غزہ کیلئے مسلم امہ میں پیدا ہونے والی بیدار ی کی لہر

اہلِ غزہ جن حالات میں اپنے ایمان و عقیدے کی سچائی پر یقین کرکے اسرائیل اور امریکا کی مشترکہ طاقت کا سامنا کررہے ہیںوہ بلاشبہ مسلم امہ کیلئے فخر کا باعث ہے کیونکہ ان مظلوم اور زخموں سے چور مسلمانوں نے ثابت کردیاہے کہ ایمان اور عقیدہ ہر جذبے اور ہر نظریے سے زیادہ قوت رکھتاہے اور دنیا میں ایسے لوگ موجود ہیں جو ایمان، عقیدے اور اپنے عہد کے ساتھ وفاداری نبھاتے ہوئے ہر قسم کی قربانی دے سکتے ہیں خواہ دجل و فریب پر مشتمل ریاستیں انھیں کیسے ہی مظالم کا نشانہ کیوں نہ بنائیں۔

اہلِ غزہ کے استقلال، صبر و برداشت اور ایمانی قوت نے دنیا بھر کے مسلمانوں میں بیداری کی ایک لہر پیدا کردی ہے اور مسلم امہ کے لاکھوں نوجوان انہی کے نقشِ قدم پر چلنا اپنے لیے سعادت سمجھنے لگے ہیں، دوسری جانب امت کے جید اہلِ علم کی جانب سے اہلِ غزہ کے ساتھ تعاون اور ان کی مدد اور نصرت کو فرض قرار دیتے ہوئے اسلامی ممالک پر درجہ بدرجہ جہاد کو فرض کہا گیاہے۔ شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی، مفتی منیب الرحمن اور وطنِ عزیز پاکستان کے دیگر اہل علم نے اسلام آباد میں منعقدہ قومی کانفرنس میں مسلم ممالک کے حکمرانوں کو ان پر عائد ہونے والی ذمہ داریوں اور جہاد کی فرضیت سے آگاہ کیا۔

یہ امر واضح ہے کہ غزہ میں مسلمانوں کی نسل کشی کی جارہی ہے جس کیلئے جملہ وسائل امریکا کی ٹرمپ انتظامیہ فراہم کررہی ہے، بصورتِ دیگر اسرائیل میں جاری سیاسی رسہ کشی، فوج میں پائی جانے والی بے چینی او ر اسرائیلی عوام کی جانب سے جاری احتجاج کی موجودی میں عالمی مجرم نیتن یاہو اور اس کے قاتل ٹولے میں اتنی سکت نہیں رہی کہ وہ اٹھار ا ما ہ سے جاری جارحیت کو مزید آگے بڑھا سکے کیوں کہ اس وقت اسرائیل معاشی تباہی کے دھانے پر پہنچ چکاہے اور یہ امریکی امداد، مغربی ممالک کی پشت پناہی اور عالمی صہیونی تحریک کی حوصلہ افزائی ہے کہ وہ اہلِ غزہ کو بے بس، تنہا اور نہتا سمجھ کر ان پر ہزارو ں پاؤنڈ وزنی بم برسا رہاہے۔ ان حالات میں جبکہ اسرائیل کی ناجائز اور غیر قانونی ریاست معاشی عدمِ استحکام کی کھائی کے کنارے پر پہنچ چکی ہے، مسلم حکمرانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ آخرت کی جواب د ہی، مسلم امہ کے ساتھ اپنی وابستگی اور غزہ کے مظلوموں کا احساس کرتے ہوئے اسرائیل کو جنگ بندی پر مجبور کریں۔

