غزہ مسلم امہ کی امتحان گاہ ہے!

ملک بھر میں فلسطینی مسلمانوں سے اظہار یکجہتی اور اسرائیلی جارحیت کے خلاف احتجاجی مظاہرے اور ریلیاں نکالی گئیں۔ کراچی میں جمعیت علمائے اسلام اور جماعت اسلامی کے تحت دو الگ الگ اجتماعات ہوئے، جن میں لاکھوں لوگ امڈ آئے اور اسرائیلی جارحیت اور سفاکیت کے خلاف اپنے جوش و جذبے کا مظاہرہ کیا اور حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ مسلم دنیا کی دیگر حکومتوں سے رابطہ کرکے غزہ کے مسلمانوں کی مدد و نصرت، داد رسی اور ڈیڑھ سال سے جاری اسرائیلی و امریکی ظلم و سفاکیت و جارحیت کو رکوانے کیلئے ٹھوس عملی اقدامات کا خاکہ تیار کرے۔ شرکاء نے اسرائیلی جارحیت کی مذمت کرتے ہوئے صہیونی مصنوعات کے مکمل بائیکاٹ کا اعلان کیا۔

فلسطین کی سرزمین، جو انسانی تاریخ کے عظیم ترین انسانوں، اللہ تعالیٰ کی برگزیدہ ہستیوں اور انبیائے کرام علیہم السلام کی پاک سرزمین، گزر گاہ اور اقامت گاہ رہی ہے، آج دنیا کے بدترین مظالم کا مرکز بن چکی ہے۔ تاریخ انسانیت میں قابیل سے لیکر نمرود، فرعون، چنگیز، ہلاکو، مسولینی، اسٹالن اور ہٹلر تک ظلم و سفاکیت کے مکروہ ترین کردار آئے ہیں، تاہم آج کے اس نام نہاد مہذب اور جدید ترین متمدن دور میں اسرائیل، امریکا، نیتن یاہو اور ٹرمپ کی درندگی، سفاکیت اور قتل و خون نے ان سب کرداروں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ غزہ، جو کبھی امن و آشتی کا گہوارہ تھا، اب محض ایک قید خانہ نہیں بلکہ ایک کھلے قبرستان کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ اسرائیل کی طرف سے ڈیڑھ سال سے جاری بلاامتیاز بمباری، محاصرہ اور معاشی ناکا بندی نے غزہ کے بیس لاکھ سے زائد انسانوں کو بھوک، پیاس، بیماری اور بموں کے دہکتے شعلوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔ چاروں طرف سے بدترین محاصرے اور گھیرے میں لیکر نام نہاد امن و انسانیت کے علمبردار امریکا کی سرپرستی میں نسل پرست اسرائیل غزہ کے لاکھوں باشندوں کو ایک ایک کرکے قتل کرتا جا رہا ہے اور اس بھیانک ترین عمل میں بچوں، خواتین اور بوڑھوں میں بھی کوئی تمیز نہیں رکھی جا رہی، بلا امتیاز محض فلسطینی شناخت کی بنیاد پر ان لاکھوں نفوس کی زندگیوں کو قتل و موت کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور یہ عمل خود مغرب کے مہذب درندوں کی اپنی طے کردہ تعریف کی رو سے نسل کشی، نسلی تطہیر ( Genocide) ہے، مگر امریکا سمیت کوئی بھی نام نہاد مہذب مغربی ملک اس بد ترین نسل کشی کو نسل کشی ماننے کیلئے تیار نہیں۔

اسرائیل کی اس بدترین سفاکیت کیخلاف پاکستان کے طول و عرض میں اٹھنے والی احتجاج کی لہریں اس بات کا اعلان ہیں کہ پاکستانی عوام اپنے مظلوم فلسطینی بھائیوں کے ساتھ کھڑے ہیں اور مزید اس جارحیت، ظلم و سفاکیت، بہیمیت اور درندگی کو محض تماشائی بن کر دیکھنے کو تیار نہیں۔ مولانا فضل الرحمن کی زیرِ صدارت گزشتہ دنوں اسلام آباد میں منعقدہ قومی فلسطین کانفرنس میں تمام مکاتبِ فکر کے علماء کی جانب سے مسئلہ فلسطین پر درجہ بہ درجہ جہاد کو مسلم ممالک پر فرض قرار دینے کے بعد پاکستان میں بیداری اور احساس ذمے داری کی ایک لہر اٹھی ہے۔ملک بھر میں پھوٹ پڑنے والے احتجاجی مظاہرے اور ریلیاں اسی احساس اور جذبات کا آئینہ دار ہیں اور اس بات کا اشارہ ہیں کہ اگر مسلم حکومتیں اپنی مصلحتوں کے زیر اثر بے حسی کا مظاہرہ کر رہی ہیں تو عوام اس سرکاری بے حسی، بے حمیتی اور بزدلی سے بالکل بھی متفق نہیں ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان سمیت پوری مسلم دنیا کی حکومتیں بے حسی اور خاموشی کی چادر اتار پھینک کر غزہ اور اہل غزہ کو بچانے کیلئے عملاً جو کچھ بھی بن پڑے، کر گزرنے سے دریغ و گریز نہ کریں۔ ملک کے تمام چھوٹے بڑے شہروں اٹک، خانپور، خانیوال، بہاولپور، وہاڑی، ساہیوال، لاڑکانہ، سوات، مظفرآباد، ہری پور اور حیدرآباد سمیت درجنوں شہروں میں لاکھوں افراد نے فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا۔ ان مظاہروں میں مذہبی، سیاسی، سماجی تنظیموں نے شرکت کی اور اپنے جذبات سے دنیا کو آگاہ کیا۔ جمہوریت میں عوام کی بات سنی جاتی ہے اور ان کے فیصلے کی بنیاد پر اقدام کیے جاتے ہیں، عالم اسلام سمیت پوری دنیا کے عوام اسرائیل کیخلاف یک آواز ہیں، ایسے میں جمہوریت کے علمبرداروں کو آمریت میں پناہ نہیں لینا چاہیے اور جمہور کی آواز سننی چاہیے۔

