق کریں کہ کیا اس بات کا ماخذ معتبر ہے؟ جس کی طرف یہ منسوب ہے، کیا اس سے یہ بات اسی طرح ثابت ہے، جیسی بیان کی جا رہی ہے؟ کیا اس کے ساتھ اصل ویڈیو، آواز یا تحریر موجود ہے؟ یا محض ایک بے بنیاد جملہ ہے جس کا کوئی سرا نہیں؟
بے شک سوشل میڈیا نے جھوٹ پھیلانا آسان کر دیا ہے، مگر اسی سوشل میڈیا نے ہمیں تحقیق کے ذرائع بھی دیے ہیں۔ گوگل، فیکٹ چیک ویب سائٹس اور کئی معتبر ادارے ایسے ہیں جہاں چند لمحوں کی تحقیق سے بات کا سچ یا جھوٹ ہونا معلوم کیا جا سکتا ہے، بشرطیکہ کسی کے دل میں خوف خدا ہو۔

افسوس تو یہ ہے کہ ہم جھوٹ سننے کے بعد اسے بلا سوچے سمجھے دوسروں تک پہنچا دیتے ہیں اور یوں جانے انجانے میں جھوٹ پھیلانے کے گناہ میں شریک ہو جاتے ہیں۔ بالفرض اگر کوئی شخص کسی بھی طرح جھوٹ اور سچ میں تمیز کرنے پر قادر نہ ہو تو اسے اپنے ضمیر سے یہ سوال ضرور پوچھنا چاہیے کہ کیا اس بات کو پھیلانا اور دوسروں سے شیئر کرنا میرا کوئی دینی یا ملی فریضہ ہے؟ کیا اس صورت میں خاموشی اور توقف بہتر نہیں؟

یہ بات اچھی طرح جان لینی چاہیے کہ افواہ کوئی معمولی بات نہیں۔ یہ دلوں کو جلا دیتی ہے، رشتے توڑ دیتی ہے، قوموں کو کمزور کر دیتی ہے اور بعض اوقات دونوں قوموں اور ریاستوں کے درمیان جنگوں کا پیش خیمہ بھی بن جاتی ہے۔ یہ نفسیاتی بارودی سرنگیں ہیں۔ ایسی گولیاں جو اکثر اپنے ہی پھیلانے والوں کو نشانہ بنا لیتی ہیں۔ نہ جانے کتنے علمائ، مفکر، رہنما، حتیٰ کہ عام لوگ اس کا نشانہ بنے۔ یہ فتنہ ایسا ہے جو بظاہر نرم نظر آتا ہے، مگر اس کا زہر بہت گہرا ہوتا ہے۔ اسلام نے اسی وجہ سے افواہ، غیبت، جھوٹ، بہتان، اور چغلی کو سختی سے روکا ہے۔

دین ہمیں سکھاتا ہے کہ حسنِ ظن رکھو، تحقیق کرو اور ہر سنی سنائی بات کو آگے نہ پھیلاؤ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی شخص کے جھوٹا ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات کو (بغیر کسی تحقیق کے) بیان کرے۔ آج ہمیں صرف خبروں کا سامع نہیں، محقق بھی بننا ہے۔ سچ کا ساتھ دینا اور جھوٹ کے پھیلاؤ میں شریک ہونے سے بچنا ہے۔ یہی دین کا بھی تقاضا ہے، انسانیت کا بھی اور عقلمندی کا بھی۔