معدنی ذخائر کو قومی ترقی کا وسیلہ بنانے کے ناگزیر عناصر

معدنی شعبے میں سرمایہ کاری کو فروغ دینے کیلئے اسلام آباد میں 2 روزہ پاکستان منرلز انویسٹمنٹ فورم 2025ء کا انعقاد ہوا، جس میں امریکا، چین،سعودی عرب، روس، فن لینڈ اور ترکیہ سمیت دیگر ممالک کے اعلیٰ انتظامی اور معاشی وفود نے شرکت کی۔ اس فورم کی اہمیت اور اس کے حوالے سے ریاستی سنجیدگی اور فکر مندی کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ فورم میں پاکستان کی سول اور عسکری قیادت نے براہ راست شرکت کی۔ وزیر اعظم میاں شہباز شریف اور آرمی چیف جنرل حافظ سید عاصم منیر بذات خود فورم کے مختلف اہم سیشنز میں موجود رہے اور اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

بلاشبہہ ایک ایسے وقت جب ملک معاشی بحرانوں اور اقتصادی مسائل سے نکلنے کی جدوجہد کر رہا ہے، اسلام آباد میں پاکستان منرلز انویسٹمنٹ فورم 2025ء ایک اہم اور بروقت اقدام ہے جو پاکستان کی اقتصادی پالیسی میں تبدیلی کے اشارے دے رہا ہے۔ یہ فورم محض ایک تقریب نہیں بلکہ معاشی بحالی، خود انحصاری اور پیداواری معیشت کے خواب کی تعبیر کی ایک سنجیدہ کوشش ہے۔ دو روزہ اس فورم کے دوران مختلف ممالک سے معدنی وسائل کی تلاش اور ترقی کے لیے چودہ مفاہمتی یادداشتوں اور معاہدوں پر دستخط کیے گئے جو ایک حوصلہ افزا پیش رفت ہے۔ یہ کوئی راز نہیں کہ پاکستان طویل عرصے سے شدید اقتصادی مسائل کا شکار چلا آرہا ہے۔ قرض گیری اور درآمدات پر انحصار، کرپشن، غیر مستحکم پالیسیاں اور امن و امان کی ابتر صورتحال نے ملکی معیشت کو دہائیوں سے بری طرح جکڑ رکھا ہے۔ ہر نئی حکومت آئی ایم ایف اور دیگر مالیاتی اداروں کے در پر دستک دیتی ہے اور یوں ملک ایک لامتناہی قرضوں کی زنجیر میں جکڑتا چلا جا رہا ہے۔ اس تاریک پس منظر میں معدنی وسائل کے وسیع ذخائر کی دریافت مسائل و مشکلات کی تاریک سرنگ کے پار امید و آس کی روشنی کی کرن بن کر ابھری ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے اپنے خطاب میں درست کہا کہ پاکستان کھربوں ڈالر مالیت کے معدنی ذخائر کا حامل ملک ہے اور اگر ان سے صحیح طریقے سے استفادہ کیا جائے تو پاکستان قرضوں کے چنگل سے نجات حاصل کرسکتا ہے۔ بلاشبہ ریکوڈک کا معدنی منصوبہ اس ضمن میں ایک اہم سنگ میل ثابت ہوسکتا ہے۔ یہ منصوبہ کینیڈا کی معروف کمپنی بیرک گولڈ کے ساتھ شراکت داری میں آگے بڑھ رہا ہے، جو اس منصوبے میں تین ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گی۔

یہ امر خوش آئند ہے کہ کینیڈین کمپنی نے 2028ء تک ریکوڈک کے منصوبے سے پیداوار شروع ہونے کی نوید سنا دیہے۔ یہ پیش رفت نہ صرف بلوچستان بلکہ پورے ملک کیلئے حوصلہ افزا ہے۔ ریکوڈک جیسے منصوبے جہاں ملک کو مالی خود کفالت کی طرف لے جا سکتے ہیں، وہیں یہ مقامی آبادی کیلئے روزگار کے مواقع بھی پیدا کریں گے اور صوبے میں پھیلی ہوئی محرومیوں کا ازالہ کرنے کیلئے امید کی کھڑکی ثابت ہوں گے۔ وزیراعظم نے بجا طور پر اس جانب توجہ دلائی کہ بلوچستان، خیبرپختونخوا، گلگت بلتستان، سندھ اور پنجاب قدرتی وسائل سے مالامال ہیں۔ آزاد کشمیر بھی اس فہرست میں شامل ہے، مگر ان تمام علاقوں کی ترقی اس وقت تک ممکن نہیں جب تک مؤثر گورننس، شفافیت اور سیاسی استحکام کو یقینی نہ بنایا جائے۔ فورم میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی موجودی اور ان کا خطاب اس امر کی علامت ہے کہ ملک کی عسکری قیادت بھی ملک و قوم کو بدترین معاشی مسائل و مشکلات کے بھنور سے نکالنے کیلئے فکر مند ہے۔ یہ اس بات کی اہمیت کو بھی اجاگر کرتا ہے کہ پوری قوم اس حوالے سے یکسو ہو اور معاشی استحکام و ترقی کو منزل بنا کر اس کے حصول کیلئے مشترکہ جدوجہد کرے، کامل قومی یکسوئی اور مشترکہ ملی جدوجہد کے بغیر اس منزل کا حصول آسان نہیں ہوگا۔ آرمی چیف کا یہ بیان کہ پاکستان عالمی معدنی معیشت میں ابھرنے کے لیے تیار ہے یقینا ایک اعتماد افزا پیغام ہے۔ انہوں نے اپنے خطاب میں سیکورٹی، مقامی قبائل کی شمولیت اور تکنیکی افرادی قوت کی تیاری جیسے اہم پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔ خاص طور پر بلوچستان کے 27 پاکستانی طلبہ کو زیمبیا اور ارجنٹینا بھیجنا اس عزم کا ثبوت ہے کہ پاکستان اس شعبے میں عالمی معیار کی مہارت حاصل کرنا چاہتا ہے۔