جنگ بندی کا راستہ ٹرمپ ٹولے کے ساتھ دو ٹوک بات چیت میں پوشیدہ ہے۔ یہ مسلم حکمرانوں کی کمزوری ہے کہ وہ محض وقتی سیاسی یا معاشی فوائد ہی کو جملہ مفادات سمجھتے ہیں۔ فی الواقع مسلم امہ کا مشترکہ مقاصد کی خاطر اتحاد ہی موجودہ دور میں مسلمانوں کی کامیابی کی ضمانت بن سکتاہے۔ اسرائیل نے جس انداز میں اہل غزہ کی مزاحمت کو وحشیانہ جارحیت سے کچلنے کی کوشش کی ہے وہ اس پر دلیل ہے کہ صہیونی دہشت گردوں کے نزدیک انسانوں کے درمیان موجود کوئی بھی رشتہ اہمیت نہیں رکھتا۔ ایسے میں یہ تصور کسی حماقت سے کم نہیں کہ اسرائیل عرب ممالک کے ساتھ کسی معاہدے کی پاسداری کرے گا یا وہ گریٹر اسرائیل کے قیام سے کم کسی منصوبے پر اکتفا کرتے ہوئے عربوں کی جان بخشی کردے گا۔ عربوں کو اچھی طرح جان لینا چاہیے کہ اسرائیل کی پیش قدمی کی راہ میں فلسطینیوں کی مزاحمت واحد رکاوٹ ہے اور جس دن یہ رکاوٹ ٹوٹ گئی تو آتش و آہن کا سیلاب عربوں کے محلات تک پہنچنے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی۔ عرب ممالک اس وقت وہی کردار ادا کررہے ہیں جو تاتاریوں کی یلغار کے موقع پر اس دور کے مسلم حکمرانوں نے سلطان جلال الدین خوارزم شاہ کے ساتھ روا رکھا تھا۔ جب تک جلال الدین خوارزم شاہ کی مزاحمت کسی بھی درجے میں برقرار رہی، تاتاریوں کو خلافت کے مرکزاور مسلمانوں کے درمیان اتحاد کی علامت یعنی بغداد کو نشانہ بنانے کا موقع نہ مل سکا، لیکن جونہی جلال الدین کی رکاوٹ دور ہوئی اور یہ ”آخری چٹان” بھی راستے سے ہٹادی گئی، عالم اسلام کے باقی ماندہ خطے بھی تاتاری یلغار کی لپیٹ میں آگئے۔ موجودہ حالات کچھ تغیر و تبدل کے ساتھ تاریخ کے وہی مناظر دہر ارہے ہیں۔ مسلم امہ کو اس موقع پر ماضی سے سیکھتے ہوئے اتحاد کو یقینی بنانے کی کوشش کرنی چاہیے، اس کے بعد اسرائیل اور امریکا کے جارحانہ عزائم کے سامنے بند باندھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

ٹرمپ ٹولہ جارحانہ عزائم کا ا ظہار کرتے ہوئے ماضی کی فسطائیت کا احیاکرچکاہے۔ نام نہاد لبرل ازم کا نقاب اتار کر یہ ٹولہ امریکی دہشت گردی کو پوری دنیا میں پھیلانا چاہتا ہے۔ چین کیخلاف تجارتی جنگ اور دنیا کے دیگر ممالک کو دھمکانے کی کوششیں اسی غنڈا گردی کا اظہارہیں۔ ان حالات میں پاکستان کو چین کے ساتھ اتحاد کو قائم رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے اور چین، روس، ترکیہ، سعودیہ جیسے ممالک کو برکس اتحاد کو طاقتور بناکر امریکا کی غنڈا گردی کا جواب دینا چاہیے۔ مسلم مما لک کی سطح پر بھی ایک ایسی تحریک کی ضرورت ہے جوعربوں کو اسرائیل کی دہشت گردی سے محفوظ رکھنے کیلئے غزہ میں جاری مزاحمت کو توانائی فراہم کرنے کا فریضہ ا نجام دے۔ یہ دنیا بھر کے مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ مزاحمت کے سب سے بڑے مرکز یعنی غزہ کو اسرائیل جیسی دہشت گردریاست کے ہاتھوں سقوط سے محفوظ رکھنے میں اپنا کردار ادا کریں۔

حماس کے عسکری بازو القسام بریگیڈ کے ترجمان ابو عبیدہ نے اپیل کی ہے کہ مصر، ترکیہ، پاکستان اور دیگر ممالک غزہ کی سرحدوںکی جانب پیش قدمی پر توجہ دیں۔ ایک خبر کے مطابق چالیس ہزار کے قریب مسلم رضا کار اس وقت فلسطینی مزاحمتی تنظیموں کا حصہ بننے کیلئے تیارہوچکے ہیں۔ ایسے میں ترکیہ اور شام کا باہمی اتحاد اور پاکستان اور دیگر ممالک کی معاونت داخلی خلفشار کا شکاردہشت گرد ریاست کو اچھا سبق سکھا سکتاہے۔ اس گئے گزر ے دور میں مسلم امہ کے ایک حصے نے بے مثال مزاحمت اور ایمان اور یقین اور عقیدے کی قوت کا اظہار کرکے پوری امت میں بیداری کی ایک لہر دوڑا دی ہے۔ جان کی قربانی دے کر شہادت کے مرتبے پر فائز ہونے والے مسلمانوں کا کچھ بھی نقصان نہیں ہوا کیونکہ وہ آخر ت کی نہ ختم ہونے والی زندگی میں اس جاں نثاری پر ہمیشہ اظہارتشکر کے ساتھ فخر کرتے رہیں گے۔ اصل معاملہ امت ِ مسلمہ کے مجموعی کردار کا ہے کہ وہ ایک ارب سے زائد تعداد میں ہونے کے باوجود صہیونی دہشت گردوں کے مظالم سے اپنے بچوں کا تحفظ نہیں کرپارہے۔ مسلم امہ اگر اہل غزہ کے ساتھ تعاون، اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ اورباہمی اتحاد پر توجہ مرکوز کرے تو قومیت، لسانیت اور علاقائیت پر مشتمل بہت سے مسائل از خود حل ہوجائیں گے۔