نئی تجارتی جنگ کا آغاز اور مسلم امہ کے لیے مواقع

ٹرمپ کی جانب سے امریکی حدود میں داخل ہونے والے دیگر ممالک کے تجارتی سامان پر درآمدی ٹیکس میں اضافے کے اعلان کے بعد دنیا بھر کی منڈیوں میں زلزلے کی کیفیت رونما ہوچکی ہے۔

ٹرمپ نے اپنے اقدام کو امریکی معیشت کی بحالی کے آغاز اور امریکا کی نئی آزادی سے تعبیر کیا، تاہم ان کے اعلان کے بعد سر دست امریکی اسٹاک ایکسچینج میں زبردست مندی دیکھی گئی ہے اور سرمایہ داروں کے اربوں ڈالر ڈوب گئے ہیں۔ امریکی وزیر خزانہ نے متنبہ کیاہے کہ امریکی اقدام کے جواب میں انتقامی کارروائی سے گریز کیا جائے، تاہم کینیڈا نے فوری طورپر امریکی مصنوعات پر پچیس فیصد درآمدی ٹیکس عائد کردیا ہے ۔چین نے امریکا سے اپنے اقدام پر نظر ثانی کا تقاضا کیاہے جبکہ پاکستان کی وزارتِ خارجہ سے متعلق ایک اعلی اہلکار کے مطابق حکومتِ پاکستان انتیس فیصد اضافی ٹیرف میں کمی کے حوالے سے امریکی حکام سے رابطے کی کوشش شرو ع کرچکی ہے ۔ امریکی اقدام پر آئی ایم ایف کی جانب سے بھی اعتراض اٹھایا گیاہے اور اس اقدام کو دنیا میں تجارتی جنگ کے آغاز اور معاشی نمو میں کمی اور عالمی تجارتی حجم اور سرمائے میںگرواٹ کا ذریعہ قرار دیاہے۔
ٹرمپ نے خصوصی صدارتی اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے امریکی معیشت کے تحفظ اور امریکی اقتصادی آزادی کے عنوان سے جو قدم اٹھایاہے ،عالمی سطح پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ یہ دنیا بھر میں رونما ہونے والے ردعمل سے ظاہرہے ۔ امریکا عالمی سطح پر بہت بڑی منڈی کا درجہ رکھتاہے اور اس کی زبردست قوتِ خرید نے اسے سرمایہ داروں اور تجارتی کمپنیوں کےلئے دنیا کے سب سے پر کشش مقام کی حیثیت دے رکھی ہے، نیز یہ ریاست خود بھی عالمی سرمایہ داریت کی سب سے بڑی علم بردار ہے اور عالمی معیشت میں بہت بڑا حصہ رکھتی ہے تاہم امریکی صدر کی جانب سے درآمدی ٹیکسوں میں بھاری اضافے کے بعد امریکا کی یہ حیثیت برقرار نہیں رہے گی۔ تجزیہ کار وں کے مطابق امریکی صدر کا یہ اقدام سرمایہ داریت کے بنیادی نظریے یعنی نجی ملکیت، آزاد منڈی ،منافع کی حوصلہ افزائی (خواہ وہ سود ہی کی شکل میں ہو) اور مسابقت کے خلاف اور ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے اصولوں سے متصادم ہے کیونکہ اس اقدام سے آزاد تجارت میں حکومتی مداخلت کا دروازہ کھل گیا ہے، نیز مسابقت کے عمل کو جبراً اپنے حق میں موڑنے کی کوشش کی گئی ہے ۔
گو ممکنہ طورپر خود امریکی حکومت کو اس کا یہ فائدہ ہوسکتاہے کہ وہ مقامی سطح پر تیار کی جانے والی بعض مصنوعات مثلا ًاسٹیل وغیرہ میں خود کفالت اختیار کرتے ہوئے قومی خزانے میں سرمائے کا اضافہ کرنے اور قرضو ں کا بھاری بوجھ کم کرنے میں کامیاب ہوجائے لیکن دوسری جانب اس اقدام کے نتائج عالمی تجارت میں مندی، نئی منڈیوں کی تشکیل اور نئے تجارتی اتحادوں کی صورت میں نکل سکتے ہیں۔ اس لحاظ سے امریکی صدر نے ایک قسم کا جوا کھیلا ہے اور اس اقدام کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ امریکا جو جدید مصنوعات ، تجارتی کمپنیوں ،عسکری قوت اور ان سب کے نتیجے میں حاصل ہونے والے عالمی غلبے کی بدولت دنیا کی واحد سپر طاقت بن چکا تھا، اب تجارتی میدان میں پچھلے قدموں ہٹنے پر مجبور ہوچکاہے۔ چین نے دنیا کی دوسری بڑی معیشت بن کر عالمی منڈیوں پر اپنی سطوت قائم کرلی ہے اور وہ جدید ترین ٹیکنالوجی میں بھی امریکی غلبے کو چیلنج کرنے کی پوزیشن میں آچکاہے۔ اگر امریکی قیادت قول و عمل کی یکسانی اور نظریے اور اقدار کی برتری پر یقین رکھتی تو اس موقع پر وہ سرمایہ داری نظریات یعنی نجی ملکیت، آزاد منڈی،منافع کی حوصلہ افزائی اور مسابقت کا احترام کرتے ہوئے عالمی معیشت کے نمو کو ترجیح دیتے ہوئے صاف ستھرے مقابلے کے رجحان کو ترجیح دیتی لیکن چونکہ کسی بھی نظریے یا اقدار کا مقصد ان کے نزدیک عمل کی اصلاح کی بجائے دنیا میں طاقت ،بالاستی اور اپنی اجارہ داری کا قیام ہے لہٰذا انسانی حقوق، جمہوریت اور انصاف کے نعروں کے ساتھ جو سلوک امریکی قیادت نے غزہ میں کیا ہے وہی برتاو معیشت اور تجارت کے میدان میں اپنے ہی وضع کردہ اصولوں کے ساتھ کیا گیاہے۔
عالمی بالا دستی کے زعم کا شکار اقوام ایسے ہی تضادات و تناقض کا مجموعہ ہوا کرتی ہیں۔ نظریات ا ور اقدار کی بجائے طاقت ہی ان کا اصل ہتھیار ہوتاہے جس کے ذریعے وہ کمزور اقوام کو اپنے مفادات کے مطابق استعمال کرتی ہیں۔ اگر چین عالمی تجارتی میدان میں پیش رفت نہ کرتا توامریکا آئندہ کئی دہائیوں تک انہی نظریات کو راہِ نجات کے طورپر پیش کرتے ہوئے کمزور اقوام کو انھیں اختیار کرنے پر مجبور کرتا رہتاتاہم قدرت اقوامِ عالم کو دکھا رہی ہے کہ عالمی انصاف،حقوق اور انسانی آزادی کے نعرے لگانے والا ملک کس طرح خود ہی اپنے نظریات سے منحرف ہوتا جارہاہے۔ امریکا چوں کہ سرمایہ داریت کا علم بردار ہے، اسی لیے مسابقت کے عمل کو متاثر اور نجی تجارت میں حکومتی مداخلت کا مرتکب ہونے کی وجہ سے اس پر کڑی تنقید کی جارہی ہے۔ بہرحال تجارتی میدان میں شروع کی جانے والی اس جنگ کا دائرہ اب مزید وسیع ہوگااور نئے سیاسی اتحاد قائم ہوں گے۔
دیکھنا یہ ہوگا کہ اس صورتحال سے عالم ِ اسلام کیا فائدہ اٹھا سکتاہے؟ٹکڑوں میں منقسم عالم ِ اسلام کے پاس موقع ہے کہ وہ داخلی اتحاد کو بروئے کار لاتے ہوئے تجارتی، معاشی ،اقتصادی اور دفاعی حوالوں سے باہمی تعاون کو فروغ دے، محض سرمائے کی بجائے عقیدے، نظریے، اسلامی اخوت اور ملی تقاضوں کی بنیاد پر ایک دوسرے کا ساتھ دیا جائے۔ اس وقت ترکیہ اور سعودی عرب مسلم امہ کی بڑی قوتیں ہیں۔ پاکستان بہترین عسکری طاقت رکھتاہے جوبفضلہ تعالیٰ بھارت جیسی جارح، توسیع پسندانہ عزائم کی حامل اور مسلم کش پالیسیوں پر عمل پیرا ریاست کی بالواسطہ اور بلا واسطہ جنگوں کا مقابلہ کررہاہے۔ انڈونیشیا، ملیشیا اور بنگلہ دیش بھی ابھرتی معیشت ہےں۔ یہ ممالک مل جل کر ایک نئے عالمی تجارتی نظام میں اہم پیشرفت کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ امریکی اقدامات کے نتیجے میں سرمایہ داریت ختم نہیں ہوگی تاہم اس کی ایسی صورتیں ضرور سامنے آسکتی ہیں جو دنیا کسی ایک ریاست کی بے لگام بالادستی کے مقابلے میں کم خطرناک ہوں۔ مسلم ممالک کو چاہیے کہ وہ عدل، احسان ، باہمی اخوت اور کمزوروں کے ساتھ حسنِ سلوک کے عمل کو دنیا کے سامنے عملی طورپر پیش کرنے کےلئے ایسے معاشی منصوبوں کا آغاز کریں جو مسلم ممالک میں مہنگائی میں کمی، روزگار کی آسانی، تجارت کے فروغ اور امن کے قیام کا ذریعہ بن سکیں۔