امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے جارحانہ فیصلوں نے بین الاقوامی اسٹاک مارکیٹس کا بٹہ بٹھا دیا، امریکا اور یورپ کے بعد ایشیائی بازار بھی مندی کی لپیٹ میں آگئے۔ جاپان کے نکی 225 انڈیکس میں 6 فیصد سے زاید گراوٹ دیکھی جارہی ہے، ہانگ کانگ کا ہینگ سینگ 10 اعشاریہ 8، چین کا شنگھائی انڈیکس 6 اعشاریہ 3، کوریا کا کوسپی 4 اعشاریہ 6، بھارت کا بی ایس ای سینسیکس 4 اعشاریہ 1 فیصد کم ہوگیا۔
دوسری جانب سعودی عرب، قطر، اردن اور متحدہ عرب امارات سمیت مشرق وسطیٰ کی مارکیٹوں میں بھی مندی ہے۔ اس سے قبل امریکا کی ایس اینڈ پی انڈیکس میں 5 اعشاریہ 9 فیصد اور نیسڈیک میں 5 اعشاریہ 8 فیصد کمی ہوئی، جرمنی، برطانیہ، فرانس اور کوپن ہیگن سمیت یورپی بازاروں میں بھی مندی کے بادل چھائے رہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا ٹیرف اقدام پاکستانی اسٹاک مارکیٹ پر بھی بھاری پڑگیا، کاروباری ہفتے کے پہلے ہی روز مارکیٹ کریش کرگئی۔ پاکستان اسٹاک مارکیٹ میں ساڑھے 8 ہزار پوائنٹس کی کمی کے بعد 50 فیصد ریکوری دیکھنے میں آئی، 100 انڈیکس 3 ہزار 800 پوائنٹس کی کمی کے ساتھ ایک لاکھ 14 ہزار 9 سوپر بند ہوا۔ یہ پاکستان اسٹاک مارکیٹ میں 2020 کے بعد کی سب سے بڑی مندی قرار دی جا رہی ہے، جس میں سرمایہ کاروں کو اربوں روپے کے نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔
بین الاقوامی سیاست میںامریکاکی من مانیاں کوئی نئی بات نہیں۔ آج غزہ سمیت دنیا کے کئی خطوں میں جو آگ لگی ہوئی ہے،وہ دنیا پر اپنی چودھراہٹ قائم کرنے کی امریکی پالیسیوں کا ہی شاخسانہ ہے تاہم اس وقت امریکا کے خبطی مزاج اور غیر متوازن ذہنیت کے حامل صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے جس طرح تمام تر عالمی ضوابط، تجارتی اصولوں ،بین الاقوامی قوانین اور بین الممالک سفارتی آداب کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں اور جس طریقے سے انا ولا غیری کا نعرہ بلند کیا گیا ہے، یہ اپنی نوعیت کا ایک منفرد منظر نامہ ہے جس میں پوری دنیا ایک بھونچال کی کیفیت میں دکھائی دیتی ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے دنیا کے بیشتر ممالک پر بھاری تجارتی ٹیرف عائد کرنے کے نتیجے میں عالمی اقتصادیات کا نظام درہم بر ہم ہوکر رہ گیا ہے اور دنیا بھر کے معاشی ماہرین اسے تاریخ کی بد ترین کساد بازاری قرار دے رہے ہیں جو کسی جنگ یا قدرتی آفت کے نتیجے میں نہیں بلکہ ایک شخص کے عاجلانہ، منتقمانہ اور یکطرفہ فیصلے کے نتیجے میں پیدا ہوئی ہے۔اس اقدام کے نتیجے میں دنیا میں سرمایہ کاروں کے اربوں نہیں بلکہ کھربوں ڈالرز ڈوبے ہیں اور ماہرین خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ ٹرمپ کی ٹیرف پالیسی کے نتیجے میں ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک بہت سی صنعتیں تباہ ہوسکتی ہیں جس کے نتیجے میں ان ممالک کے کروڑوں لوگوں کے بے روزگار ہونے کا خطرہ ہے۔ ٹرمپ کے اس اقدام سے خود امریکا کو کتنا فائدہ ہوگا؟ اس بارے میں امریکی ماہرین معیشت اور سیاست دان کچھ زیادہ پرامید نہیں ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ یہ اقدام بالآخر عالمی تجارت میں امریکا کی تنہائی اور اس کے نتیجے میں مزید معاشی بحران کا باعث بن سکتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اتوار کے روز امریکا کے پچاس سے زائد شہروں میں لاکھوں لوگ سڑکوں پر نکل آئے اور ٹرمپ اور ان کے دست راست ایلون مسک کے خلاف نعرے لگائے۔
