اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل میں پاکستان کی جانب سے پیش کی جانے والی اسرائیل مخالف تجویز اور غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت کے پس منظر میں عالمی ضمیر کی بے حسی ایک بار پھر نمایاں ہو کر سامنے آئی ہے۔
پاکستان نے نہایت مدلل اور اصولی بنیادوں پر اقوامِ متحدہ سے مطالبہ کیا کہ مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں اسرائیل کی جانب سے کی جانے والی انسانی حقوق کی بد ترین خلاف ورزیوں کی تحقیقات کےلئے ایک خودمختار، غیر جانبدار اور آزاد تحقیقاتی میکنزم قائم کیا جائے۔ اس تجویز کا مقصد نہ صرف اسرائیلی مظالم کو بے نقاب کرنا تھا بلکہ ان جرائم پر عالمی سطح پر احتساب کی راہ ہموار کرنا بھی تھا اور یہ اقوام متحدہ کے مقاصد، جمہوریت اور امن و انسانیت کی اقدار کے عین مطابق عمل تھا، تاہم امریکا کی غیر رسمی مگر شدید سفارتی مداخلت، جس میں امریکی کانگریس کے دو سربراہان کی جانب سے واضح دھمکیوں پر مبنی خط بھی شامل تھا، اس کوشش کو کمزور کر گیا۔ اقوام متحدہ کی 47 رکنی انسانی حقوق کونسل میں امریکی نمائندگی نہ ہونے کے باوجود واشنگٹن کی پشت پناہی کرنے والی طاقت کا سایہ واضح طور پر محسوس کیا گیا، جس نے اقوامِ متحدہ جیسے پلیٹ فارم کی خودمختاری پر بھی سوالات اٹھا دیے۔
اس تناظر میں عالمی فوجداری عدالت (ICC) کا بیان بھی اہمیت رکھتا ہے، جس میں اس نے کسی مخصوص ریاست یا ادارے کی طرف سے انصاف کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کی شدید مذمت کی ہے۔ عدالت نے خبردار کیا کہ انصاف کے بین الاقوامی معیار کو دباو¿، دھمکی یا انتقامی کاروائیوں کے ذریعے سبوتاژ کرنے کی کوششیں بین الاقوامی قانون کی روح کے خلاف ہیں۔ امریکی کانگریس کی جانب سے جس طرح انسانی حقوق کونسل کے رکن ممالک کو اسرائیل مخالف ووٹنگ کے ممکنہ نتائج سے ڈرایا گیا، وہ بین الاقوامی انصاف کے پورے نظام کے لیے لمحہ فکریہ ہے اور اس بات کا واضح اور بین ثبوت ہے کہ دنیا میں آج کے اس سلطانی جمہور کے دور میں بھی بجائے اخلاق، تہذیب اور قانون کے ”جس کی لاٹھی، اس کی بھینس“ کا جنگل کا دستور ہی رائج ہے۔ پاکستان کی تجویز کا مقصد محض ایک ملک کو نشانہ بنانا نہیں تھا بلکہ یہ ایک اصولی موقف تھا کہ ہر ریاست چاہے وہ کتنی ہی طاقتور کیوں نہ ہو، قانون کی گرفت میں آئے اور کسی بھی ملک و ریاست کو لا محدود اور ناقابل احتساب طاقت حاصل نہ ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اقوام متحدہ کو طاقتور ریاستوں کی پشت پناہی سے آزاد ہو کر انسانیت کی فلاح اور دنیا میں امن کےلئے فیصلے کرنا چاہئیں۔ اگر ایسا نہ ہوا تو بین الاقوامی نظامِ انصاف صرف طاقتوروں کا آلہ کار بن کر رہ جائے گا اور بد قسمتی سے اس وقت دنیا میں اقوام متحدہ کی ناک تلے یہی ہو رہا ہے۔
