بھارت میں مسلمانوں کو دیوار سے لگانے کی کوششیں

بھارت میں مسلمانوں کے جان و مال پر حملوں کے بعد ان کی مذہبی اقدار اور اداروں کو بھی مودی سرکارنے ملیامیٹ کرنا شروع کر دیا ہے۔ بھارتی لوک سبھا کے بعد بھارتی راجیہ سبھا میں متنازع وقف ترمیمی بل منظور کر لیا گیا۔

بھارتی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق متنازع وقف ترمیمی بل کو راجیہ سبھا میں ایک طویل بحث کے بعد منظور کیا گیا جس کے حق میں 128 ووٹ جبکہ مخالفت میں 95 ووٹ پڑے۔ لوک سبھا سے وقف بل کی منظوری نے ثابت کر دیا ہے کہ مودی کا بھارت عملی طور پر ایک ہندو راشٹر بن چکا ہے۔ وقف ترمیمی بل کی منظور بھارتی مسلمانوں کے حقوق پر نیا حملہ ہے۔ اپوزیشن جماعتوں نے بل کو ‘غیر آئینی’ قرار دیتے ہوئے شدید احتجاج بھی کیا۔ مودی حکومت کا دعویٰ ہے کہ بل سے وقف املاک کی بہتر نگرانی ممکن ہوگی لیکن اپوزیشن نے الزام لگایا کہ بل اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے حقوق پر بڑا حملہ ہے کیونکہ بل میں غیر مسلم اراکین کی وقف بورڈ میں شمولیت کی تجویز دی گئی ہے جس سے وقف املاک پر حکومتی کنٹرول میں اضافہ ہوگا۔
یادرہے بھارت میں 20کروڑ سے زائد مسلمان بستے ہیں اور وہ بھارت کی سب سے بڑی اقلیتی آبادی ہے۔ اس کی ملکیت میںمجموعی طور پر 8 لاکھ 70 ہزار وقف کے زیر اہتمام اثاثے موجود ہیں۔یہ اثاثے 9 لاکھ ہیکٹر اراضی پر مشتمل ہیں جن کی مالیت 14.2 ارب ڈالر بتائی جاتی ہے۔ہندو انتہا پسند جماعت بی جے پی شروع دن سے مسلمانوں کی وقف املاک کو ہتھیانے کی کوشش کرتی رہی ہے۔ اس سے قبل یہ بل پہلی بار 1995ءمیں پیش کیا گیا تھا۔ اس وقت سے لے کر اس میں اب تک 40 ترامیم کی جاچکی ہیں۔ بھارتی مسلمانوں نے وقف جائیدادوں سے متعلق بھارتی حکومت کے ہر جائز خدشے کا ازالہ کیا اور ضروری قانون سازی میں تعاون کیا ہے مگرایسا لگتا ہے کہ مودی سرکار کا مقصد اوقاف کے معاملات کو ٹھیک کرنا نہیں بلکہ سیدھا سیدھا مسلم اوقاف پر قبضہ کرنا ہے۔ ہندو انتہا پسند جماعت بی جے پی کی حکومت کا متعارف کردہ نیا وقف بل بھارت میں مسلمانوں کی کھربوں روپے مالیت کی وقف جائیدادوں پر ہاتھ صاف کرنے کے دیرینہ مذموم عزائم کی تکمیل ہے۔ اس بل کے ذریعے نہ صرف یہ کہ مودی حکومت نے خود بھارت کے آئین کی کھلی خلاف ورزی کی ہے بلکہ” سیکولر بھارت“ کے حقیقی چہرے سے بھی پردہ سرکادیا ہے۔یہ بل مسلمانوں کے پرسنل معاملات میں صریح مداخلت ہے اور مسلمانوں کے اوقاف کے معاملات میں ہندوو¿ں کو فیصلے کا اختیار دیناعقل و منطق کے تقاضوں سے بھی میل نہیں کھاتا۔یہی وجہ ہے کہ انڈین نیشنل کانگریس سمیت کئی بڑی بھارتی سیاسی جماعتوں نے بھی اسے مسترد کیا ہے۔ اپوزیشن لیڈر راہول گاندھی نے احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ بل اقلیتوں کے حقوق سلب کرنے کی کوشش ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وقف ترمیمی بل مسلمانوں کے حقوق اور آئین پر حملہ ہے، جو مستقبل میں دیگر برادریوں کو بھی نشانہ بنا سکتا ہے۔لیکن ایسا لگتا ہے کہ مودی سرکار مسلم دشمنی میں اس قدر اندھی ہوچکی ہے کہ اسے کسی چیز کی پروا نہیں ہے۔