یہ سب کوششیں اپنی جگہ مگر سوال یہ ہے کہ کیا صرف معدنی وسائل کے ذخائر اور بین الاقوامی سرمایہ کاری پاکستان کو معاشی طور پر مستحکم بنا سکتی ہے؟ جواب ہے نہیں۔ معدنیات کی موجودی ایک نعمت ضرور ہے، مگر یہ اسی وقت سودمند ثابت ہوں گی جب نظامِ حکومت شفاف ہو، بیوروکریسی دیانت دار ہو، پالیسیوں میں تسلسل ہو اور عدلیہ مکمل طور پر آزاد ہو۔ اس کے بغیر سرمایہ کاری تو آئے گی مگر ترقی اور استحکام کی منزل دور ہی رہے گی۔موجودہ حالات میں سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ ملک میں قانون کی حکمرانی کو یقینی بنایا جائے۔ کرپشن، چور بازاری، اقربا پروری اور سیاست زدگی کا خاتمہ کیا جائے۔ بیوروکریسی کو سیاسی اثر و رسوخ سے آزاد کیا جائے تاکہ سرمایہ کاری کیلئے سازگار ماحول پیدا ہو کیونکہ کوئی بھی بین الاقوامی کمپنی ایسے ملک میں سرمایہ کاری نہیں کرنا چاہے گی جہاں پالیسیوں میں تسلسل نہ ہو، سیکورٹی خدشات ہوں اور قانونی پیچیدگیاں ہر قدم پر رکاوٹ بنیں۔ مقامی کمیونٹیز کو ترقیاتی منصوبوں میں شامل کرنا بھی ناگزیر ہے، خاص طور پر بلوچستان جیسے حساس علاقے میں عوامی اعتماد حاصل کرنا، ان کی شراکت اور فلاح کو یقینی بنانا پائیدار ترقی کے لئے لازمی ہے۔ صرف کان کنی کرنا کافی نہیں، بلکہ وہاں کی بنیادی ضروریات، تعلیم، صحت اور انفراسٹرکچر کی بہتری بھی منصوبے کا حصہ ہونا چاہیے۔

اس کے ساتھ ساتھ ایک جامع اور طویل المیعاد منرل پالیسی کی ضرورت ہے، جو بین الاقوامی معیار پر مشتمل ہو اور جس میں ماحولیاتی تحفظ، مقامی حقوق، منافع کی منصفانہ تقسیم اور ٹیکنالوجی کی منتقلی جیسے عناصر شامل ہوں۔ پاکستان کا معاشی مستقبل معدنیات کے ان خزینوں سے وابستہ ضرور ہو سکتا ہے، مگر یہ ایک مشکل سفر ہے جس کیلئے قومی اتحاد، سنجیدہ قیادت اور غیر متزلزل عزم کی ضرورت ہے۔ حکومت، فوج، عدلیہ، نجی شعبہ، بیوروکریسی اور عوام کو ایک صفحے پر آنا ہوگا۔ صرف اسی صورت میں یہ معدنی انقلاب پاکستان کو ایک پیداواری، خود کفیل اور باوقار ریاست میں بدل سکتا ہے۔ریکوڈک ایک آغاز ہے، منزل نہیں۔ اگر ہم نے سنجیدگی، شفافیت اور استقامت کا مظاہرہ کیا تو نہ صرف ریکوڈک بلکہ پاکستان کے ہر پہاڑ اور میدان سے ترقی کی کرنیں پھوٹ سکتی ہیں، مگر اگر ماضی کی طرح کرپشن، بے حسی اور بدانتظامی نے ڈیرے ڈالے رکھے تو ایک اور موقع تاریخ کے قبرستان میں دفن ہو جائے گا۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ہم خواب دیکھنا چھوڑیں اور عمل کی راہ اپنائیں۔ کیونکہ معدنی وسائل کی دولت، صرف اس قوم کو فیض دیتی ہے جو اسے ایمانداری، مہارت اور وژن کے ساتھ بروئے کار لاتی ہے۔