ٹرمپ کی ٹیرف پالیسی کے خلاف عالمی ردعمل بھی بڑھ رہا ہے۔ چین نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے امریکی مصنوعات پر 34فی صد ٹیرف لگانے کا اعلان کیا ہے جس سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ تلملا اٹھے ہیں اور انہوں نے چین کو مزید50فیصد ٹیرف لگانے کی دھمکی دے دی ہے ۔ ادھر یورپی یونین کے رکن ممالک بھی سر جوڑ کر بیٹھے ہیں اور ان کی جانب سے بھی امریکا کو موثر جواب دینے کا عزم ظاہر کیا جارہا ہے۔ معاشی تجزیہ نگاروں کے مطابق یورپی یونین کے رکن ممالک کا جوابی اقدام عالمی معیشت و اقتصادیات کے لیے اہم ہوگا۔ دنیا بھر میں اس امر کی شدید ضرورت محسوس کی جارہی ہے کہ امریکی صدر کی متکبرانہ،احمقانہ اور خود غرضی و انا پرستی پر مبنی پالیسیوں پر خاموش نہ رہا جائے بلکہ تمام ذمہ دار ممالک عالمی معیشت اور دنیا کے امن و استحکام کو ٹرمپ کی تباہ کن پالیسیوں کی کھل کر مزاحمت کریں اور مل کر ٹرمپ کوہوش دلائیں کہ وہ امریکا کے صدر ہیں، پوری دنیا کے بادشاہ سلامت نہیں ہیں۔
یہ مزاحمت صرف معیشت اورٹرف پالیسی تک محدود نہیں ہونی چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکی صدر کی سیاسی پالیسیاں بھی دنیا کے لیے تباہ کن ہیں۔ وہ کبھی کینیڈا جیسے آزاد اور خود مختار ملک کو امریکی ریاست بنانے کی ڈینگ مارتے ہیں تو کبھی ڈنمارک جیسے ترقی یافتہ ملک کے ایک حصے گرین لینڈ پر قبضہ کرنے کی بات کرتے ہیں۔ غزہ کے تین ملین لوگوں کو اپنی سرزمین سے بے دخل کر کے وہاں عیاشی کے اڈے بنانے کی بات بھی ٹرمپ جیسا انسانیت سے عاری شخص ہی کرسکتا ہے۔ بین الاقوامی قانون میں یہ بات بالکل صراحت کے ساتھ لکھی ہوئی ہے کہ کسی بھی صورت حال میں کسی علاقے کے باشندوں کو اپنی سرزمین چھوڑ کر جانے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا۔ ایسا کرنا نسلی تطہیر کہلاتا ہے جو بین الاقوامی قانون کے تحت بہت بڑا جرم ہے لیکن امریکا کا صدر پوری ڈھٹائی اور بے شرمی کے ساتھ نہ صرف اس جرم کی حمایت کرتا ہے بلکہ اس کے لیے انسانیت کے خلاف جرائم کے سرٹیفائیڈ مجرم صہیونی بھیڑیے نیتن یاہو کوہر قسم کے ہتھیار بھی فراہم کرتا ہے۔ پیر کے روز وہائٹ ہاؤس میں بین الاقوامی عدالت انصاف اور بین الاقوامی فوجداری عدالت کو مطلوب مجرم نیتن یاہوکو ساتھ بٹھاکر ایک بار پھر ٹرمپ نے غزہ کو کاروبار کے لیے بہترین” پراپرٹی” قرار دے کر اپنی مجرمانہ و حریصانہ ذہنیت کا اظہار کیا ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ دنیا بھر کے انصاف پسند انسانوں کو اس مذموم ذہنیت کا مقابلہ کرنے کے لیے میدان میں آنا چاہیے۔ یہ امر خوش آیند ہے کہ پیر کے روزاسلامی تحریک مزاحمت ‘حماس’ کی غزہ کی پٹی میں نسل کشی کے خاتمے کے مطالبے کے لیے عالم گیر احتجاج کی کال کے جواب میں دنیا بھر میں مظاہرے، ریلیاں اور جلسے جلسوس منعقد کیے گئے۔ دنیا کے کئی ممالک کے شہروں میں فلسطینیوں کی حمایت اور اسرائیلی جنگی جرائم کے خلاف وسیع پیمانے پر احتجاجی مظاہروں میں لاکھوں شہریوں نے شرکت کی۔ یہ سلسلہ رکنا نہیں چاہیے اور غزہ میں قتل عام، نسلی تطہیر اور جبری انخلا کی باتیں کرنے والے انسانیت دشمن عناصر کا ہر محاذ پر، ہر جگہ اور ہر ممکن طریقے سے تعاقب ہونا چاہیے۔ مسلمانان عالم کو اپنا فرض سمجھ کر اور ابھی یا کبھی نہیں کے اصول پر غزہ کو سقوط سے بچانے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