دوسری جانب زمینی حقائق اس سے کہیں زیادہ دل دہلا دینے والے ہیں۔ غزہ کی پٹی میں اسرائیلی افواج نے نہتے فلسطینیوں پر بمباری کا سلسلہ تیز کر دیا ہے۔ تازہ حملوں میں پناہ گزین کیمپوں، اسکولوں، اسپتالوں اور سکونتی عمارتوں کو نشانہ بنایا گیا، جس کے نتیجے میں خواتین اور بچوں سمیت مزید 120 افراد شہید اور درجنوں زخمی ہو گئے۔ مصر سے ملحقہ رفح شہر کو صہیونی قابض فوج نے امریکی اسلحہ کی مدد سے مکمل طور پر ملیامیٹ کرکے وہاں کے ہزاروں بے خانماں اور بے یار و مددگار فلسطینی باشندوں کو جبری بے دخلی کے احکامات جاری کر دیے ہیں۔ ایک ویڈیو گردش کر رہی ہے جس میں قابض صہیونی درندے رفح کو کھنڈر میں تبدیل کرنے کے بعد وہاں کے ستم رسیدہ مظلوموں کو بے دخل کرتے اور یہ کہتے نظر آ رہے ہیں کہ رفح ہمارے قبضے میں آگیا ہے، یہاں سے نکلو اور پھر کبھی لوٹ کر یہاں کا رخ مت کرنا۔ یہ تمام اقدامات بدترین جنگی جرائم کے زمرے میں آتے ہیں جن کی آزادانہ تحقیقات ناگزیر ہیں۔ لبنان میں بھی اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں حماس کے رہنماو¿ں کے ساتھ بچے بھی شہید ہوئے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ اسرائیل کی کارروائیاں نہ صرف منظم ہیں بلکہ ان کا دائرہ وسیع تر ہوتا جا رہا ہے۔ عالمی میڈیا اور حقوقِ انسانی کی تنظیموں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان مظالم کو بے نقاب کریں تاکہ عالمی رائے عامہ بیدار ہو۔
ان حالات میں مصر جیسے ممالک کی جانب سے جنگ بندی کی تجاویز قابلِ تحسین ہیں، لیکن جب تک بین الاقوامی برادری طاقت کے مراکز کے اثر سے آزاد ہو کر غیر جانبداری کا مظاہرہ نہیں کرتی، محض تجاویز اور بیانات سے کوئی بنیادی تبدیلی ممکن نہیں۔ پاکستان کی جانب سے پیش کردہ تجویز ایک اہم اور اصولی قدم تھا، جسے عالمی برادری کی حمایت حاصل ہونی چاہیے تھی، مگر بدقسمتی سے طاقت کے عالمی مراکز نے ایک بار پھر انصاف کے ترازو کو اپنے مفاد کی طرف جھکا دیا۔ جس سے ثابت ہوگیا کہ اقوام متحدہ اپنے وجود کی افادیت کھو چکا ہے اور اب لیگ آف نیشنز کی طرح اس کی بھی مکمل تحلیل کا وقت ہوا چاہتا ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ عالمی برادری بالخصوص ترقی پذیر ممالک اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں اور بڑی طاقتوں کی منافقانہ پالیسیوں کو قبول نہ کرنے کا عزم کرلیں تاکہ انسانی حقوق کی بحالی کےلئے کسی ایک طاقتور ملک کی پالیسیوں کے مرہون منت نہ رہنا پڑے۔ اس کے ساتھ ساتھ مسلم ممالک کو بھی اپنی پالیسیوں پر ازسرنو غور کرنا ہو گا تاکہ فلسطینی عوام کی حمایت محض بیانات سے نکل کر عملی اقدامات کی صورت اختیار کرے۔ اگر اب بھی خاموشی رہی تو تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔
پاک بنگلادیش تعلقات میں گرمجوشی کے مستحسن مظاہر
پاکستان اور بنگلا دیش کے درمیان 13 سال بعد سیاسی مشاورتی اجلاس کا انعقاد ایک خوش آئند پیش رفت ہے۔ 2012 کے بعد پہلی بار یہ اعلیٰ سطحی اجلاس 17 اپریل کو ڈھاکا میں منعقد ہونے جا رہا ہے، جس میں پاکستان کی نمائندگی سیکرٹری خارجہ آمنہ بلوچ کریں گی۔ اس اجلاس کی اہمیت محض رسمی ملاقات سے کہیں بڑھ کر ہے، یہ ایک ایسا موقع ہے جو دونوں برادر اسلامی ملکوں کو ماضی کے اختلافات سے آگے بڑھ کر مستقبل میں تعاون کے نئے امکانات پیدا کرنے کا موقع فراہم کرے گا۔ یہ اجلاس اس وقت ہو رہا ہے جب عالمی سیاست میں جغرافیائی اور معاشی اتحادوں کی نئی صورت گری ہو رہی ہے۔ پاکستان اور بنگلا دیش، جو تاریخی طور پر ایک دوسرے سے جڑے رہے ہیں، اگر ماضی کی تلخیوں کو پیچھے چھوڑ کر باہمی احترام اور مفادات کی بنیاد پر آگے بڑھیں، تو یہ نہ صرف ان دونوں اقوام کے عوام کے لیے مفید ہو گا بلکہ پورے خطے میں استحکام کا باعث بھی بنے گا۔