ملک میں دہشت گردی اور عالمی کھیل

ذرائع ابلاغ سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق ملک میں دہشت گردی کے خلاف پاک فوج اور دیگر قانون نافذکرنے والے اداروں کی منظم کارروائیاں مسلسل جاری ہیں۔ ڈیرہ غازی خان میں خفیہ اداروں کی نشان دہی پر ہونے والے ایک آپریشن میں فتنۂ خوارج کے ایک اہم علاقائی کمانڈر کو اس کے سات ساتھیوں سمیت ماردیا گیا،اسی طرح افغانستان سے ملک میں دراندازی کرنے والے ایک گرو ہ کو بھی سیکورٹی فورسز نے گھیرے میں لے کر ہلاک کر ڈالا۔

تجزیہ کاروں کے مطابق پاک افغان تعلقات میں سرد مہری اور افغان باشندوں کی وطن واپسی کے لیے کیے جانے والے اقدامات میں جوں جوں تیزی آتی جارہی ہے ،دوسری جانب سے ملک میں دراندازی کی کوششوں میں بھی شدت دکھائی دے رہی ہے۔ حالیہ دنوں میں سرحدی محافظین نے درندازی کی متعدد کوششوں کو ناکام بنایاہے لیکن فتنۂ خوارج کے مختلف گروہوں نے ملک کے خلاف جاری کاوشوں کی ترک نہیں کیاہے جس کی بڑی وجہ انھیں اسلحے، سرمائے اور بھٹکے ہوئے نوجوانوں کی مسلسل فراہمی ہے ۔

پاکستان میں دہشت گری و تخریب کاری کی بڑھتی ہوئی وارداتیں اور سرحدی در اندازیاں خطے میں بالادستی کی عالمی طاقتوں کے مفادات کی کشمکش کے کھیل کا حصہ معلوم ہوتی ہیں۔ یہ کشمکش اب باقاعدہ عالمی تجارتی جنگ کی شکل اختیار کرچکی ہے۔امریکا کے خبطی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں سے واضح ہے کہ انسانی حقوق، احترام رائے، آزادی ٔ نسواں ،انصاف اور بین الاقوامی قوانین کی پابندی جیسے نقاب کی اب انھیں ضرورت محسوس نہیں ہورہی بلکہ فسطائیت پر مشتمل منصوبوں اور نئی عالمی استعماریت اور جدید نوآبادیاتی نظریات پر عمل کرنے کے لیے طاقت کے علانیہ،ظالمانہ اور بے لگام استعمال کے سواآگے بڑھنے یا باالفاظِ دیگر دنیاپر اپنی بالادستی کو قائم رکھنے کے لیے امریکی حکمران ٹولے کے پاس کوئی دوسرا حربہ ہی نہیں ہے ۔ ٹرمپ ٹولہ کی تجارتی جنگ کا اولین ہدف چین ہے ۔تجارتی و اقتصادی معرکہ آزمائی بتدریج ایک نئی سرد جنگ میں تبدیل ہورہی ہے اور اس نئی جنگ کے لیے امریکا کو دنیا کے مختلف خطوں میں نئے اڈے اور مراکز درکار ہیں ۔ ماضی کی روس،امریکا سرد جنگ میں بھی امریکا نے وسط ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ میں اپنے مفادا ت کے تحفظ کے لیے مختلف مراکز قائم کیے تھے اور موجودہ عالمی صورتِ حال میںبھی اس کے پاس کوئی غیر جغرافیائی یا غیر مرئی راستہ نہیں ہے جس پر چل کر وہ اقتصادی حوالے سے دنیا کے اہم ترین خطوں پر اپنی اجارہ داری قائم کرسکے ۔ وسطِ ایشیا کے معدنی ذخائر ہوں یا ایشیا،افریقہ اور یورپ کے سنگم پر واقع اہم ترین بندرگاہ فلسطینیوں کا مقتل غزہ ہو،دونوں اقتصادی مراکز پر ٹرمپ ٹولہ حریصانہ نگاہیں جمائے بیٹھا ہے ۔عالمی مجرم نیتن یاہو کو اسلحے اور دیگر وسائل کی فراہمی اور مصر، عرب امارات اور سعودی عرب کے ذریعے فلسطینی تحریک مزاحمت کو کچلنے کے پسِ پردہ یہی عزائم کارفرماہیں۔ اسرائیل سے زیادہ اس وقت غزہ پر امریکا تسلط حاصل کرناچاہتاہے ۔ گویا حماس کے مجاہدین اسرائیل کے نہیں بلکہ اس وقت امریکا کے خلاف لڑ رہے ہیںجبکہ امریکی دباؤ کی وجہ ہی سے عرب ممالک نے دم توڑتے اہلِ غزہ کو پانی کا گھونٹ دینے سے بھی انکارکردیاہے ۔