اہم بات یہ ہے کہ دنیا بھر میں بالخصوص پاکستان میں جاری ان احتجاجات کی روح محض مذہبی جوش نہیں بلکہ انسانی ہمدردی، اصولی موقف اور عالمی انصاف کی پکار ہے۔ یہ لہر اس عالمی بے حسی کے خلاف ردِعمل بلکہ عوامی ریفرنڈم ہے جو غزہ کے معصوم بچوں کی چیخوں، مظلوم خواتین کی آہ و بکا اور بزرگوں کی لاشوں پر بھی ٹس سے مس ہونے کا نام نہیں لے رہی ہے۔ وہ عالمی ادارے بھی منافقت کی چادر اوڑھے منقار زیر پر ڈالے بیٹھے ہیں جو آئے دن انسانی حقوق کا رونا روتے اور کمزور ملکوں کو اس حوالے سے مسلسل کٹہرے میں لاکھڑا کرتے ہیں، مگر اسرائیل اور نیتن یاہو کا ظلم و عدوان انہیں نظر نہیں آرہا۔ اسرائیل نے اہل غزہ پر جو مظالم روا رکھے ہوئے ہیں، ان کا کوئی موازنہ تاریخ کے کسی بھی ظالم سے ظالم ترین کردار سے نہیں کیا جا سکتا۔ آج کے نیتن یاہو نے فرعون، چنگیز اور ہلاکو کے ظلم کو پیچھے چھوڑ دیا ہے، مگر حادثے سے بڑھ کر سانحہ اور بدترین المیہ یہ ہے کہ امن و حقوق کے رکھوالوں اور اقوام متحدہ کی انسانیت کی دہائی دینے والی زبانیں گونگی، آنکھیں اندھی اور کان بہرے ہو چکے ہیں۔

یہ وقت ہے کہ مسلم دنیا کے عوام اپنے حکمرانوں کا ضمیر جھنجھوڑنے کیلئے میدانوں کا رخ کریں اور پرامن انداز میں سامنے آکر حکومتوں کو ان کا فرض اور کردار یاد دلائیں اور انہیں مجبور کریں کہ وہ عوامی امنگوں کے مطابق عین جمہوری تقاضے پر اسرائیل کیخلاف اور اہل غزہ کی مددو نصرت میں عملاً بروئے کار آئیں۔ پاکستان، ترکیہ،، سعودی عرب اور مصر جیسے بڑے مسلم ممالک کو اب محض بیانات سے آگے بڑھ کر عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔ ان ممالک کی معیشت، دفاعی طاقت اور سفارتی اثر و رسوخ صرف داخلی مفادات کیلئے نہیں بلکہ مظلوموں کے دفاع کیلئے بھی استعمال ہونا چاہیے۔ فلسطین کے مسئلے کو انسانی مسئلہ بنا کر عالمی سطح پر اٹھانے کی ضرورت ہے۔ اقوام متحدہ، او آئی سی اور دیگر عالمی اداروں پر دباؤ بڑھانا ہوگا کہ اسرائیل کو انسانیت کی قیمت پر کھلی چھوٹ نہ دی جائے۔ یاد رکھیں اگر ہم نے اب بھی آواز نہ اٹھائی تو تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔ غزہ کا مسئلہ صرف فلسطینیوں کا نہیں، یہ انسانیت کا امتحان ہے۔ اہل غزہ بلا شبہ اپنے ثبات، استقامت اور ایمان کے امتحان میں سرخرو ہیں، مگر اس آزمائش میں ہم کہاں کھڑے ہیں؟!