دراصل مودی سرکار کی سیاست کی اساس ہی اسلام دشمنی اور مسلم دشمنی پر ہے۔اس جماعت کی ساخت و پرداخت ہی ایودھیا کی بابری مسجد کو شہید کرکے اس کی جگہ رام مندر بنانے کے شوروغوغا کے دوران ہوئی تھی اور اس جماعت میں ہر وہ شخص ہیرو بنا جس نے دوسروں سے بڑھ چڑھ کر مسلم دشمنی کا مظاہرہ کیا۔موجودہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی خوداس کی بہترین مثال ہیں۔کھوکے میں چائے بنانے کی ”قابلیت “کا حامل یہ شخص مسلمانوں کے خلاف اپنی دریدہ دہنی کے بل پر ہی گجرات کا وزیر اعلیٰ بنا اور ہندوو¿ں میں اس کی” شہرت ومقبولیت“ کو اس وقت پر لگ گئے جب اس نے 2001ءکے مسلم کش فسادات کے دوران ہندو بلوائیوں کی کھلے عام پشت پناہی کی اور دو ہزار سے زائد مسلمانوں کو قتل کرکے اس کا فخریہ اظہار کرنے لگا۔یہی وہ واحد” قابلیت“ تھی جس کی بنا پر ”گجرات کے قصائی“ کہلانے والے اس شخص کو ڈیڑھ ارب سے زائد آبادی کے حامل ملک بھارت کا تین دفعہ ”پردھان منتری “چنا گیا۔مودی کی اندھی مسلم دشمنی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اس کی موجودہ کابینہ میں بھارت کے بیس کروڑ سے زائد مسلمانوں کی نمایندگی کے لیے کسی برائے نام مسلمان کو بھی اہل نہیں سمجھا گیا۔مودی کے دور میں بھارت میں اسلام دشمنی اس انتہا کو پہنچ چکی ہے کہ اب ماضی کے مسلمان بادشاہوں کی قبروں کو بھی اکھاڑ پھینکنے کی باتیں ہورہی ہیں۔بھارت کے درجنوں شہروں کے نام اسلامی شناخت کے باعث تبدیل کیے جاچکے ہیں۔اردو زبان کو دیس نکالا دیا جاچکا ہے اور اب کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب بھارت کے کسی حصے میں مسلمانوں پر تشدد ہجمومی قتل اور مسلمانوں کی زمینوں اور جائیدادوں پر قبضے کی اطلاع نہ آتی ہو،اب نئے وقف بل کے ذریعے مودی سرکار نے مسلمانوں کو دیوار سے لگانے کا ایک بڑا اقدام کیا ہے جس کے اثرات بہت دیر پا ہوسکتے ہیں۔ بھارت کے مسلمانوں کو بہر حال اپنی بقا کی جنگ لڑنی ہے،یہ لڑائی اب ناگزیر ہوچکی اور ایسا لگتا ہے کہ اگلے مہینوں میں یہ جنگ تیز ہوگی اور اس کے شعلے مودی سرکار کے ایوانوں کی طرف بھی بڑھیں گے۔
بلوچستان میں امن کے لیے موثر اقدامات کی ضرورت
آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کے زیر صدارت 268 ویں کور کمانڈرز کانفرنس نے ہرقیمت پر بلاتفریق دہشت گردی کو ختم کرنے کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے طے کیا ہے کہ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کرنے والے ملک دشمن عناصر، سہولت کاروں اور ان کی حوصلہ افزائی کرنے والوں کے خلاف ریاست پوری طاقت سے نمٹے گی۔ شرکائے کانفرنس کے مطابق بلوچستان میں تمام ملکی اور غیر ملکی عناصر کا اصل چہرہ، گٹھ جوڑ اور انتشار پھیلانے اور پروان چڑھانے کی کوششیں پوری طرح سے بے نقاب ہو چکی ہیں، ایسے عناصر اور ایسی کوششیں کرنے والوں کو کسی بھی قسم کی معافی نہیں دی جائے گی۔ کور کمانڈرز کانفرنس دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے موثر اقدامات کا عزم مستحسن ہے اور توقع رکھی جانی چاہیے کہ پاکستان کے قومی سلامتی کے ادارے کانفرنس کے اعلامیے کی روح کے مطابق ملک بھر میں بالعموم اور بلوچستان میں بالخصوص دہشت گردی و تخریب کاری پھیلانے والے عناصر اور کی پشت پناہی کرنے والی بیرونی قوتوں کو بے نقاب کرنے اور ان کے تخریبی نیت ورک کو توڑنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھیں گے۔