امریکا اور چین کے درمیان ٹیرف کی جنگ جاری ہے، جین نے امریکی مصنوعات پر محصولات 84 فیصد سے بڑھا کر 125 فیصد کرنے کا اعلان کر دیا۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق چینی وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ امریکی مصنوعات پر 125 فیصد ٹیرف آج سے نافذ العمل ہو جائے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکی ٹیرف بنیادی معاشی اصولوں کے خلاف ہیں، امریکا کی جانب سے ٹیر ف میں مزید اضافے کو نظر انداز کریں گے کیونکہ امریکی اشیاء چینی درآمد کنندگان کے لیے مزید اقتصادی معنیٰ نہیں رکھتیں۔ چینی وزارت خزانہ نے امریکی ٹیرف کو نمبر گیم قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ مذاق بن جائے گا۔
چینی سرکاری میڈیا کا کہنا ہے کہ چین امریکا کے تازہ محصولات پر عالمی تجارتی تنظیم کے ساتھ مل کر مقدمہ دائر کرے گا۔ واضح رہے کہ امریکا چینی مصنوعات پر مجموعی طور پر 145 فیصد ٹیرف عائد کرچکا ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی غیر متوقع اقتصادی پالیسیوں پر عالمی سرمایہ کاروں کی تشویش کے باعث ڈالر کی قدر یورو کے مقابلے میں تین سال کی کم ترین سطح پر آ گئی، جبکہ ین کے مقابلے میں 1.3 فیصد گر چکی ہے۔
دنیا کے مختلف ممالک پر تجارتی ٹیرف لگانے کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اقدام کے بعد گزشتہ دوتین دنوں میں ہونے والی پیشرفت اور تازہ منظر نامے سے یہ امر بالکل واضح نظر آنے لگا ہے کہ بڑ بولے اور شیخی خور امریکی صدر کی جانب سے چھیڑی گئی عالمی تجارتی جنگ کا اصل ہدف چین ہے اور امریکا درحقیقت عالمی تجارت میں چین کی تیز رفتار پیش رفت اور اس کے مستقبل کے منصوبوں سے خائف ہے اور اسے ڈر ہے کہ کہیں چین آگے چل کر دنیا کی ایسی سپر طاقت نہ بن جائے جو تجارت و اقتصادیات کے علاوہ سائنس و ٹیکنالوجی اور بین الاقوامی سیاست میں بھی امریکی اجارہ اداری کو چیلنج کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ چین نے حالیہ دنوں مصنوعی ذہانت، خلائی سائنس سمیت متعد د شعبوں میں امریکا اور مغرب کو ٹکر دینے کی صلاحیت کی کچھ جھلکیاں دکھائی ہیں اور تجارت کے میدان میں چین کی پیش قدمی عالمی منڈیوں میں چین کی سستی اور عام آدمی کی مالی استطاعت اور قوت خرید کے اندر آنے والی مصنوعات کی بھرمار اور دنیا کے ہر ملک میں فراہمی سے لگایا جاسکتا ہے۔
چین کی معاشی کامیابی کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ اس نے ایک جانب اپنی ساری آبادی کو تعلیم اور ہنر سے آراستہ کر کے پیداواری سرگرمیوں پر لگایا ہوا ہے اور پیداواری لاگت کو کم سے کم رکھ کر زندگی کی بنیادی ضرورت اور استعمال کی اشیاء کی سستے داموں تیاری کو ممکن بنایاہے تودوسری جانب اپنی کرنسی کو اس کی حقیقی قدر سے بھی کم سطح پر رکھ کر اپنی برآمدات کو بڑھانے پر توجہ دی ہے جس کی وجہ سے چینی مصنوعات معیار کے لحاظ سے نسبتاًکمزور اور ناپائیدار ہونے کے باوجود دنیا میں ہرجگہ پہنچ جاتی ہیں۔ آج اگر امریکا سمیت دنیا کے بہت سے ممالک کو چین کے ساتھ تجارت میں عدم توازن اور خسارے کی شکایت ہے تو اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ چین نے ان ممالک میں زبردستی اپنی مصنوعات کی کھپت کی ہے، چین امریکا کی طرح استعماری مزاج نہیں رکھتا، ہاں البتہ چین نے اپنے ہاں ایسی معاشی پالیسیاں بنائی ہیں اور بالخصوص اپنے ہاں کی گھریلو صنعتوں اور اسمال بزنس کو اتنی سہولیات دی ہیں کہ وہ عالمی منڈیوں کے لیے ہر قسم کے سامان تجارت کی وافر فراہمی ممکن بناتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ چین کی تاجر دوست پالیسیوں کے نتیجے میں متعدد امریکی کمپنیوں سمیت دنیا کے کئی بڑے تجارتی ادارے چین میں جاکر اپنے کارخانے کھولتے اور وہیں سے اپنی مصنوعات دنیا بھر میں برآمد کرتے ہیں۔ پھر دنیا کے مختلف ممالک بالخصوص ترقی پذیر اور غریب ممالک کے ساتھ چین کا تجارتی رویہ اور تعامل عموما دوستانہ انداز کا ہوتا ہے اور چین بہت سے ممالک کے اندر براہ راست سرمایہ کاری کرکے وہاں کی مقامی صنعتوں کو بھی پھلنے پھلونے کا موقع دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ترقی پذیر اور غریب ممالک میں چینی صنعتکاری کو شک کی نظر سے نہیں دیکھا جاتا۔ اس کے مقابلے میں امریکا اور مغربی ممالک کی جانب سے سرمایہ کاری اور تجارت کی آڑ میں دنیا کے کمزور اور غریب ممالک کے عوام کو نچوڑنے اور ان کا استحصال کرنے کی پوری ایک تاریخ ہے جس کی بنا پر ان عالمی قوتوں کا تاثرمذکورہ ممالک میں کچھ زیادہ اچھا نہیں ہے۔
امریکا اگر عالمی تجارت میں چین کا مقابلہ کرنا چاہتا ہے تو سب سے پہلے اسے اپنی تجارتی پالیسیوں کو درست کرنا ہوگا اور چین کی طرح سستی اشیاء بنانے اور دنیا بھر میں ان کی سستی رسد یقینی بنانے پر توجہ دینا ہوگی۔ آج کی دنیا میںامریکا سمیت کوئی بھی ملک طاقت اور دھونس کے بل پر اپنی مہنگی مصنوعات دنیا پر نہیں تھوپ سکتا۔ معاشی ماہرین کے مطابق امریکا کی جانب سے چینی مصنوعات پر بھاری ٹیرف لگانے سے وقتی طور پر تو چین کی عالمی تجارت پر ضرور اثر پڑے گا تاہم چینی عوام کو مہنگائی میں فوری اضافے کا کوئی بڑا خطرہ درپیش نہیں ہے کیونکہ چین اپنی ضرورت کی اشیاء کی تیاری میں خود کفیل ہے،اسے بہت کم اشیاء باہر سے درآمد کرنا پڑتی ہیں وہ بھی تجارتی اشیاء کے تبادلہ کے اصول کی بنا پر، جبکہ امریکی عوام کو ابھی سے مہنگائی کے زبردست جھٹکوں کا سامنا ہے کیونکہ امریکافی الوقت اپنی ضرورت کی ہر چیزخود نہیں بناتا ،نہ ہی امریکا کے آرام پسند اور عیاش طبع عوام زیادہ محنت اور کام کے عادی ہیں۔ اب تک امریکا کا انحصار بڑی صنعتوں اور اپنی استعماری اور استحصالی پالیسیوں کے ذریعے دیگر اقوام کے وسائل اینٹھنے پر ہی رہا ہے جس کا زمانہ اب ختم ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔
اب اگر نوشتۂ دیوار پڑھ کر یا حالات کے جبر کے تحت امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ درآمدی اشیاء پر قدغنیں لگاکر بھاری بھرکم جسامت والے امریکیوں کو کام پر لگانا چاہتے ہیں تو یہ فی نفسہ بری بات نہیں ہے لیکن انہیں اس امر کا ادراک ہونا چاہیے کہ یہ کام راتوں رات ہونے والا نہیں ہے اور یہ بلاوجہ ساری دنیا سے جنگ مول کر نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے لیے امریکا کو معقولیت کی راہ اپنانا پڑے گی۔ موجودہ حالات میں امریکا کا دھونس دھمکی کا رویہ قابل قبول نہیں ہے۔ تسلیم ہے کہ امریکا آج بھی ایک بڑی معاشی طاقت ہے مگروہ اب واحد عالمی طاقت نہیں رہا۔ اب چین جیسی دیگر طاقتیں بھی معیشت کے میدان میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھانے کے لیے موجود ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ پوری مہذب دنیا کو عالمی تجارت میں دھونس دھمکی کے امریکی رویے کی بھرپور مزاحمت کرنی چاہیے اور موجودہ عالمی تجارتی جنگ میں تمام ترقی پذیر اور غریب ممالک کو چین کا ساتھ دینا چاہیے۔