وسطِ ایشیا کی اہمیت اور چین کاراستہ روکنے کے لیے امریکا کو اس خطے میں بھی ایک اہم فوجی مرکز یا دہشت گردی کے ایک اڈے کی ضرورت ہے جہاں بیٹھ کر وہ چین اور روس جیسی علاقائی قوتوں کو زک پہنچاسکے۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی سطح پر اسلام دشمنی کا واضح تاثر رکھنے والی امریکی حکومت اس وقت حیرت انگیز طور پرافغانستان کی ”اسلامی امارت” کے ساتھ خیر سگالی کے پیغامات کا تبادلہ کررہی ہے اور مبینہ طور پرافغانستان میں ایک نئے اڈے کی تعمیر کے لیے تگ و دو میں مصروف ہے ۔ حالات کا دھارا جس سمت رواں دواں ہے وہ ظاہر کرتاہے کہ چین کی ناکہ بندی اور چین کے اہم اتحادی یعنی پاکستان کو لگام ڈالنے کے لیے افغانستان کو بیس کیمپ بنانے کی کوشش ہورہی ہے جس کے لیے اربوں ڈالر کا بجٹ استعمال کیاجارہاہے اورجس طرح قومیت کا بت کھڑا کرکے سلطنتِ عثمانیہ کو درجنوں چھوٹی ریاستوں میں منقسم کیا گیا تھا بالکل اسی طرح پاکستان کے خلاف بھی قومیت،لسانیت اور علاقائیت کا ہتھیار استعمال کیا جارہاہے ۔

تجزیوں اور قیاس آرائیوں کے بالمقابل شریعت کی بیان کردہ تعلیمات کی روشنی میں اور حکمت کے مطابق غور و فکر اور تدبر کیا جائے تو بھی واضح ہوتاہے کہ اس وقت ریاست ِ پاکستان کو کمزور اور غیر مستحکم کرنے کی کوششیں اپنی ہوا اکھاڑنے، اپنے مورچوں کو اپنے ہاتھوں تباہ کرنے اوردراصل بھارت ، اسرائیل اور امریکا ہی کو خطے میں قدم جمانے کا موقع دینے کے مترادف ہیں۔ جغرافیائی صورتِ حال اور خطے میں ہونے والی صف بندیوں یا بین الاقوامی سیاست کے مظاہر پر ہی نظر ڈال لی جا ئے تو صاف دکھائی دیتاہے کہ عرب ریاستوں کی شہ رگ پر ہاتھ رکھنے کے بعد ترکیہ کو داخلی بحرانوں میں مبتلا کیا جارہاہے جبکہ پاکستان کو اپنے شکنجے میں رکھنے او ر پاکستان کی عسکری قوت کو بے دست و پا کرنے کے لیے دہشت گردوں، فتنہ ٔ خوارج اور پڑوسی ملک سے مدد حاصل کی جارہی ہے ۔

ان حالات میں ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کے تمام طبقات دفاع ،سلامتی ،امن اور داخلی استحکام کے لیے متحد ہوجائیں۔ سیاسی و مذہبی انارکی کو بہر صورت ختم کیا جائے۔ دہشت گردی کے خلاف پوری قوم کو ایک نقطے پر مرتکز کیاجائے اور افغانستان کو باور کروایاجائے کہ وہ ذمہ دارانہ طرز ِعمل اختیار کرے بصورتِ دیگر لاکھوں مسلمانوں کی قربانی سے افغانستان کو حاصل ہونے والی آزادی نام نہاد ہی رہے گی اور وہ اس خطے کے لیے امن و سلامتی کا مرکز بننے کی بجائے آخر کار فتنہ ٔ و فساد کا مرکز بن جائے گا۔ خوارج کے غیر معمولی فتنے کی وجہ ہی سے احادیث ِ مبارکہ میں اس کے خلاف شدیدوعیدیں اور تنبیہات آئی ہیں۔ خوارج کی ایک اہم نشانی ان کی بے عقلی، عدمِ تدبر اور غور و فکر کی صلاحیتوں کا فقدان بھی ہے ۔ اس وقت عالمی سطح پر برپا کھیل یہ ثابت کررہاہے کہ مسلمانوں کے باہمی تفرقے، داخلی لڑائیوں اور تعصبات ہی ان کے لیے زہرِ قاتل ثابت ہو رہے ہیں۔ غزہ کی الم ناک صورتِ حال میںبھی یہی عوامل اہم ترین حیثیت رکھتے ہیں۔ اہلِ وطن کو ان تمام حالات کا درست تجزیہ کرنا چاہیے اور اپنی صفوں میں اتحاد کو قائم رکھنا چاہیے ۔ ملک میں دہشت گردی ایک عالمی کھیل کا حصہ ہے ۔یہ محض چند گروہوں کا پیدا کردہ فساد نہیں ہے ۔ اسے اس کے وسیع تناظر میں دیکھ کر اس سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