آج وطن عزیز پاکستان سمیت عالم اسلام کے بیشتر حصے میں عید الفطر کا پہلا دن جبکہ سعودی عرب سمیت مسلم دنیا کے بہت سے ملکوں میں آج عید کا دوسرا دن ہے۔ حسب روایت اس موقع پر دنیا بھر کے مسلمان عید کی مسرتوں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ مراکش سے کاشغر تک تمام مسلمان رمضان المبارک کے اختتام پر اللہ تعالیٰ کے انعامات اور لطف و کرم کا احساس دلوں میں تازہ کرکے اس کے حضور سجدہ ریز ہیں اور شکر و سپاس بجا لا رہے ہیں کہ یہی عید کی حقیقی روح اور مسرتوں کا تقاضا ہے۔
عید الفطر امت مسلمہ کے لیے خوشیوں اور مسرتوں کا تہوار ہے۔ یہ دن اللہ کی نعمتوں اور رحمتوں پر شکر بجا لانے، باہمی محبت و یگانگت کے جذبات کو فروغ دینے اور غریب و نادار مسلمانوں کو اپنی خوشیوں میں شریک کرنے کا درس دیتا ہے، تاہم اس سال عید الفطر ایک ایسے عالم میں آئی ہے جب مسلم دنیا غم، کرب اور بے بسی کی تصویر بنی ہوئی ہے۔ خاص طور پر فلسطین اور غزہ میں لاکھوں کلمہ گو مسلمانوں پر امریکا اور اسرائیل کی طرف سے جاری انسانیت سوز مظالم نے عید کو خوشیوں اور مسرتوں کی بجائے غم و اندوہ کے موقع میں بدل کر رکھ دیا ہے۔ رمضان المبارک کے دوران مسلمانان عالم نے صبر و تقویٰ کے ساتھ روزے رکھے، راتوں کو رب کی بارگاہ میں قیام کیا اور رب کریم کے حضور جھک کر مغفرت اور رحمتوں کی دعائیں مانگیں، مگر اسی مقدس مہینے کے دوران اہل غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے ایسے ہولناک مناظر دیکھنے کو ملے جنہوں نے دلوں کو خون کر دیا۔ سات اکتوبر 2023ءسے اب تک ڈیڑھ سال کے عرصے میں سرکاری اعداد و شمار سے ہٹ کر حقیقت میں ایک لاکھ سے زائد فلسطینی شہید کیے جا چکے ہیں، لاکھوں بے گھر ہو چکے ہیں اور بچے یتیم و بے آسرا ہو رہے ہیں۔ ظلم و ستم کی اس کالی رات کے طویل عرصے میں یہ مسلسل دوسری عید الفطر ہے جو اہل غزہ کے لہو میں رنگی ہوئی ہے۔ سات اکتوبر 2023 سے شروع ہونے والے اسرائیلی ظلم و جبر کا سلسلہ ایک سال پانچ ماہ بعد بھی نہ صرف جاری ہے بلکہ پہلے سے زیادہ شدت اختیار کر چکا ہے۔ نہتے فلسطینیوں پر ہر جانب سے قیامت ٹوٹی ہوئی ہے۔ زمین، فضا اور سمندر سے حملے کیے جا رہے ہیں۔ معصوم بچے، بوڑھے، خواتین، نوجوان سب ظلم و ستم کا شکار ہو رہے ہیں۔ غزہ کے لاکھوں مسلمان ایک وسیع صحرا میں بے یار و مددگار پڑے ہوئے ہیں، جہاں ان کو بچانے کیلئے کوئی آڑ، کوئی پناہ گاہ اور کوئی دیوار موجود نہیں۔ سفاک قابض طاقت انہیں شش جہات سے تاک تاک کر نشانہ بنا رہی ہے اور ایک ایک کرکے سب کو فنا کے گھاٹ اتار دینے کے درپے ہے۔
یہ صورتحال امت مسلمہ کےلئے لمحہ فکریہ ہے کہ کیا ہم محض دکھ بھری خبریں سننے اور افسوس کرنے تک محدود رہیں گے یا عملی طور پر کچھ کرنے کی ہمت کریں گے؟ دنیا کی سب سے بڑی فوجی طاقت امریکا کھل کر انسانیت کے اس سفاکانہ قتل عام میں نہ صرف اسرائیل کا پشت پناہ ہے بلکہ ہر لحاظ سے اس ظلم و سفاکی میں اسرائیل کا سہیم و شریک بھی ہے۔ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ درندے دنیا کے خطرناک ترین اسلحے کے ساتھ نہتے انسانوں پر حملہ آور ہوں اور انہیں مکمل فنا کر دینے کے عزائم رکھتے ہوں، تو انسانی المیہ اور تباہی کس قدر وسیع پیمانے پر پھیلی ہوگی۔ ستم بالائے ستم یہ کہ ایک طرف طاقتور ریاستیں فلسطینیوں کی نسل کشی میں براہ راست یا بالواسطہ ملوث ہیں اور دوسری طرف مسلم حکمران بے بسی، بے حسی اور بے حمیتی کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ عید کے ان لمحات میں امت مسلمہ کو یہ سوچنا ہوگا کہ اس کے ڈیڑھ ارب سے زیادہ افراد تعداد میں زیادہ ہو کر بھی کیوں بے بس ہیں؟ کیوں مسلم دنیا کی حکومتیں عملی اقدام سے گریزاں ہیں؟ کیوں ہمارے وسائل بے اثر ہیں؟ کیا ہماری ریاستیں اور تنظیمیں صرف قراردادیں پاس اور زبانی جمع خرچ کے لیے ہی رہ گئی ہیں اور عملی طور پر کوئی ٹھوس سفارتی، سیاسی و فوجی اقدام ان کے بس میں نہیں اور امت مسلمہ یونہی درندوں کے ہاتھوں فلسطینیوں اور کشمیریوں کا شکار ہوتا دیکھتی رہے گی؟
عید خوشیوں کا موقع ہے، مگر جب گھر کے صحن میں گھر کے افراد کے لہو میں تر لاشے پڑے ہوں تو گھر کے باقی افراد کیسے سکون اور اطمینان سے عید منا سکتے ہیں؟ جب مائیں بچوں کی خونچکاں لاشیں اٹھائے مدد کی دہائیاں دے رہی ہوں، تو کیسی مسرت اور کیسی راحت؟ کیا کوئی بھی حساس دل رکھنے والا مسلمان عید کی خوشیوں میں کھو کر ان مظلوموں کو بھول سکتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ یہ وقت امت مسلمہ کےلئے سخت آزمائش کا ہے۔ یہ وقت ہے کہ ہم انفرادی و اجتماعی حیثیت میں فلسطینی عوام کے حق میں آواز بلند کریں اور دنیا پر واضح کریں کہ ہم اپنے مظلوم بھائیوں کے ساتھ ہیں۔ فلسطینی عوام نے قربانیوں کی تاریخ رقم کر دی ہے، اب وقت ہے کہ ہم بھی کچھ کرنے کا عہد کریں۔ عید کے اس موقع پر ہمیں غزہ کے مظلوم عوام کےلئے دعا کرنے کے ساتھ اپنی حکمت عملی پر بھی غور کرنا ہوگی۔ امت مسلمہ کو سیاسی، سفارتی اور معاشی محاذ پر عملی اقدامات کرنا ہوں گے تاکہ فلسطینی عوام کو انصاف مل سکے۔ مسلم ممالک کو اتحاد کا مظاہرہ کرنا ہوگا اور ظالموں کےخلاف ٹھوس حکمت عملی اپنانا ہوگی۔ او آئی سی، عرب لیگ اور مسلم دنیا کے بڑے ممالک اپنی ذمہ داریوں کا ادراک کریں اور رسمی بیانات کی بجائے عملی اقدام کریں۔
عید کے ان پر مسرت لمحات میں وطن عزیز پاکستان بھی طرح طرح کے چیلنجوں اور مشکلات سے گزر رہا ہے۔ عالم اسلام کا یہ بازوئے شمشیر زن، جسے ہر لحاظ سے مضبوط و مستحکم ہونا چاہیے، دشمن کی سازشوں اور دسیسہ کاریوں کے باعث اندرونی اور بیرونی خطروں سے برسر پیکار ہے۔ وطن عزیز پاکستان کو ایک طرف خوارج کے منہ زور اور سفاک فتنے کا سامنا ہے، دوسری طرف سیاسی اور معاشی عدم استحکام اس کی چولیں ہلائے دے رہا ہے۔ عید کے اس موقع پر ہمیں اپنے رویوں کا جائزہ لینا ہوگا۔ کیا ہم ایک دوسرے سے نفرتیں ختم کر سکتے ہیں؟ کیا ہم اپنے وسائل کو صحیح سمت میں استعمال کر سکتے ہیں؟ یہ عید ہمیں موقع دیتی ہے کہ ہم اجتماعی سطح پر اپنا جائزہ لیں اور اس عزم کے ساتھ آگے بڑھیں کہ اپنے مسائل کو نیک نیتی کے ساتھ خود آپس میں بیٹھ کر حل کریں گے تاکہ وطن عزیز پاکستان عالم اسلام کی ایک مستحکم طاقت بن کر سامنے آئے، پاکستان کو اپنی عاقبت نہ اندیشانہ پالیسیوں، فیصلوں، اقدامات، دہشت گردی اور انتشاری سیاست سے کمزور کرنے والے یاد رکھیں، وہ دراصل پاکستان کو نہیں، بلکہ پوری امت مسلمہ کو کمزور کر رہے ہیں۔ اس عید کا یہی پیغام ہے کہ نفرتیں ختم کی جائیں، سب اپنی اپنی پوزیشنوں پر نظر ثانی کریں اور پاکستان کو مستحکم کرکے اسے کشمیر و فلسطین کیلئے ایک مضبوط امید بنائیں۔
